اعظم گڑھ، 25 اکتوبر 1962ء
اعظم گڑھ، 25 اکتوبر 1962ء
محترمی سلام مسنون
آپ کا خط مورخہ 16 ستمبر 1962ء ملا۔ مجھے شکایت ہے کہ آپ کا انداز کچھ ان لوگوں کا سا ہو گیا ہے جو اپنے آپ کو بالکل نہیں دیکھتے، البتہ دوسرا شخص انھیں سر تا پا غلط نظر آتا ہے۔
1۔ آپ کو میری تحریر پہلی بار فروری 1962ء کے پہلے ہفتے میں رام پور میں عبدالحئی صاحب کی معرفت ملی تھی۔ اس وقت اس کو دیکھنے کے بعد عبدالحئی صاحب سے آپ نے یہ جملہ کہا تھاکہ اس تحریر کو پڑھ کر میں سخت کبیدہ خاطر ہوا۔ مگر میرے دریافت کرنے کے باوجود آپ نے اپنی اس کبیدگی کی تفصیل نہیں بتائی۔
اس کے بعد مارچ 1962ء کے دوسرے ہفتہ میں میں نے دوبارہ تحریر کی ایک نقل آپ کے نام مدرستہ الاصلاح کے پتہ پر روانہ کی، اس وقت بھی آپ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ غیر متعلق عذر کر کے اس کو واپس کر دیا کہ یہ تحریر کا ’’آخری مسودہ‘‘ نہیں ہے۔ پھر تیسری بار میں نے 21 جولائی 1962ء کو چترپور کے پتہ پر آپ کے نام تحریر بھیجی۔ مگر ابھی تک اصل مسئلہ کے بارے میں ایک جملہ بھی آپ کی طرف سے مجھے موصول نہیں ہوا۔
اس طرح آپ سے سلسلہ چھڑے ہوئے پورے 9 مہینے ہو گئے، مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اتنے دنوں سے آپ اپنے خطوط میں یہ ثابت کرنے کی تو پیہم کوشش کر رہے ہیں کہ میرا طریقہ ’’طالبین حق کا طریقہ‘‘ نہیں ہے، میں ’’بے صبر‘‘ ہوں، مجھے اپنے بارے میں ’’مومن کامل‘‘ ہونے کی غلط فہمی ہے۔ میں تحریر شائع کرنے کے لیے ’’بیتاب‘‘ ہوں، میرا ’’نفس‘‘ مجھ پر حاوی ہو گیا ہے، میں ’’سیاسی بازی گری‘‘ کر رہا ہوں، میری نیت میں شبہ ہے، میں آپ کی ’’تحقیر‘‘ کا مرتکب ہوا ہوں، مجھے اپنے بارے میں ’’فکر رفیع اور علم کبیر‘‘ کا گمان ہے، وغیرہ۔ مگر اصل مسئلہ جس کے بارے میں آپ سے میں نے رجوع کیا ہے، اس کے متعلق اس پوری مدت میں ایک فقرہ بھی آپ نے نہیں لکھا۔ تاکہ اس کے بارے میں میری غلطی مجھ پر واضح ہوتی۔
2۔ آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ’’طویل مقالہ‘‘ کو پڑھ کر سوالات کروں گا، توضیح مدعا کا طالب ہوں گا، دلائل پر گفتگو کروں گا۔ میں اس کے لیے بالکل راضی تھا، مگر جب ایک شخص واضح طور پر ایک بات کسی کے سامنے رکھ رہا ہو اور وہ اس پرتبصرہ کرنے کے لیے مندرجہ بالا شرط پیش کرے تو ہر شخص اس کا مطلب یہی سمجھے گا کہ مدعی کے دلائل کے بارے میں سوالات ہوں گے۔ اس کے استنتاج کی کمزوریاں واضح کی جائیں گی۔ مگر جب آپ کا سوال نامہ آیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں بالکل مجرد قسم کے سوالات ہیں جن میں اصل مسئلہ نفیاً یا اثباتاً بالکل کوئی تعلق ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ اب جو میں نے اس طریق مراسلت کے غیرمتعلق اور نامناسب ہونے کا ذکر کیا تو آپ کا یہ خط مورخہ 16 ستمبر موصول ہوا ہے جس میں گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ تو صحیح ترین شکل میں مجھے سمجھانے کے لیے پوری طرح آمادہ ہیں، مگرمیں خود ہی سمجھنا نہیں چاہتا۔
3 ۔عبدالحئی صاحب کے نام خط میں آپ نے لکھا تھا کہ میں نے آپ کی ’’تحقیر‘‘ کی ہے، حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے، میرے جس خط کے بارے میں آپ نے یہ بات لکھی تھی، مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی تیسرا شخص اس کو دیکھنے کے بعد آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف آپ کے طنز و تحقیر کا یہ عالم ہے کہ اگر میں اس کے اقتباسات یہاں نقل کروں تو خط بھر جائے۔ ذرا اپنے ان جملوں پر غور کیجیے:
’’آخر آپ اتنے بے صبرے کیوں ہو گئے، کیا بے صبری ’’مومن کامل‘‘ کی صفات میں سے صفت اول ہے‘‘ (خط مورخہ 25 جولائی 62 ء)
آپ جانتے ہیں میں ’’پڑھانے لکھانے ‘‘ ہی کا کام کرتا ہوں۔ یہ انداز کیوں کر چھوڑوں اس سے آپ کے فکر رفیع اور علم کبیر کے احساس کو چوٹ لگتی ہے، تو افسوس ہے۔ (خط مورخہ 6 ستمبر 62ء)
’’آپ کا نفس (نہ کہ ضمیر) آپ کو سوتے جاگتے ہر آن اکساتا ہو گا۔ آپ سے کہتا ہو گا کہ امر بالمعروف واجب ہے، حق بات کا اعلان و اظہار و اشاعت ضروری ہے ۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے، اگر تم باطل کا لباس پہننے والوں کو ننگا نہ کرو گے۔ توکتمان حق اور خیانت کے مجرم ہو گے۔ اور پھر آپ کا نفس (نہ کہ ضمیر) آپ کو پورے زور سے آخرت یاد دلاتا ہو گا کہ اس دن تو اپنے اس جرم کتمان حق پر خدا کے حضور کیوں کر اور کن الفاظ میں عذر خواہی کرے گا، آہ ، آہ‘‘ ۔ (خط مورخہ 7 اگست 62ء)
میں درخواست کروں گا کہ براہ کرم آپ ان باتوں پر غور فرمائیں، اور سوچیں کہ کیا یہی وہ رویہ ہے جو آپ کے لیے مناسب ہے۔
خادم وحید الدین
