اس کے بعد جب کہ میرے خط 8 نومبر کو تقریباً ڈیڑھ مہینے ہو چکے تھے، موصوف کی طرف سے حسب ذیل جواب موصول ہوا۔
دہلی 19 دسمبر 1962ء
دہلی 19 دسمبر 1962ء
برادر عزیز السلام علیکم
آپ کا خط مورخہ 8 نومبر کا جواب کچھ تاخیر سے دے رہا ہوں جس کی خاص وجہ یہ ہوئی کہ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں، جواب دینے سے پہلے مجھے آپ کا تبصرہ دیکھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو انتظار اور تقاضے کے باوجود دستیاب نہ ہو سکا۔ اور پھر اس بارے میں مجھے مولانا صدرالدین صاحب وغیرہ سے مشورہ بھی کرنا تھا۔ جس کا موقع اب مل سکا ہے۔
آپ کا یہ خیال تو مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتا کہ ہم آپ کو مطمئن کرنے کے خواہشمند یا اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ مولانا صدر الدین صاحب نے آخر ایک طویل تحریر اسی مقصد ہی کے لیے تو قلم بند کی ہے۔ اور وہ آپ کے تبصرہ پر تبصرہ کرنے کے لیے بھی آمادہ ہی تھے اور اگر نہیں تو آمادہ کیے جا سکتے تھے اور مولانا جلیل احسن صاحب بھی، جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں، جو سوالات کر رہے ہیں و ہ ان کے خیال کے مطابق ہر طرح مسئلہ سے متعلق ہی سوالات ہیں۔ لیکن جب بدقسمتی سے آپ نے یہ خیال قائم کر لیا ہے کہ مولانا صدر الدین صاحب نے آپ کے تبصرہ پر تبصرہ کرنے کے لیے جو شرط پیش کی ہے اس کا منشا یہ ہے کہ وہ آپ سے بے دلیل اپنی باتیں منوانا چاہتے ہیں۔ اور مولانا جلیل احسن کی خط و کتابت محض ایک لاحاصل پوچھ گچھ ہے جس کااصل مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے تو ایسی صورت میں واقعی اب اس بات چیت کو طول دینے سے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے اب اس سلسلے کو ختم کر دینا ہی مناسب ہو گا۔
رہا آپ کے استعفیٰ کا مسئلہ تو اگر اب آپ اپنے طور سے اپنے نقطہ نظر کے بارے میں پوری طرح یکسو ہو چکے ہوں تو براہ عنایت اس بارے میں واضح طور سے تحریر فرما دیں تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہو سکے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے،جماعت کے نصب العین کے بارے میں آپ کا بنیادی نقطۂ اختلاف میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لیکن فی الحال میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں آپ کے طویل مضمون کے دلائل و مندرجات پر کوئی تفصیلی بات چیت کر سکوں اور اس سے اب مجھے کسی خاص فائدے کی بھی کوئی توقع نہیں البتہ اس ضمن کی کچھ باتوں کے سلسلے میں ضرور آپ سے گفتگو کرنے کا خواہش مند ہوں۔ مثلاً میں مثبت طور سے یہ معلوم کرناچاہتا ہوں کہ آپ کےنزدیک مسلمانوں کے کرنے کاکام کیا ہے۔ اور اس کا کیا تفصیلی نقشہ کار آپ کے ذہن میں ہے تاکہ میں اندازہ کر سکوں کہ ہمارے نقشہ کار سے وہ کہاں تک مختلف ہے اور کیا اس اختلاف کے باوجود ہمارے اور آپ کے درمیان کسی درجہ میں اشتراک و تعاون ممکن ہے یا نہیں۔ لیکن ظاہر ہے اس گفتگو کے لیے کسی خاص جلدی کی ضرورت نہیں ہے۔ خدانخواستہ آپ نے جماعت سے اپنی علیٰحدگی ہی کا فیصلہ کر لیا تو بھی یہ بات چیت ہو سکتی ہے۔ ویسے میں وسط جنوری تک اعظم گڑھ آنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اگر آپ پسند فرمائیں گے تو اس وقت بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔
والسلام ابواللیث
