مولانا مودودی کا یہ جواب پڑھنے کے بعد مجھ پر جو پہلا تاثر ہوا وہ یہ تھا کہ مولانا مجھ پر جس زعم میں مبتلا ہونے کا الزام دے رہے ہیں۔ خود انہوں نے اپنے خط میں اس کا نہایت شدت کے ساتھ مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم ان باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے 25 جولائی کو ان کے نام حسب ذیل خط روانہ کیا۔

رامپور، 25 جولائی 1962ء

رامپور، 25 جولائی 1962ء

محترمی    سلام مسنون

گرامی نامہ مورخہ 14 جولائی ملا۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے میرے بارے میں یہ رائے قائم کر لی کہ میں ’’اس مقام سے گزر چکا ہوں جہاں سمجھانے کی کوشش مفید ہو سکتی ہے۔‘‘ کاش آپ جانتے کہ میرے سامنے حق کی تلاش کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ شاید آپ نے میری تحریر کی موجودہ تفصیلی ہیئت دیکھ کر یہ رائے قائم کی ہے۔ مگر اس کی یہ ہیئت دراصل اس لیے نہیں ہے کہ میں اب کچھ سننا نہیں چاہتا۔ بلکہ صورت حال کی مکمل توجیہ ڈھونڈتے ہوئے میں اس تفصیلی شکل تک پہنچ گیا ہوں۔ آپ خود تسلیم کریں گے کہ کوئی واقعہ محض جزئی مطالعہ سے پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا۔ بلکہ ہر واقعہ کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور وہ ایک بڑے کل سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی واقعہ کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پورے سیاق میں رکھ کر اسے دیکھا جائے۔ بس اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے جس نے میری تحریر کو موجودہ شکل دی ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ آپ نے میری تحریر کو میرے ’’ناقص مطالعہ اور علم کی کمی‘‘ کہہ کر چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ آپ کے لیےیہ زیادہ بہتر تھا کہ آپ میرے اعتراضات کا تجزیہ کر کے اس کے استدلال کی کمزوریوں کو ظاہر فرما دیتے۔ اس طرح اصل بات کی تردید بھی ہو جاتی اور میرا ناقص علم بھی خودبخود ثابت ہو جاتا۔ مگر افسوس کہ اس کے بجائے آپ نے صرف دعوے پر اکتفا فرمایا۔ اگر فی الحال آپ سارے مضمون پر مفصل اظہار رائے نہیں کر سکتے تھے تو یہ بھی ممکن تھا کہ ’’مشتے نمونۂ ازخروارے‘‘ کے طور پر آپ اس کی ایک دو بحثوں کو لے کر میرے استدلال کی غلطیاں واضح کر دیتے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو یہ میرے لیے آپ کے اس خط سے زیادہ مفید ہو سکتا تھا جس میں آپ نے صرف غیظ و غضب کا اظہار کیا ہے اور اصل بات سے کوئی تعرض نہیں فرمایا ہے۔

اپنے خط کے آخر میں جو بات آپ نے لکھی ہے۔ اس نے مجھے بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اپنی لمبی تحریر یا آپ کے الفاظ میں ’’کتاب‘‘ نقل کر کے میں نے آپ کے پاس بھیجنے کی زحمت اسی لیے برداشت کی تھی کہ اگر میں غلطی پر ہوں تو پہلے ہی مجھے اپنی غلطی کا علم ہو جائے اور اس کو خواہ مخواہ شائع کرنے کی حماقت میں مبتلا نہ ہوں۔ مگر آپ نے اپنے خیالات کے اظہار کی شرط یہ رکھی ہے کہ پہلے وہ چھپ کر منظر عام پر آ جائے۔ اس کے بعد آپ اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔ اگر مجھے چھاپنے ہی کا شوق ہوتا تو میں اب سے بہت پہلے اس کو چھاپ چکا ہوتا۔ مگر میں طویل مدت سے اس مسئلہ پر لوگوں سے تبادلہ خیال کرتا رہا ہوں۔ لیکن جب دیگر افراد سے میرا اطمینان نہ ہوا تو میں نے آپ کی طرف رجوع کیا۔ اگر یہ میری غلطی ہے تو افسوس کہ اس غلطی میں میرے سوا بہت سے دیگر افراد جماعت جو میری طرح بہک نہیں گئے بلکہ اب بھی آپ کے فکر پر گہرا اعتقاد رکھتے ہیں، وہ بھی براہ راست شریک ہیں۔ کیوں کہ انھیں نے مجھ کو یہ مشورہ دیا تھا بلکہ اصرار کیا تھا کہ میں اپنی تحریر آپ کے پاس بھیج کر آپ کا تبصرہ معلوم کروں۔

کاش اب بھی آپ میرے سوالات کا جواب دینے پر راضی ہو جائیں جہاں تک میرا معاملہ ہے، جن لفظوں میں اور جس طرح آپ فرمائیں میں وعدہ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ میں اپنی حد تک انتہائی بے لاگ طریقے سے اس پر غور کرنے کی کوشش کروں گا۔ تاہم اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکے تو میں اس پر بھی اپنے آپ کو بالکل آمادہ پاتا ہوں کہ اگر حالات مجھ کو اس کی اشاعت تک لے گئے اور اشاعت کے بعد آپ ’’خلق خدا‘‘ کے لیے جو تبصرہ لکھیں گے، اس کو دیکھ کر مجھ پر واضح ہو گا کہ میں غلطی پر تھا تو ان شاء اللہ کسی بھی مرحلے میں کوئی چیز میرے لیے واپسی کی راہ میں مانع نہیں ہو گی۔ البتہ آپ ضرور اس کے ذمہ دار ٹھہریں گے کہ آپ نے میری اصلاح کی کوشش نہیں فرمائی اور اصلاح کی کوشش سے پہلے بطور خود یہ رائے قائم کر لی کہ میں راہ راست پر آنے والا نہیں ہوں۔

خادم وحید الدین

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion