آخری بات

یہ تحریر تیار کر لینے کے بعد ایک روز میں اپنے ایک ساتھی سے اس کے متعلق گفتگو کر رہا تھاکہ میری زبان سے نکلا—’’ جب میں سوچتا ہوں کہ یہ تحریر ایک روز چھپ کر لوگوں کے سامنے جائے گی تو مجھے شرم آنے لگتی ہے ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں خود اپنے آپ کو ننگا کر رہا ہوں‘‘۔ یہ الفا ظ جو میں نے اپنے عزیز ساتھی سے کہے تھے۔ یہی اس لمبی تحریر کے لیے میری طرف سے معذرت ہیں۔ طویل مدت کے درمیان میرے وہ رات اور دن کے لمحات، جو یقینا ً خدا کے علم میں ہیں، وہ گواہ ہیں کہ اس قسم کی ایک تحریر مرتب کرنا میرے لیے خوشی کا کوئی واقعہ نہیں ہے ۔ یہ کوئی ’’حکایت لذیذ ‘‘ نہیں ہے جس کو میں نے درازی کے ساتھ بیان کیا ہو۔ بلکہ یہ دل کا درد ہے جو ضبط سے بے قابو ہوکر باہر نکل آیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر مجھے دومیں سے کسی ایک چیز کا اختیار دیا جاتا— ’’جو خیالات تمہارے سینے میں امڈ رہے ہیں ان کو ظاہر کرنے کے لیے تم زندہ رہنا چاہتے ہو،یا یہ چاہتے ہو کہ اس دنیا ہی سے تمہیں اٹھا لیا جائے جہاں آدمی کے اوپر یہ فرض ہے کہ جو کچھ اسے حق نظر آئے اس کو وہ بے کم و کاست پیش کرے‘‘۔ تو بلاشبہ میں دوسری صورت کو ترجیح دیتا۔ میرے لیے موت اس زندگی سے بہتر تھی جس میں مجھے یہ تلخ فریضہ انجام دیناپڑے کہ جن لوگوں کے ساتھ میں پچھلے پندرہ سال سے نہایت قریبی طور پر وابستہ رہا ہوں ، ان کی نظریاتی اور عملی خامیوں کی بحث چھیڑوں ۔ اگر الفاظ کے پاس زبان ہوتی تو بے شک وہ بولتے کہ یہ عام معنوں میں قلم اور سیاہی کا کوئی عمل نہیں ہے ۔ بلکہ و ہ پگھلے ہوئے جذبات ہیں جو ارادے کی دیوار کو توڑ کر اندر سے بہہ پڑے ہیں اور الفاظ کی صورت میں کاغذ کے اوپر پھیل گئے ہیں۔ یہ میرے خون اور میرے آنسوؤں کا ہدیہ ہے جس کو میں اپنے اندر سے آخری حد تک نچوڑ کر اپنے دوستوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ میرے ان غمگین خیالات کا بے تابانہ ظہور ہے جو پچھلے پانچ سال سے میرے رات اور دن کو برہم کیے ہوئے ہیں۔ آج حقیقت لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو، مگر وہ ہمیشہ اوجھل نہیں رہے گی۔بے شک وہ دن آنے والا ہے جب خدا کے فرشتے ظاہر ہو کر لوگوں کو بتائیں گے کہ کن جاں گداز حالات میں یہ صفحات ترتیب دیے گئے تھے۔

وہ دن ، جو یقیناً بہت جلد آنے والا ہے ، وہ اس طرح آئے گا کہ ہم میں سے ہر شخص رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوگا۔ اس دن حقیقت آخری حد تک بے نقاب ہو چکی ہوگی۔ خوبصورت الفاظ اور حسین توجیہات کی دیواریں جو آج ہر شخص نے اپنے گرد کھڑی کر رکھی ہیں، وہ اس روز ڈھ جائیں گی اور لوگ اس طرح ننگے ہوجائیں گے کہ درخت کے پتے بھی نہ ہوں گے جن سے وہ اپنے آپ کو چھپا سکیں۔ مبارک ہے وہ جس کے لیے وہ دن ’’سعی مشکور ‘‘ کی خوش خبری لے کر آئے۔اور بدنصیب ہے وہ جس کا ’’دین ‘‘ اس روز ’’قبول ‘‘ نہ کیا جائے۔ اور خدا اس سے کہہ دے—’’ تم جس بات کے لیے لڑ رہے تھے، وہ محض تمہارے دماغ کی اپج تھی۔ وہ میری بات ہی نہیں تھی‘‘۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion