اس مکتوب کو بھیجنے کے بعد مجھے مولانا ابو اللیث صاحب کی طرف سے 27 اگست کا لکھا ہوا ایک خط ملا جس میں حسب ذیل الفاظ درج تھے:
’’عبدالحئی صاحب کے ذریعہ لفافہ مل گیا ہے۔ خیال ہو رہا ہے کہ انھیں کے ذریعہ آپ کے تاثرات مولانا صدر الدین صاحب کے پاس بھیج دوں، تاکہ وہ بھی اسے دیکھ لیں اور اگر ان کے سلسلے میں وہ آپ کو کچھ لکھنا چاہیں تو لکھ دیں‘‘ ۔
مولانا صدر الدین صاحب نے میرا جواب دیکھنے کے بعد دوبارہ اس پر تبصرہ کرنے سے معذوری ظاہر کی جس کی تفصیل مولانا صدر الدین صاحب کی خط و کتابت میں درج ہے۔
اب تک کی یہ ساری گفتگو اور بحث میں جماعت اسلامی کے شعبہ تصنیف سے متعلق رہتے ہوئے کر رہاتھا۔ مگر اب یہ بحث جس مقام پر پہنچ گئی تھی اس کے بعد مجھے ضروری معلوم ہوا کہ میں اس وقت شعبہ تصنیف سے علیٰحدہ ہو جاؤں۔ چنانچہ میں نے امیر جماعت کے نام حسب ذیل تحریر روانہ کی۔
رام پور ،یکم ستمبر 1962ء
محترمی مولاناابواللیث صاحب امیر جماعت اسلامی ہند سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 27 اگست ملا۔ آپ نے لکھا ہے کہ:
’’مولانا جلیل احسن صاحب کا جواب آ گیا ہے۔ وہ خط و کتابت کے لیے آپ کے گھر جانے کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں اور آپ سے ان کی خط و کتابت غالباً شروع بھی ہو چکی ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آپ رام پور ہی میں رہ کر خط و کتابت کریں۔‘‘
جواباً عرض ہے کہ اس سے پہلے میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مولانا صدر الدین صاحب کا جواب ملنے کے بعد یکم ستمبر تک میں کسی آخری فیصلہ تک پہنچ جانا چاہتا ہوں۔ لیکن میں ابھی کسی فیصلہ تک نہیں پہنچ سکا۔ کیوں کہ اس کے بعد مولانا جلیل احسن صاحب نے کچھ اس طرح کے ناصحانہ خطوط لکھے جس کے بعد مجھے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں ان کے تبصرہ کا انتظار کروں، انہوں نے لکھا ہے کہ آپ بے صبری سے کام نہ لیں بلکہ مجھ سے خط و کتابت کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ پر اپنی فکر کی غلطی واضح ہو جائے۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے۔ دوسری طرف اپنی موجودہ ذہنی حالت کے پیش نظر جماعت کے ایک فکری شعبہ سے وابستہ رہنا مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے سمجھ میں آتا ہے کہ میں شعبہ تصنیف کے ساتھ اپنے موجودہ تعلق سے کنارہ کش ہو جاؤں اور اس کے بعد رام پور میں یا اعظم گڑھ میں رہ کر مولانا جلیل احسن صاحب اور دیگر اہل علم رفقاء سے تبادلہ خیال کر کے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کروں۔ ان کوششوں کا بالآخر جو نتیجہ نکلے گا، اس کے مطابق یا تو جماعت کی موجودہ خدمت میں دوبارہ واپس آ جاؤں گا یا پھر اپنے طور پر جو مناسب معلوم ہو گا کروں گا۔
’’فکری اختلاف کی بنا پر شعبۂ تصنیف سے علیٰحدگی ‘‘ کی بات اگرچہ نئی نہیں ہے، آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلے دو سال سے بار بار میں آپ سے یہ درخواست کرتا رہا ہوں، مگر اب اس کی حیثیت میں اتنا فرق ہو چکاہے کہ ضروری ہو گیا ہے کہ میں درخواست کے بجائے اصرار کروں۔ کیوں کہ اس سے پہلے جب بھی میں نے کہا تو آپ کا جواب یہ تھا کہ میرے فکر اور جماعت کی فکر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ محض میری شدت پسندی ہےکہ میں دونوں کو الگ الگ محسوس کرتا ہوں، آپ نے یہ بھی صراحت کے ساتھ فرمایا تھا میں جو کچھ چاہتاہوں، جماعت بھی اسے چاہتی ہے۔ اس لیے میں اپنے فکر کے مطابق کام کرتا رہوں اور خواہ مخواہ کی ذہنی خلش میں مبتلا نہ ہوں۔
آپ کے اس جواب کے تحت اب تک تو میرے لیے شعبۂ تصنیف سے وابستگی کے لیے وجہ جواز نکل سکتی تھی۔ مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ کیوں کہ آپ کی طرف سے مولانا صدر الدین صاحب کا 22 صفحات کا جو تبصرہ میرے حوالے کیا گیا ہے۔ اس میں اس تصدیق کو تسلیم نہیںکیا گیا ہے بلکہ مکمل طور پر میرے خیالات کی تغلیط کی گئی ہے، اس میں میری فکر کو جماعت کی فکر سے مختلف ظاہر کرتے ہوئے میری تردید ہے اور جماعت کی تائید۔ اس طرح اگرچہ اصالتاً نہیں مگر وکالتاً گویا آپ نے اپنے سابقہ جواب کو واپس لے لیا ہے۔ اس وجہ سے اب یہ بالکل ضروری ہو گیا ہے کہ شعبۂ تصنیف سے علیٰحدگی کے بارے میں میری جس درخواست کو اب تک آپ نے قبول نہیں فرمایاتھا، اب اس کو قبول فرمائیں۔ اور مجھے اس خدمت سے باضابطہ طور پر الگ کر دیں۔
مزید عرض ہے کہ اس سبک دوشی کے بعد میں جہاں رہوں گا وہاں کی مقامی جماعت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ فی الحال میں صرف اپنی ذہنی الجھن کے سلسلے میںمطالعہ ، تبادلۂ خیال یا بیرونی اہل علم سے خط و کتابت وغیرہ میںمصروف رہوں گا۔ اس کے سوا اس دوران میں جماعتی حیثیت سے میرے اوپرکوئی ذمہ داری نہیں ہو گی۔
خادم وحید الدین
