اس خط کا مولانا مودودی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ انہوں نے میرے سوالات کے بارے میں ایسا رویہ کیوں اختیار کیا۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ میرے لیے ایک بہت بڑاحادثہ ہے ۔ جب سے یہ خیالات میرے ذہن میں آئے ہیں، اسی وقت سے میں بے حد پریشان رہا ہوں ۔ ایک طرف میرا یہ احساس کہ ’’ دین  مجروح ہوا ہے ‘‘ مجھ سے تقاضا کر رہا تھا کہ میں اس کا  اعلان واظہار کروں ۔ دوسری طرف طبیعت اس کے لیے بالکل آمادہ نہیں تھی کہ کچھ لوگ جو دین کے نام پر کام کر رہے ہیں ان پر تنقید کی جائے۔ میں نے اپنے متعدد ساتھیوں سے کہا تھا کہ مجھے بہت خوشی ہو گی اگر مولانا مودودی کا جواب میرے ذہن کو بدل دے اور مجھے اس خرخشہ میں پڑنا نہ ہو ۔ حتی کہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مولانا مودودی نے اگر باقاعدہ میری پوری تحریر کا جواب نہیں دیا اور صرف اتنا ہی کر دیا کہ تحریر کے کسی حصہ کو لے کر اسے غلط ثابت کر دیا تو اس سے کم از کم یہ فائدہ ہو گا کہ میں متزلزل ہو جاوں گا۔ کیوں کہ ایک جزء کی غلطی اگر سامنے آجاتی ہے تو یہ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے بقیہ اجزاء بھی غلط ہوں ۔ اور اس طرح مجھے اپنی تحریر کو شائع نہ کرنے کے لیے معقول عذر مل جائے گا۔

مگر افسوس کہ یہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں ۔ اور اب میں انھیں جذبات کے ساتھ اس تحریر کو اشاعت کے لیے دے رہا ہوں جیسے کسی نازک معاملہ کا ایک گواہ ، معاملہ کی نزاکت کی وجہ سے بالکل نہ چاہتا ہو کہ عدالت میں حاضر ہو کر اپنی زبان کھو لے ۔ مگر ساری کوشش کے باوجود اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو اور اس کو عدالت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا جائے ۔

آج یہ تحریرمیری خواہش کے خلاف شائع ہو رہی ہے ۔ مگر شاید میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اب اس کے شائع ہونے کی ذمے داری میرے اوپر نہیں بلکہ مولانا مودودی کے اوپر ہے ۔ 

ضمیمہ

مولانا مودودی کے خط مورخہ 21 مارچ 1963ء سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اب وہ میرا جواب نہیں دیں گے ۔ کیوں کہ اپنے اس خط میں انھوں نے صاف طور پر لکھ دیا تھا :

’’ میں آپ سے اس سلسلے میں مستقل معذرت چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ مزید مراسلت میں اپنا اور میرا وقت ضائع نہیں فرمائیں گے ‘‘ ۔

اس لیے اب میرے لیے آخری چارہ کار یہی تھا کہ اپنی تحریر کتابی شکل میں مرتب کر کے اسے اشاعت کے لیے دے دوں ۔ مگر اسی کے ساتھ میں نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ اپنے غمگین احساسات مولانا تک پہنچا دوں۔چنانچہ میں نے مولانا کے نام اپنا خط مورخہ20 اپریل لکھ کر روانہ کر دیا ۔ میں سمجھتا تھا کہ اس خط کا جواب دے کر مولانا ا پنا وقت ’’ ضائع ‘‘ کرنا  پسند نہیں فرمائیں گے ۔ مگر دو مہینے بعد 21 جون کی ڈاک سے مولانا مودودی کا ایک خط ملاجس میں ایک مزید بات کا انکشاف تھا۔ چوں کہ اس وقت تک پلیٹیں جمائی جا چکی تھیں۔(۱)اس لیے یہ خط اصل ترتیب میں شامل نہ ہو سکا ۔ مگر اس خط کے بغیر یہ کہانی مکمل نہیں ہو سکتی اس لیے اس کو الگ ضمیمہ کے تحت نقل کیا جاتا ہے ۔

لاہور، 12 جون 1963ء

محترمی ومکرمی      السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا عنایت نامہ میرے سفر حج کے زمانے میں آیا تھا ۔ جواب میری غیر موجودگی کی وجہ سے بر وقت نہ دیا جا سکا۔

میں طبعاً بحث ونزاع سے دلچسپی نہیں رکھتا اور ہمیشہ اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ آپ کے مضمون ’’ تعبیر کی غلطی ‘‘ کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا تھا کہ مجھ سے آپ کا اختلاف محض علمی حد تک نہیں رہا ہے بلکہ آپ کے اندر میرے خلاف ایک ضد اور کد کی  کیفیت پیدا ہو چکی ہے ۔ میری سیدھی باتوں میں سے بھی آپ نے ٹیڑھ نکالنے میں کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔ اور مجھ پر جگہ جگہ سخت چوٹیں بھیکی ہیں۔ ان کے علاوہ میں نے ایک سخت ادعا کی کیفیت بھی آپ کے اس تحریر میں محسوس کی، اور یہ اندازہ ہوا کہ آپ بجز ’’ اعتراف خطا ‘‘ کے اور کسی چیز پر مطمئن نہیں ہو سکتے ، کیوں کہ آپ یہ قطعی رائے قائم کر چکے ہیں کہ جو کچھ آپ نے خود سمجھا ہے وہ بالکل صحیح ہے ۔ اور اب لازماً میرا ہی فہم غلط ہے ، لہٰذا میرے لیے کوئی راہ اس کے سوا باقی نہیں ہے کہ آپ  کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کر لوں ۔ یہ ساری باتیں آپ کے اس مضمون میں اس قدر واضح طور پر موجود تھیں کہ کوئی بلید الذہن آدمی dبھی ان کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ اسی وجہ سے میں نے آپ کے ساتھ بحث کرنے سے اپنی معذوری کا اظہار کر دیا تھا ۔ کیوں کہ اس صورت حال میں اگر کوئی شخص آپ کو سمجھا بھی سکتا ہے تو وہ میرے سوا کوئی اور ہی ہونا چاہیے ۔ میرا آپ سے بحث کرنا نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ 

اس کے بعد جب آپ نے بار بار اصرار کیا تو بادل نا خواستہ میں اس پر راضی ہو گیا تھا کہ آپ کے چھیڑے ہوئے اصل سوالات کا جواب دوں ۔ لیکن اس دوران میں بعض ایسے اصحاب نے جو ہندستان میں آپ سے بحث کر چکے ہیں ، مجھے مشورہ دیاکہ میں اس بحث میں  اپنا وقت صرف نہ کروںاس سلسلے میں انھوں نے اپنے جو تجربات بیان کیے ان کا ذکر کرنا تو میں مناسب نہیں سمجھتا کیوں کہ اس سے خواہ مخواہ ایک نئی بحث کا دروازہ کھلتا ہے ۔ بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ان کے بیانات سے مجھے اپنے پچھلے موقف کے صحیح ہونے کا اطمینان حاصل ہو گیا ۔ آپ اس کو میری طرف سے اپنے اوپر ایک ظلم قرار دینا چاہیں تو آپ کو اس کا اختیار ہے ، مگر میرا احساس دیانتاً یہی ہے کہ آپ کو سمجھانے کی کوشش کرنے کے لیے سب سے زیادہ غیر موزوں شخص اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ میں ہی ہوں ۔ اس احساس کی بنا پر جب میں اپنی معذوری کا اظہار کر رہا ہوں تو آپ کا مجھ پر بڑا کرم ہو گا کہ میری اس معذرت کو قبول فرما لیں ۔

میرا مخلصانہ مشورہ اب بھی یہی ہے کہ اگر آپ نے دین کے غائر اور وسیع مطالعہ سے اس کا ایک تصور حاصل کیا ہے تو مثبت طور پر اسے پیش کیجیے اور اس کی طرف دعوت دیجیے ۔ آخر یہ کیا ضروری ہے کہ آپ اپنی دعوت کا آغاز کسی دوسرے شخص کی تردید وتغلیط ہی سے کریں ۔ تاہم اگر آپ اسی طرح اپنی دعوت کا آغاز ضروری سمجھتے ہیں تو مجھے آپ کو اس سے روکنے کا حق نہیں پہنچتا ۔ میرے کرم فرماؤں کی فہرست پہلے ہی خاصی طویل ہے ۔ اس میں آپ کا اضافہ ہو جانے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا ۔

 خاکسار          ابو الا علیٰ

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion