سیاسی انتہا پسندی

پنڈت نہرو نےاپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ جب وہ کیمبرج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے انھیں خیال ہوا کہ یہاں سے فارغ ہو کر انڈین سول سروس میں جانے کی کوشش کریں گے۔ کیوں کہ اس زمانے میں ایک ہندوستانی کے لیے یہ بڑی چیز تھی۔ مگر کچھ دنوں بعد جب ان کے آزاد رجحانات کافی بڑھ چکے تھے، انھیں اپنےاس خیال پر کراہت ہونے لگی۔ کیوں کہ ان کے الفاظ میں انڈین سول سروس میں شرکت دراصل برطانوی حکومت کی انتظامی مشین کا ایک پرزہ (Cog) بننے کے ہم معنی تھا۔ اور جس شخص نے اپنی زندگی کا مشن یہ قرار دیا ہو کہ انگریزی حکومت کو اپنے ملک سے ختم کرنا ہے، وہ اسی حکومت کا کارندہ کس طرح بن سکتا ہے۔( آٹو بیاگریفی، لندن، 1936ء ، صفحہ 24-25)

سیاسی فکر کے نزدیک ہمیشہ یہ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اور اس قسم کے تمام نظریات میں اس کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ چنانچہ زیرِ بحث تعبیر میں بھی یہ چیز شدت سے ابھر آئی۔ اس تعبیر کے مطابق اسلامی مشن کا جو تصور سامنے آتا ہے وہ ہے ’’نظام بدلنا‘‘۔ میں مانتا ہوں کہ اسلامی جدوجہد کے مراحل میں سے ایک مرحلہ یہ بھی ہے، مگر اس تعبیرنے اس کواس کے واقعی مقام سے ہٹا دیا۔ اور اس طرح دوسری شکل میں وہی خرابیاں پیدا ہو گئیں، جو ’’دنیا سے بے رغبتی‘‘ کی اسلامی قدر کو اس کے واقعی مقام سے ہٹانے کی وجہ سے مختلف مذاہب میں پیدا ہوئیں۔ رہبانیت کے فلسفہ نے روحانی انتہا پسندی میں پڑ کر خدا کے بندوں کو بہت سی غیر ضروری مشقتوں میں ڈال دیا تھا۔ اسی طرح اس جدید انقلابی نظریہ نے سیاسی انتہا پسندی میں پڑ کر خدا کے بندوں کو ایسی مشکلات میں گرفتار کر دیا، جس کے لیے دراصل خدا نے انھیں مکلف نہیں کیاتھا۔

اس کی واضح مثال موجودہ غیر الٰہی نظام کے تحت قائم شدہ اداروں کی ملازمت کا مسئلہ ہے۔ جس کو ا س تعبیر نے ’’کسب حرام‘‘ قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے نزدیک اس نظام اطاعت کے ایک جزء اور دوسرے جزء میں کوئی فرق نہیں۔ اس کے جو اجزاء بظاہر بالکل معصوم نظر آتے ہیں۔ وہ بھی اسی قدر ناپاک ہیں، جس قدر دوسرے ’’غیرمعصوم اجزاء‘‘۔ نیز جو غیر الٰہی نظام اطاعت مسلمانوں کی خداوندی میں چل رہا ہے، وہ بھی اپنے تمام اجزاء سمیت اسی حکم میں ہے۔ مسلمانوں کی خداوندی اس کو ہرگز سند طہارت عطا نہیں کرتی‘‘ ۔

جس طرح رہبانیت کے فلسفہ سے متاثر ہوکر بے شمار لوگوں نے اپنے آپ کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کر لیا۔ اسی طرح اس جدید نظریہ کانتیجہ یہ ہواکہ کتنے لوگوں نے حرام سمجھ کرسرکاری ملازمتیں چھوڑ دیں۔ حتیٰ کہ ا سکول کے ماسٹروں اور ریل اور ڈاک خانے کے کلرکوں تک نے استعفیٰ دے دیا۔ اور اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے اہل خاندان کو خوامخواہ ایسی مشکلات میں مبتلا کر دیا، جس کاخدا نے انھیں مکلف نہیں کیا تھا۔ اس واقعہ کا اس سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ غیر فطری عمل کی وجہ سے بیشتر لوگ آخر وقت تک اس پر قائم نہ رہ سکے۔ اور بالآخر حالات سے مجبور ہو کر یا تو کسی تاویل کے ذریعہ اسی طرف لوٹ گئے جس کو انہوں نے حرام سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یا پھر حالات نے انھیں ا یسے ذریعۂ معاش تک پہنچا دیا جو سرکاری ملازمت سے بھی بدتر تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion