قبول حق کی رکاوٹیں
کوئی بات خواہ بجائے خود صحیح ہو، یہ ضروری نہیں کہ سننے والے کا ذہن اس کی صحت کو قبول کر لے۔ طرح طرح کے شعوری یا غیر شعوری اسباب ہوتے ہیں، جو اکثر اوقات آدمی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ ایک صاحب جو زیرِ بحث فکر سے متاثر ہیں، انہوں نے میرے خیالات سننے کے بعد کہا — ’’صحیح جو بھی ہو مگر ایک چیز ہے کہ تمہارے مقابلے میں ان کی بات سمجھ میں خوب آتی ہے‘‘۔ لیکن اس سمجھ میں آنے کا تعلق اصل بات سے نہیں، بلکہ مخاطب کی ذہنی ساخت سے ہے۔تقسیم سے پہلے جب مسلم لیگ کا عروج تھا اس وقت مولانا موددی نے اسلامی تحریک کا نقشہ پیش کیا، تو اس وقت عام مسلمانوں کی طرف سے جو جواب ملا وہ یہی تھا کہ تم جو کہتے ہو وہ تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ البتہ یہ بات خوب سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں ان کی الگ حکومت قائم ہوجائے اور پھر وہاں ان کے اپنے عقیدے و مسلک کے مطابق نظام چلایا جائے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ جواب صرف کہنے والوں کی اپنی ذہنی ساخت کا نتیجہ تھا۔ ورنہ نظریۂ پاکستان کے مقابلے میں اس دوسرے نظریہ کے اندر زیادہ صداقت تھی۔ اسی طرح جب اسلام کا معاشی نقشہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ سوشلسٹ ذہنوں کواپیل نہیں کرتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں یہ بات ہماری سمجھ میں زیادہ آتی ہے کہ ذرائع ملکیت کو انفرادی قبضہ سے نکال کر انھیں سماج کے مجموعی مفاد کے مطابق چلایا جائے۔ اور تم جو طریقہ بتاتے ہو وہ ہم کو محض خیالی چیز معلوم ہوتا ہے ۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ محض کہنے والے کا اپناذہن ہے جو بول رہا ہے۔ ورنہ اسلام کی معاشی اسکیم ہر لحاظ سے سوشلزم سے زیادہ بہتر اور قابل عمل ہے ۔
اس صورت حال کی ایک اور وجہ دنیا پرستی ہے ۔ جو آدمی کوبے حس اور سطحیت پسند بنا دیتی ہے ۔ دین کی حقیقت کیا ہے اور اس کی صحیح ترین تعبیر میں کیا کیا غلطیاں ہو سکتی ہیں۔یہ ایک نازک اور لطیف بحث ہے۔ اور اس کو پانے کے لیے ایسے ذہنوں کی ضرورت ہے جو یکسوئی کے ساتھ اس پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔مگر موجودہ زمانے کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مادی واقعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ آیات اللہ پر غور نہیں کرتے، عارضی دنیا کے ہنگامے ان کی توجہ اور ان کی دلچسپیوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے نفس کے مطالبات پورا کرلینے ہی کو کافی سمجھ لیا ہے ۔ اور اس سے آگے ان کے رب کی طرف سے جو ’’ رزق خیر ‘‘ اتر رہا ہے، اس میں حصہ پانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس چیز نے ان کو بے حس اور ظاہر بیں بنا دیا ہے ۔ ان کی سطحیت پسندی نے انھیں ایسی نظروں سے محروم کر دیا ہے، جو لطیف حقائق کا ادراک کر سکیں۔ وہ صرف سامنے کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ گہری حقیقتوں کا مشاہدہ کرنے کی طاقت ان میں نہیں رہی۔حتیٰ کہ موجودہ زمانے کی سطحیت بہت سے واقعات کو چھپانے کا پردہ بن گئی ہے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ نے ایک تقریر کے بارے میں اپنا تاثر ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’ ایمان و یقین جیسے ابل رہا تھا‘‘ حالانکہ اسی تقریر کے بارے میں میرا قطعی احساس یہ ہے کہ وہ صرف خوش بیانی تھی ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
سطحیت پسندی کا یہ مرض جب کسی کے اندر پیدا ہوجائے تو دلائل کا وزن محسوس کرنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ اپنی بے حسی کی وجہ سے وہ غیر مادی حقائق کا ادراک کرنے سے عاجز رہتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ اسلام کی بلند تر حقیقتوں کو وہی شخص پا سکتا ہے، جو دنیا اور دنیا کی چیزوں سے اپنے آپ کو اوپر اٹھا چکا ہو۔ جو اس سے اوپر نہ اٹھ سکے اس کے عین سر کے اوپر حقیقت کی آواز گونج رہی ہوگی، مگر اس کو گرفت کرنے کی طاقت سے وہ محروم ہوگا۔ اس کے پاس وہ کان نہیں ہوں گے جن سے وہ سنے، اور وہ دل نہیں ہوگا جس سے وہ اسے سمجھے۔ اعلیٰ ترین دلائل پا لینے کے باوجود اسے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ وہ بدستور اپنے مانوس دائرے میں پڑا رہے گا، جیسے زمین و آسمان میں صحت و تندرستی کے انتظامات اس شخص کے لیے بالکل بے کار ثابت ہوئے ہیں، جو کسی مہلک مرض میں مبتلا ہو۔ عین ان انتظامات کے درمیان وہ صحت و طاقت سے محروم رہتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بے حسی کا مرض جب کسی کے اندر پیداہوجائے توروشنی اور ہدایت کے سارے مواقع اس کے لیے بے کار ہیں۔ وہ ا ن کو پانے کے باوجود ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔
3۔ اس سلسلے کی ایک اور چیز شخصیت پرستی ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتاہے کہ آدمی کسی شخص سے بے حدمتاثر ہوجاتا ہے۔اس کی ہر بات اسے صحیح نظر آتی ہے ۔ کسی مسئلے کے بارے میں وہ جو کچھ کہہ دے ، اسکو وہ آخری حقیقت سمجھتا ہے ، وہ اس کو غیر شعوی طور پر معیار حق کا درجہ دے دیتا ہے۔ وہ یا تو اس کے سوا کسی کے خیالات کا مطالعہ نہیں کرتا۔ اوراگر کرتا ہے تو ایک مخصوص ذوق بن جانے کی وجہ سے اس کو کسی دوسرے کی بات پسند ہی نہیں آتی۔جیسے کسی کی زبان میٹھی ہوگئی تو اس کو دوسرے مزوں کا احساس نہیں ہوگا۔یہ سب کچھ اکثر اوقات بالکل بے خبری میں ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں دین کی خاطر ایک شخص کی قدر کر رہا ہوں۔ حالانکہ درحقیقت وہ شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہوتا ہے ۔ جوآدمی کے فکری وجود کے لیے دق اور سل کے مرض سے بھی زیادہ مہلک ہے ۔
ایک پڑھے لکھے مسلمان ہیں، جو ایک مصنف سے بے حد متاثر ہیں۔ میں نے اس مصنف کی ایک کتاب دیکھی جس کا ایک بیان صریح طور پر قرآن کی تعلیمات سے ٹکراتا تھا۔ میں نے یہ حصہ ان مسلمان بزرگ کو دکھایااور اپنا تبصرہ عرض کرنے کے بعد پوچھا کہ اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں۔یہ فرق اتنا کھلا ہوا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ کسی بھی غیر جانبدار شخص کی اس کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتی۔ مگر انہوں نے متعلقہ عبارت کو کئی بار پڑھنے کے بعد جو جواب دیا وہ یہ تھا—’’ میں اس کو بالکل ٹھیک سمجھتا ہوں اس میں کوئی بات قرآن کے خلاف نہیں ہے ‘‘۔ بخدا میں نے دیکھا کہ یہ الفاظ بولتے ہوئے ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ان کافہم اس کو قبول کرنے سے صریح طور پر اِبا کر رہا ہے۔ مگر حق کو ماننے میں صرف یہ چیز رکاوٹ بن گئی کہ انہوں نے ایک شخصیت کو بت بنا کر اپنے ذہن میں بٹھا لیا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس شخص کی کوئی بات غلط بھی ہو سکتی ہے ۔ شخصیت پرستی نے ان کے ذہن کی تمام کھڑکیاں بند کر دی تھیں ۔ پھر حق کی روشنی اس کے اندر گھستی تو کدھر سے گھستی۔
4۔چوتھی چیز استکبار یا اپنے بارے میں برتری کا احساس ہے۔ استکبار درحقیقت خود فریبی کی ایک حالت کا نام ہے۔ ایسا شخص اپنے اندر کچھ خوبیاں دیکھ کر انھیں کی روشنی میں کمتری اور برتری کا ایک خود ساختہ معیار بنا لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی اورکی حقیقی خوبیاں اسے نظر نہیں آتیں۔ اس کے ذہنی چوکھٹے میں ہمیشہ اس کا اپنا وجود ہی دوسروں سے اونچا دکھائی دیتاہے۔
جو شخص اس قسم کی نفسیات میں مبتلا ہووہ کبھی حق سے آشنا نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ حق پر غور کرنے کے بجائے حق کو پیش کرنے والے شخص کودیکھے گا۔اور جب اپنی مخصوص ذہنی ساخت کی بنا پر اس کے کبر کو نظر آئے گا کہ مخاطب اس سے ’’کمتردرجہ‘‘ کا آدمی ہے تو اس کا ذہن فوراً اس سے اِبا کرنے لگے گا، وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ اپنے سے ’’کمتردرجہ‘‘ کے کسی آدمی کی بات قبول کرلے۔
کبر کے مریض کے سامنے حقیقت آتی ہے ۔ مگر وہ اسے قبول کر نے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ حقیقت کی آواز اس کی فطرت کو جھنجھوڑتی ہے۔ وہ دلیل کے میدان میں اس کے ذہن کو لاجواب کر دیتی ہے۔مگر اس کے باوجود وہ اسے قبول کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔وہ بے یقینی میں مبتلا ہونے کے باوجو دیقین کا جھوٹا مظاہرہ کرتارہتاہے ۔ پیش کی ہوئی بات کے مقابلے میں اس کی سطحی باتیں ، مختلف وقتوں میں مختلف جواب ، اصل اعتراضات کا مقابلہ کرنے کے بجائے غیر متعلق مسائل چھیڑنا ، مخالف نظریے کی ناقص اور غلط ترجمانی کرکے اس کے اوپر تنقید کرنا۔ فریق ثانی کی بات خواہ کتنی ہی باوزن ہو اس کو اس طرح نظر انداز کرنا۔ گویا وہ بالکل بے وزن بات ہے ۔ مگر اندر اندر یہ بے چینی کہ کوئی مضبوط بنیاد ہاتھ آئے تاکہ اسے قطعیت کے ساتھ رد کیا جا سکے— یہ اور اس قسم کے دوسرے واقعات صاف بتا دیتے ہیں کہ اپنے موقف کے بارے میں اس کا یقین متزلزل ہو چکاہے۔ حق کے شرار ے اس کے دماغ کو چھوتے ہیں ، مگر اس کا پندار اس کو قبول حق سے محروم رکھتا ہے۔ اس کا اندرون کہتا ہے کہ جس کی طرف سے یہ حق پیش کیا گیا ہے، میں اس سے زیادہ صاحب حیثیت ہوں۔ میری علمی برتری مسلّم ہے۔میری اسلامی خدمات کی ایک دنیا قائل ہوچکی ہے۔ یہ احساسات اس کے اوپر گہرے کہر کی طرح چھا جاتے ہیں۔ آنکھ رکھتے ہوئے وہ اندھا بنا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر حقیقت یہی ہے تو اس کی دریافت کا سب سے زیادہ مستحق میں تھا۔ مجھ کو سب سے پہلے اسے پانا چاہیے تھا۔ وہ حقیقت کو پانے کی بہترین حیثیت میں ہونے کے باوجود حقیقت کو پانے سے محروم رہ جاتا ہے ۔ قرآن میں اس کو اندھے بہرے بن کر ٹوٹ پڑنا کہا گیا ہے۔ جب خدا کی آیتوں کے ذریعہ کسی کو یاددہانی کرائی جائے تو اس کے جواب کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اصل بات کو اس کی صحیح شکل میں سمجھے اور اس کی اصل حیثیت کے مطابق اس سے معاملہ کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بات کے اصل پہلوؤں کو چھوڑ کر اس پر اِدھر اُدھر سے حملے کیے جائیں۔ الل ٹپ جوابات او ر غیر متعلق اعتراضات کے ذریعہ اس کا استقبال کیا جائے۔ پہلی صورت بات کو دیکھ سن کر اس سے اس کے مطابق معاملہ کرنا ہے ، اور دوسری صورت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بات کے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑا ہے، گویا وہ اندھا بہرا ہے اور اس نے اصل بات کو ابھی جانا ہی نہیں۔(الفرقان25:73)
5۔ قبو ل حق کی ایک رکاوٹ یہ بھی ہوتی ہے کہ آدمی کویہ اندیشہ ہو کہ اس کو قبول کرنے کی صورت میں اس کا بنا بنایا آشیانہ اجڑ جائے گا۔ یہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر فکر کے لیے گنجائش ہے جو تصور بھی زور و قوت کے ساتھ پیش کر دیا جائے، اس کے بہت سے ساتھی اور مددگار مل جائیں گے۔اس طرح جب کوئی فکر ایک عرصہ تک چلتا رہتا ہے تو اس کا ایک مخصوص میدان بن جاتا ہے ۔ اس کے گرد کچھ ذرائع و وسائل فراہم ہوجاتے ہیں۔ اس کے نام سے کچھ نئے نئے کاروبار پیدا ہوتے ہیں، جن سے بہت سے لوگوں کی معاشیات وابستہ ہوتی ہیں۔کچھ نعرے وجود میں آتے ہیں، جن کی بنیاد پر کچھ لوگ علمی عزت اور سیاسی وقار حاصل کرتے ہیں۔ کچھ نئی نئی قدریں پبلک میں روشناس ہوتی ہیں، جن کا حامی اور مبلغ بن کر لوگوں کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے مشاغل چھوڑ کر اس کے اندر اپنی زندگی کی تعمیر کرتے ہیں۔ پھر ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ابتداء ً تو بڑی جوش اور صلاحیت رکھنے والے تھے۔مگر اب کی جو انیوں کو بڑھاپا آچکا ہوتا ہے۔ ان کے اندر اتنی سکت نہیں ہوتی کہ ازسر نو کسی نئے میدان میں اپنی زندگی بنانے کی ہمت کر سکیں۔
ایسی حالت میں اگر حق کی آواز بلند کی جائے تو خدا کی دی ہوئی فطرت بہت سے لوگوں کے اندر اکساہٹ پید اکرتی ہے ۔ ان کی غبار آلود نگاہوں کے اندر حق کی روشنی جھلملاتی ہوتی نظر آتی ہے، کھبی کبھی جب انھیں آنکھ مل کر دیکھنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے، تو انھیں نظر آنے لگتا ہے کہ بے شک حق یہی ہے، مگر معاشی مفاد اور دنیوی خطرات کا غلاف بہت جلد ان کی نگاہوں کو ڈھک لیتا ہے۔ ایک بنی بنائی زندگی اجڑ جانے کا اندیشہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کی فکر کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ وہ اس سے قریب ہو کر اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔وہ حق کو پانے کے باوجود محض اس لیے اس سے محروم رہنا گوارا کر لیتے ہیں کہ انھیں ڈ ر ہوتا ہے کہ اس کو اختیار کرنے کی صورت میں وہ اپنی دنیا کو گنوا دیں گے۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لیجیے کہ یہ واقعہ عموماً غیر شعوری طور پر ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر لوگوں کو یہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ آدمی سمجھتا رہتاہے کہ وہ جس چیز کو چھوڑ رہا ہے، اس کو اس نے محض اس لیے چھوڑا ہے کہ وہ اس کو غلط سمجھتا ہے ۔حالانکہ یہ محض اس کی قوت واہمہ کا فریب ہوتا ہے ۔لا شعور میں دبے ہوئے خطرات اس کی فکر کو اس طرح متاثر کر دیتے ہیں کہ وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اور ایک مجہول اور مصنوعی یقین کے تحت اپنی سابقہ روش پر قائم رہتا ہے ۔
6۔ حق سے محرومی کی ایک وجہ یہ ہے کہ آدمی زیادہ غو ر و فکر سے کام نہ لے اور محض ایک ’’جواب‘‘ دے کر اپنے آپ کو مطمئن کر لے کہ اس کا موجودہ مسلک درست ہے ۔ آدمی بعض اوقات اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کسی بات کی صداقت صرف اس وقت مسلم ہوتی ہے جب کہ اس کا سرے سے کوئی جواب ہی نہ ہو۔ جس بات کا جواب دیا جا سکے اس کا صداقت ہونا مشتبہ ہے ۔ یہ بہت بڑی بھول ہے ۔ دنیا میں کوئی ایسی صداقت نہیں، جس کی تردید میں الفاظ کا ایک مجموعہ پیش نہ کیاجا سکتاہو۔مگر اس طرح کے لفظی مجموعوں کو جواب نہیں کہا جا سکتا ۔ وہ جھوٹی توجیہات ہیں، نہ کہ جواب ۔ اگر ایک شخص کسی بات کوماننا نہیں چاہتا تو آپ کسی بھی دلیل سے اسے منوا نہیں سکتے۔ آپ مضبوط ترین دلائل کا انبار اس کے سامنے رکھ دیں گے ۔ مگر ہر دلیل کے جواب میں وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ باتیں تراش لے گا۔ اسی لیے قرآن نے ’’جدل‘‘ (بحث و تکرار ) کو قبول حق کےسلسلے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بتایا ہے:وَلَقَدْ صَرَّفْنا فِي هذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً (18:54)۔ یعنی، اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی دلیلیں بیان کر دی ہیں مگر انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔
یقیناً میری ان معروضات کے سلسلے میں بھی بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں لیکن اگر یہ باتیں وہی ہیں جو اب تک میرے کان سن چکے ہیں تو ان باتوں کا جواب دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ۔ ایسے موقع پر میں اپنے ان الفاظ کو دہراؤں گا جو میں نے مخاطب سے نہیں، بلکہ خود اپنے آپ سے کہے تھے۔ اس کتاب میں جو باتیں میں نے لکھی ہیں ان کے بارے میں مجھے ایک اہل علم بزرگ سے تبادلہ خیال کا موقع ملا ۔ انہوں نے جو جوابات دیے ، ان کو سن کر بے ساختہ میرے دل نے کہا—’’ اگر اس تعبیر کے حامیوں کے پاس میرے اعتراضات کا یہی جواب ہے تو بخدا میں حق پر ہوں‘‘۔
7۔اور کوئی بات نہ ہوتو صرف یہ چیز بھی آدمی کوقبول حق سے روکنے کے لیے کافی ہے کہ اپنی جس فکر کو چھوڑ کر اسے دوسری فکر کو قبول کرنا ہے ، اس کو مانتے ہوئے اس پر ایک عمر گزر چکی ہے ۔ جب آدمی ایک خاص خیال کولمبی مدت تک مانتا رہتا ہے تو اس سے وہ اس قدر مانوس ہوجاتا ہے کہ پھر اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اس کے لیے ایک ایسا عقیدہ بن جاتا ہے ، جس کا صحیح ہونا اس بات پر موقوف نہیں ہوتا کہ اس کے حق میں اس کے پاس کوئی واقعی دلیل بھی موجود ہو۔ وہ اس کو اس طرح ماننے لگتا ہے گویا وہ اتنی واضح بات ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرور ت ہی نہیں ، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص واقعات و حقائق سے یہ ثابت کر دے کہ تمہارے مزعومہ عقیدے کے حق میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، جب بھی وہ اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس طرح کا استدلال اس کو استدلال کے بجائے ’’شیئی عجیب ‘‘ معلوم ہوتا ہے ۔ ایسی ہی نفسیات تھی جس کے تحت پچھلی قوموں نے اپنے انبیاء کو ’’ساحر ‘‘ کہا تھا ۔ کچھ خاص خیالات کے درمیان طویل مدت تک رہنے کی وجہ سے وہ اس کو اس طرح ماننے لگتے تھے کہ نبی نے جب طاقتور استدلال کے ذریعہ ان خیالات کا غلط ہونا ثابت کردیا، اور انہوں نے جان لیا کہ ہمارے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا اس کا کوئی حقیقی جواب نہیں ہے۔ اس وقت بھی وہ اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور یہ کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر ہے ، جس نے اپنی قوت بیان سے ہم کو مغالطے میں ڈال دیا ہے ۔ورنہ جوبات اتنے دنوں سے ہوتی چلی آئی ہو وہ بھی کہیں غلط ہوسکتی ہے۔
یہاں میں اٹلی کے مشہو ر مفکر گلیلیو (Galileo) کا واقعہ نقل کروں گا۔ اس کا زمانہ سولہویں اور سترھویں صدی کے درمیان کا ہے ۔ اس زمانے میں ارسطو کے افکار دنیا کی ذہنی فضا پر چھائے ہوئے تھے ۔ ارسطو کا ایک خیال یہ تھا کہ اگر دو مختلف وزن کی چیزیں یکساں بلندی سے نیچے گرائی جائیں تو بھاری چیز ہلکی چیز سے پہلے زمین پر پہنچے گی۔ یہ نظریہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس قدر مسلّم ہو چکا تھا کہ کسی کو اس کے خلاف سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ گلیلیو پہلا شخص تھا جس نے اس کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ دونوں چیزیں بیک وقت زمین پر آئیں گی۔ سوا اس معمولی فرق کے جو ہوا کی مزاحمت (Resistance) کی وجہ سے پیدا ہوجاتاہے ۔ وقت کے پڑھے لکھے لوگ گلیلیو کے اوپر ہنسے کہ وہ ارسطو جیسے عظیم مفکر سے اختلاف کی جرأت کر رہا ہے ۔ مگر گلیلیو کو اپنے نظریہ پر اصرار تھا، اس نے کہا کہ وہ اپنے دعوے کو تجربہ سے ثابت کر سکتا ہے ۔چنانچہ ایک صبح کو اس نے پیسا (Pisa)یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو وہاں کے ایک مینار(Leaning Tower)کے گرد جمع کیا اور خود مینار کے اوپر چڑھ گیا۔ اس کے ساتھ دو گولے تھے۔ ایک دس پاؤنڈ کا اور دوسرا ایک پاؤنڈ کا ۔ اس نے یہ دونوں گولے مینار کے کنار ے رکھے اور دونوں کو ایک ساتھ زمین کی طرف لڑھکا دیا۔ دونوں گولے ساتھ ساتھ زمین پر گرے ۔ اس کا دعویٰ صحیح ثابت ہوگیا۔
مزید تجربے اور مطالعے کے بعد گلیلیونے زمین پر گرنے والے اجسام کے بارے میں تین ایسے خاص قوانین دریافت کیے جو اب اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس نے مکمل طور پر ثابت کردیا کہ وہ حق پر ہے اور ارسطو ناحق پر۔ مگر علما نے اس واضح حقیقت کو ماننے سے انکار کر دیا، جو ان کے اپنے مشاہدہ میں آچکی تھیں ۔ وہ اب بھی یہی سمجھتے رہے کہ ان کا مانوس نظریہ صحیح ہے، اور نوجوان گلیلیو نے ان کو محض ’’ دلیل کے چکر ‘‘میں ڈال دیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ آدمی جب اس نوبت تک پہنچ جائے کہ دیکھنے کے باوجود یقین کرنا اس کے لیے مشکل ہوتو ایسے آدمی کو کسی بھی دلیل سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔وہ تو اپنی مانوس دنیا ہی کو حقیقی دنیا سمجھے گا۔ خواہ اس کی مانوس دنیا محض ایک خیالی فریب ہو، جس کے لیے اس کے پاس ایک بھی واقعی دلیل موجود نہ ہو ۔
8۔قبول حق کی ایک رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے ذہن کا ایک سانچہ بنا لیتا ہے۔ دھیرے دھیرے یہ سانچہ اتنا پختہ ہوجاتاہے کہ اس میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں رہتا۔ اس کے لیے صرف ایسی چیز قابل قبول رہ جاتی ہے، جو اس کے ذہنی سانچہ کو باقی رکھتے ہوئے اس کے اندر جگہ حاصل کر کے مطمئن ہوجائے۔ کوئی ایسا تصور جو اس کے ذہنی سانچہ کو توڑ کر اپنی جگہ بنا نا چاہتا ہو، وہ اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس پر غور کر نے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا۔
ایک شخص دنیا میں غرق ہو اور اس کے سارے امکانات سے فائدہ اٹھانااپنی بہترین کامیابی سمجھتا ہو۔ اس کو دین کا کوئی انقلابی تصور کبھی اپیل نہیں کرے گا۔ البتہ اگر اس سے کہا جائے کہ فلاں ’’ذکر ‘‘ کا اتنا ثواب ہے، اور فلاں وقت میں اتنی رکعتیں پڑھ لینا سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے، تو عین ممکن ہے کہ دین کا یہ تصوراسے پسند آجائے، اور اس کو ایک مقدس ضمیمے کی حیثیت سے وہ اپنی زندگی میں شامل کر لے ۔اسی طرح آپ ایسے لوگ دیکھیں گے جو دنیا کے آرام اور اس کی لذتوں میں لپٹے ہوئے ہوں۔ مگر اسی کے ساتھ اپنے روایتی ذہن کی بنا پر جنت میں بھی اپنا مقام رِز رو (reserve)رکھنا چاہتے ہوں۔ انھیں اسلام کا یہ تصور بہت پسند آئے گاکہ ’’ اسلام دنیا و آخرت کی کامیابی کا نام ہے ‘‘۔ اس کے برعکس، دین کا ایسا تصور انھیں کبھی پسند نہیں آسکتا جس میں رونا اور تڑپناہو، جو دنیا سے بے رغبتی سکھاتا ہو، جس میں غم کو مومن کی غذا بتایا گیاہو۔ آپ ایسے لوگ دیکھیں گے جنہیں ذکر اور نماز سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہوگی، وہ تقویٰ اور خشوع کے الفاظ سے گھبرائیں گے۔ البتہ اس قسم کے عنوان پر وہ گھنٹوں تقریر کریں گے کہ ’’ اسلام سب سے بہتر نظام زندگی ہے ۔وہ تمام مسائل کا حل ہے ۔ اس سے دنیا میں امن قائم ہو سکتاہے‘‘۔ اسی طرح جو لوگ اخباری فکر رکھتے ہوں، پیشہ ور لیڈروں کے چھیڑے ہوئے مسائل جن کے نزدیک اہم ترین مسائل ہوں، جن کا ذہن سیاسی الٹ پھیرمیں الجھا ہوا ہو، وہ دین کے لطیف حقائق میں کچھ دل چسپی نہیں لے سکتے۔ایسی باتین سن کر وہ نہایت آسانی سے کہہ دیں گے —’’یہ تصوف ہے ‘‘ ’’یہ شخصی ذوق ہے ‘‘’’یہ انتہا پسندی کی باتیں ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ اسلامی تحریک کے تنزل کے دور میں اس کے جو بچے کھچے آثار باقی رہ گئے ہوں، انھیں کو اسلام کی آخری اور مکمل صورت سمجھ لیا جائے۔ ایسے شخص کو اسلام کی کوئی ایسی تشریح متاثر نہیں کر سکتی جس میں زیادہ گہرے اور وسیع انداز میں دینی کام کا نقشہ بتایا گیا ہو۔ اس کا ذہن مسجد اور مدرسہ کی تعمیر میں اٹکا رہے گا۔ یا پھرکسی خانقاہی ادارے سے منسلک ہو کر وہ سمجھے گا کہ اس نے اپنی دینی ذمے داریوں کو آخری طور پر ادا کر دیا ہے ۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام غلط ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی طاقت اور اپنے حالات کا اندازہ کرنے کے بعد دیانت دار انہ طو ر پر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ اتناہی کر سکتاہے، اور اس میں وہ پوری طرح اپنے آپ کو لگاتا ہے تو وہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے جو سماجی اور بین الاقوامی سطح پردین کی شہادت کے لیے تو بہت بے قراری کا اظہار کرتا ہے، مگر اپنی ذات اورخاندان کی سطح پر دین کی شہادت دینے سے غافل ہے۔ حالانکہ وہ دوسری چیز اس کے لیے آج بھی ممکن تھی۔
9۔یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ جس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہوا ۔ زیرِ بحث تعبیر کے بالمقابل اسلام کا جو صحیح تصور مجھے قرآن میں نظر آتا ہے۔ اس کو پچھلے کئی سال سے میں اپنے مضامین میں پیش کر تا رہا ہوں، ان مضامین کو ہمیشہ پسند کیا گیا۔ مگر اب یہ ’’ تعبیر کی غلطی ‘‘ کے عنوان سے میں نے جو تحریرمرتب کی ہے ۔ اس کو دیکھ کر وہی لوگ سخت متوحش ہوگئے جو اس سے پہلے میری تحریروں کو اپنے دل کی آواز کہا کرتے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس کی وجہ کیاہے ۔ کیوں کہ میرے نزدیک ان دونوں میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ پہلے جو بات غیر متعین شکل میں کہی جا رہی تھی ۔ اسی کو اب تعین کے ساتھ پیش کر دیا گیا۔ جو بات پہلے قرآن و حدیث کی نسبت سے مثبت طور پر کہی جا رہی تھی ۔ اس کو اب ایک مخصوص اسلامی تشریح کی نسبت سے واضح کیا گیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اصل فطرت جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے، وہ چوں کہ اپنی ساخت کے اعتبا ر سے صحیح دین کا طالب ہے۔ اس لیے دین حنیف کی غذا جب اس کے اندر اترتی ہے تو اس کا وجود اپنے آپ کو اس کے بالکل ہم آہنگ پاتا ہے ۔ وہ اس سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ مگربعض اسباب سے ذہن کی ساخت چوں کہ بدل گئی ہے، اور شعور کی سطح پر آدمی فطرت اللہ کے خلاف کچھ دوسرے اندا ز سے سوچنے لگا ہے ۔ اس لیے دین حنیف کے بارے میں اس کی فطرت کا یہ تاثر صرف اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ غیر شعوری طور پر اسے پا رہا ہو۔ جہاں آپ نے صراحت کر دی فورا ً اس کا شعور مقابل میں آکر کھڑا ہوجائے گا۔ اور وہی بات جس کو وہ پہلے بالکل درست سمجھ رہا تھا۔ اب وہ اس کو زہر آلو د نظر آنے لگے گی۔
سبزی خوری کا عقیدہ رکھنے والا ایک شخص روزانہ پانی استعمال کرتا ہے اس کو پی کر اس کی روح پکار اٹھتی ہے کہ یہ عین وہی چیز ہے جس کی اسے ضرورت تھی ۔ وہ اس کو اپنی طلب کا صحیح ترین جواب سمجھتا ہے۔ لیکن اگر کسی روز وہ خورد بین سے دیکھے کہ پانی کے جس گلا س کو وہ اپنے اندر اتار نے جا رہا ہے اس میں لاکھوں زندگیاں رینگ رہی ہیں۔ تو جان کو حرام سمجھنے والے اس شخص کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر گر پڑے گا۔ وہ اسی پانی کو ایک خوفناک چیز سمجھنے لگے گا۔ جس کو زندگی بھر بہترین نعمت سمجھ کرپیتا رہا تھا۔اس کی وجہ یہی ہے کہ پانی کے بارے میں اس کی پیدائشی فطرت کا جو حقیقی احساس ہے ، اس نے اپنے شعور کو اس سے مختلف بنا لیا۔ اس لیے پانی جب تک اس کے اس مصنوعی شعور سے اوجھل تھا، وہ اس کو انتہائی رغبت کے ساتھ استعمال کرتا رہا۔ مگر یہی حقیقت جب اس کے شعور کے سامنے آئی تو اس کے بگڑے ہوئے شعور نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی ایک مانوس چیز اس کی ایک مبغوض چیز بن گئی— حالاں کہ دونوں میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ ایک’’پانی ‘‘ہے اور دوسرا پانی کا خوردبینی تجزیہ۔
