جواب
اعظم گڑھ، 5 اکتوبر 1962ء
محترمی! سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 8 ستمبر (نقل) وصول ہوا۔ عرض یہ ہے کہ اس سے پہلے آپ نے زیرِ بحث مسئلہ پر اپنی رائے دینے کی جو شرط رکھی تھی کہ آپ ’’سوالات‘‘ کریں گے، تو اس کامطلب میں یہ سمجھا تھاکہ میں نے جو تحریر آپ کے پاس بھیجی ہے آپ اس کے استدلال اور استنتاج کے بارے میں کچھ سوالات کریں گے اور اس کے بعد اصل مسئلہ پر اپنی رائے دیں گے، مگر آپ کا 6 ستمبر کا پہلا سوالنامہ جب ملا تو میں نے محسوس کیاکہ یہ اس سے بالکل مختلف چیز ہے، اس میں چند بالکل مجرد قسم کے سوالات تھے۔ جیسے امتحان کے پرچوں میں طالب علموں سے کیے جاتے ہیں، ان سوالات کااصل بحث سے کیاتعلق ہے، اس کے متعلق آپ نے کچھ نہیں بتایا تھا، مجھے سوال کا یہ انداز پسند نہیں آیا، مگر اس کے باوجود میں نے آپ کے پاس خاطر سے ایسا کیا کہ آپ نے جو سوالات کیے تھے، ان کاجواب لکھ کر آپ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔
اب یہ دوسرا سوالنامہ جو آیا ہے، وہ بھی بعینہٖ اسی قسم کا ہے، میں اب بھی شاید اپنے کو اس کے لیے تیار کر لیتا کہ میرے نقطہ نظر سے یہ طریقہ ناموزوں یا غیر متعلق سہی، بہرحال آپ جو کچھ پوچھتے جائیں اس کا جواب روانہ کرتا رہوں۔ مگر پہلے سوال نامہ کا جواب بھیجنے کے بعد مجھے امیر جماعت کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خط اتفاق سے دستیاب ہو گیا جو انہوںنے ایک مرکزی شخصیت کے نام لکھا تھا، اس خط میں آپ سے میری خط و کتابت کے بارے میں یہ الفاظ درج تھے:
’’مولانا جلیل احسن نے بھی (وحید الدین خاں سے) مراسلت شروع کر دی ہے، لیکن مجھے اول تو یہ امید نہیں کہ خاں صاحب ان کے طرز یا طریق مراسلت کی تاب لاسکیں گے،.....بہرحال میں نے جلیل احسن صاحب کو لکھ دیا ہے کہ جو کچھ ان کو پڑھانا لکھانا ہے جلد اس سے فارغ ہو جائیں،‘‘.....
اس اقتباس کا آخری فقرہ میرے لیے سخت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس کو سامنے رکھ کر جب آپ کے ’’سوالات‘‘ کو دیکھتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعی مجھ کو ’’پڑھایا لکھایا‘‘ جارہا ہے۔ میں افسوس کے ساتھ عرض کروں گا کہ براہ کرم یہ پڑھانے لکھانے کا انداز چھوڑ کر اصل مسئلہ کے بارے میں جو آپ کا نقطۂ نظر ہو، اور اس سے متعلق جو دلیل آپ رکھتے ہوں، اس سے مجھے مطلع فرمائیں تاکہ اس کی روشنی میںزیرِ بحث مسئلہ پر غور کیا جا سکے۔
خادم وحید الدین
