عبادت
تیسری قرآنی اصطلاح جس پر ا س کتاب میں گفتگو کی گئی ہے وہ عبادت ہے ۔ یہ بحث مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوتی ہے:
’’عربی زبا ن میں عبودۃ ، عبودیۃ اور عبدیۃ کے اصل معنی خضوع اور تذلل کے ہیں ۔ یعنی تابع ہو جانا ، رام ہو جانا ‘‘ ۔
اوپر کے اقتباس میں عبادت کا ’’ اصل معنی ‘‘ خضوع اور تذلل بتایا گیا ہے ۔اوریہ بالکل صحیح ہے ۔ مگر ’’ یعنی ‘‘ کے بعد اس اصل معنی کی تشریح کرتے ہوئے ذہن دوسری سمت میں چلا گیا۔ ’’ تابع ہونا ‘‘ خضوع اور تذلل کا اصل مفہوم نہیں، بلکہ وہ اس کا ایک تقاضا اور نتیجہ ہے ۔ خضوع اور تذلل ( انسان کے اعتبار سے ) قلبی جھکاؤ اور اندرونی احساس عجز کا نام ہے ۔ یہی عبادت کی اصل ہے ۔ پرستش یا مراسم عبودیت اسی حقیقت عبادت کے لازمی مظاہرہیں جن کی تعیین خود معبود نے کر دی ہے ۔ جب یہ کیفیت کسی کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے معبود کا تابع فرمان بن جاتاہے ۔ وہ اس کی اطاعت کرنے لگتا ہے ۔
حدیث میں آیا ہے:الدُّعاءُهُوالعِبادَةُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3527)۔ یعنی، دعا ہی عبادت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عبادت تمام کی تمام بس دعا ہی میں منحصرہے۔ دعا کے بعد عابد کو کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں یہ ارشاد نبوت دراصل حقیقتِ عبادت کا اظہار ہے ۔ یعنی عبادت اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے اس کا نام ہے کہ بندہ خدا کی طرف مشتاق ہو، وہ اس کو پکارے ، وہ اس کے سامنے بالکل عاجزو درماندہ کی طرح متوجہ ہو، وہ ہمہ تن اللہ کی طرف مائل ہو گیا ہو ۔یہی عبادت کی روح اور اس کی اصل حقیقت ہے ۔ مگر جس طرح ہر حقیقت کے بہت سے ایسے پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی مختلف حیثیات اور دنیا میں اس کے تعلقات وحالات کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح حقیقت عبادت بھی خارج میں اپنے بہت سے مظاہر رکھتی ہے اور اس اعتبار سے سارا نظامِ اطاعت اس کی فہرست میں آجاتا ہے ۔ خدا کی عبادت کا لازمی تقاضا ہے کہ جن معاملات سے اہلِ ایمان کا سابقہ پیش آئے ، ان میں خدا کی اطاعت کی جائے ۔ خدا سے عبادتی تعلق ، لازمی طور پر اس سے اطاعتی تعلق کی صورت میں ظاہرہوتا ہے ۔ جس عبادت کے ساتھ عملی معاملات میں سر کشی اور بغاوت پائی جائے ، وہ عبادت حقیقۃً عبادت نہیں ۔ علامہ آلوسی کے الفاظ میں:
’’ولا يَخفى أنَّ تَخصيصَ العِبادةِ بهِ تعالى لا يَتحقَّقُ إلَّا بتَخصيصِ الطَّاعةِ أيضًا بهِ تعالى، ومتى لم تُخصَّ بهِ جلَّ شأنُهُ، لم تُخصَّ العِبادةُ بهِ سبحانهُ‘‘ (تفسیرروح المعانی، جلد 5، صفحہ 276)۔یہ واضح ہے کہ عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنا اس وقت تک متحقق نہیں ہوتا جب تک اطاعت کو بھی اللہ کے لیے خاص نہ کر دیا جائے ، جب تک اطاعت خدا کے لیے خاص نہ کی جائے اس وقت تک گویا عبادت بھی خدا کے لیے خاص نہیں ہوتی ۔
مگر زیرِ بحث تعبیر کے خانے میں عبادت کا یہ تصور ٹھیک سے بیٹھ نہیں رہا تھا ۔ کیوں کہ یہ تعبیر دین کو اس نظر سے دیکھتی ہے کہ وہ ایک ’’ نظام ‘‘ ہے جس کو زندگی کے تمام شعبوں میں رائج کرنا ہے ۔ جبکہ خضوع اور تذلل کو عبادت کا اصل مفہوم قرار دینا اس کو فرد کا ایک معاملہ قرار دینا ہے ۔ اس اعتبار سے عبادت اصلاً دل کے جھکاؤ اور میلان کا نام ہے۔ نظامی مظاہر اس میں براہِ راست شامل نہیں ہیں بلکہ تقاضے اور حالات کے مطابق وہ اس کا جزو بنتے ہیں ۔ اس لیے اس تعبیر کے ذہن میں عبادت کی تصویر بالکل الٹ گئی۔ جو کچھ اصل تھا وہ محض ایک تقاضا بن گیا اور جو اس میں تقاضے کے طور پر شامل ہوا تھا ، وہ اصل قرار پایا۔ لغت سے عبادت کے پانچ معنی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مادہ عبد کا اساسی مفہوم کسی کی با لا دستی وبرتری تسلیم کر کے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی وخود مختاری سے دست بردار ہو جانا سرتابی ومزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہو جانا ہے یہی حقیقت بندگی وغلامی کی ہے ۔ لہٰذا اس لفظ سے اولین تصور جو ایک عرب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ بندگی وغلامی ہی کا تصور ہے ۔ پھر چوں کہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت وفرماں برداری ہے ، اس لیے لازماً اس کے ساتھ ہی اطاعت کا تصورپیدا ہوتا ہے ۔ اور جب کہ ایک غلام اپنے آقا کی بندگی واطاعت میں محض اپنے آپ کو سپر د ہی نہ کر چکا ہو بلکہ اعتقاداً اس کی برتری کا قائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو، اور اس کی مہربانیوں پر شکرو احسان مندی کے جذبہ سے بھی سر شار ہو ، تو وہ اس کی تعظیم وتکریم میں مبالغہ کرتا ہے مختلف طریقوں سے اعتراف نعمت کا اظہار کرتا ہے۔ اور طرح طرح مراسمِ بندگی بجا لاتا ہے ، اسی کا نام پرستش ہے اور یہ تصور عبدیت کے مفہو م میں صرف اس وقت شامل ہوتا ہے جب کہ غلام کا محض سر ہی آقا کے سامنے جھکاہو ا نہ ہو۔ بلکہ اس کادل بھی جھکا ہوا ہو ۔رہے باقی دو تصورات تو وہ دراصل عبدیت کے ضمنی تصورات میں اصلی اور بنیادی نہیں‘‘ ۔
بہظاہر اس سہ رکنی فہرست میں عبادت کا اصل مفہوم اور اس کا تقاضا دونوں موجود ہیں ۔ مگر اس کی ترتیب بالکل الٹ گئی ہے ، بندگی یا اطاعت جو عبودیت کا خارجی مظہر ہے ، اس کو اس تشریح میں اصل قرار دیا گیا ہے ۔ اور خضوع وپرستش جو عبادت کا اصل ا ور براہِ راست مفہوم ہے، اس کو محض تیسرے تقاضے کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔
یہی بات دوسری جگہ ان لفظوں میں ہے :
’’ عبادت کا لفظ عبد سے نکلا ہے ۔ عبد کے معنی بندے اور غلام کے ہیں ۔ اس لیے عبادت کے معنی بندگی اور غلامی کے ہوئے ‘‘۔ (خطبات مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، لاہور، 2012، صفحہ 104)
عبادت کا لفظ عبد سے نہیں نکلا ہے بلکہ اس کے بر عکس، عبدکا لفظ عبادت سے ماخوذ ہے۔ عبد ( بمعنی بندہ اور غلام ) حقیقت عبادت کا ایک مظہر ہے، نہ کہ یہی اصل عبادت ہے ۔ مگر زیرِ بحث ذہن کو مظہر سے زیادہ دلچسپی تھی اس لیے اس نے عبد کو اصل قرار دے کر اسی کی بنیاد پر عبادت کی تشریح شروع کر دی۔
اس طرح اصل ترتیب بالکل الٹ گئی۔اور صرف ترتیب نہیں الٹی بلکہ جامعیت پیدا کرنے کے باوجود عبادت کی اصل روح اور اس کا تقاضا دونوں غائب ہو گئے ۔ کیوں کہ تقاضا ہمیشہ اصل حقیقت کے جا گزیں ہونے کے بعد اس سے بطور نتیجہ نکلتا ہے ۔ پھر جب اصل ہی اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو نتیجہ کہاں سے برآمد ہو گا۔ تقاضے کو اصل کی جگہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسے درخت کو الٹا کر کے نصب کیا جائے ۔ظاہر ہے کہ جب شاخیں زمین میں دبا دی جائیں اور جڑ کو اوپر فضا میں کھڑا کر دیا جائے تو دونوں میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں رہے گا ، شاخ بھی زندگی سے محروم ہو جائے گی اور جڑ بھی ۔
کتاب میں مشہور عربی لغت لسان العرب کے حوالے سے ’’ عبادت ‘‘ کے پانچ معنی بتائے گئے ہیں ۔ جن میں سے مصنف کے نزدیک تین ’’ اصلی اور بنیادی ‘‘ ہیں ۔ ( صفحہ 72) مجھے نہیں معلوم کہ یہ تین یا پانچ کی تعداد کیوں کر مقرر کی گئی ہے ۔ کیوں کہ لسان العرب میں اس مادہ کے جو استعمالات بتائے گئے ہیں وہ تو اتنے زیادہ ہیں کہ پانچ کیا شاید پندرہ تک انھیں شمار کیا جا سکتا ہے تاہم مجھے اس سے کوئی بحث نہیں ۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عبادت کے ’’ تین اصلی اور بنیادی ‘‘ مفہومات کو جس طرح قرآن سے ثابت کیا گیا ہے ، وہ نہایت ناقص استدلال ہے جس میں مختلف قسم کے خلا پائے جاتے ہیں ۔ یہاں میں دو حوالوں کا تجزیہ کروں گا۔
’’ عبادت بمعنی اطاعت ‘‘ کے عنوان سے حسب ذیل آیات نقل کی گئی ہیں: )صفحہ 74(
احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ وَما كانُوا يَعْبُدُونَ۔ مِنْ دُونِ اللهِ فَاهْدُوهُمْ إِلى صِراطِ الْجَحِيمِ۔ .....وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ يَتَساءَلُونَ۔ قالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ۔ قالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ۔ وَما كانَ لَنا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطانٍ بَلْ كُنْتُمْ قَوْماً طاغِينَ (37:22-30)۔یعنی، (جب قیامت برپا ہو گی تو اللہ فرمائے گا ) تمام ظالموں اور ان کے ساتھیوں کو اور ان معبود انِ غیر اللہ کو جن کی وہ عبادت کرتے تھے جمع کرو اور انھیں جہنم کا راستہ دکھا ؤ..... پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے ردو کد کرنے لگیں گے۔ عباد ت کرنے والے کہیں گے کہ تم وہی لوگ تو ہو جو خیر کی راہ سے ہمارے پاس آتے تھے۔ ان کے معبود جواب دیں گے کہ اصل میں تم خود ایمان لانے پر تیار نہ تھے۔ ہمارا کوئی زور تم پر نہ تھا تم آپ ہی نافرمان لوگ تھے ۔
اوپر میں نے آیات کا جو ترجمہ دیا ہے وہ زیرِ بحث کتاب کا ترجمہ ہے، اس کے بعد ان آیات کے نیچے حسب ذیل نوٹ ہے :
’’ اس آیت میں عابدوں اور معبودوں کے درمیان جو سوال وجواب نقل کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بُت اور دیوتا نہیں ہیں جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ بلکہ وہ پیشوا اور رہنما ہیں جنھوں نے خیر طلب بن کرانسانوں کو گمراہ کیا۔ جو تقدس کے جامے پہن پہن کر نمودار ہوئے ، جنھوں نے سجا دوں اور تسبیحوں اور جبّوں اور گلیموں سے بند گانِ خدا کو دھوکا دے دے کر اپنا معتقد بنایا جنھوں نے اصلاح اور خیر خواہی کے دعوے کر کر کے شر اور فساد پھیلائے، ایسے لوگوں کی اندھی تقلید اور ان کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت کرنے ہی کو یہاں عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ (صفحات74-75)
مندرجہ بالا تشریح میں عبادت کو تمدنی اطاعت کے معنی میں لینے کا راز مصنف کی اس غلطی میں چھپا ہوا ہے کہ انھوں نے آیت میں مذکور گفتگو کو عابدوں اور معبودوں کے درمیان گفتگو فرض کر لیا ہے ۔ حالانکہ یہ خود عابدوں ہی کے دو گروہوں کے درمیان ہے، نہ کہ عابدوں اور معبودوں کے درمیان ۔ اپنی اس غلط فہمی کی وجہ سے انھوں نے قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ کا ترجمہ کیا ہے ۔ ’’ ان کے معبود جواب دیں گے کہ..... ‘‘ مگر اس فقرہ میں قَالُوکا مرجع معبود نہیں ہے بلکہ الَّذِينَ ظَلَمُواہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں جن گروہوں کا ذکر ہے وہ صرف دو نہیں ہیں بلکہ تین گروہ ہیں ۔
ان آیات میں قیامت کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے جب کہ تین گروہ ایک جگہ جمع کیے جائیں گے:
1۔ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا — اس سے مراد وقت کے وہ لیڈر یا سر بر آور دہ لوگ ہیں جو خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو گمراہ کیا ۔
2۔ اَزْوَاج — اس سے مراد مذکورہ بالا باطل رہنماؤں کے پیرو اور ان کے ساتھی ہیں (زوج کے اصل معنی قرین کے ہیں ۔ یعنی مصاحب )
3۔ مَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ — اس سے مراد وہ ہیں جن کی خدا کے سوا عبادت کی جاتی تھی، یعنی اصنام۔
ان آیات میں قیامت کا وہ منظر پیش کیا گیا ہے جب تینوں گروہ اکٹھاکیے جائیں گے۔ اس وقت پہلے اور دوسرے گروہ کے درمیان بحث ہو گی ۔ دوسرا گروہ کہے گا کہ تم نے اپنے اثرات سے کام لے کر ہم کو باطل معبودوں کی پرستش میں مبتلا کیا ۔ پہلا گروہ جواب دے گا کہ نہیں بلکہ تم خود اپنی گمراہی کے ذمہ دار ہو۔ اگلی آیتیں اس کو بالکل واضح کر دیتی ہیں۔ جن میں ایک گروہ کی زبان سے کہا گیا ہے۔ ’’ جیسے ہم نے تمہیں گمراہ کیا ویسے ہی ہم بھی گمراہ تھے ‘‘ یعنی ہم خود بھی غیر اللہ کی پرستش میں مبتلا تھے اور تم کو بھی اس میں مبتلا کیا۔ اس کے بعد گروہِ اول، جس کی قائدانہ گمراہی کی وجہ سے قرآن نے اس کو ظالم ، مجرم اور متکبر کہا ہے ، پیغمبر کی دعوت کے مقابلے میں ان کا یہ جواب نقل کیا گیا ہے :
أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ (37:36)۔ یعنی، ان متکبروں کے سامنے جب لا الہ الا اللہ کی دعوت پیش کی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے۔ کیا ایک شاعر دیوانے کے لیے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے ۔
یہ آیت صریح طورپر ثابت کر رہی ہے کہ محولہ با لا تشریح میں جن کو معبود قرار دیا گیا ہے وہ معبود نہیں تھے بلکہ وہ خود بھی کسی دوسرے الہٰ کو پوجتے تھے ۔
یہی مفہوم تمام مفسرین نے لیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو، تفسیر ابن کثیر ، جلد 4 ، صفحات 4-5؛تفسیر روح المعانی جلد 23، صفحات 73-74)
اسی طرح ’’ عبادت بمعنی غلامی واطاعت ‘‘(۱)کے لیے حسب ذیل آیت نقل کی گئی ہے:
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ مَا رَزَقْناكُمْ وَاشْكُرُوا لِلهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (2:172)۔ یعنی، اے ایمان لانے والو! اگر تم خدا کی عبادت کرتے ہو تو ہم نے جو پاک چیزیں تمہیں بخشی ہیں ۔ انھیں کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو ۔
(۱)عبدیعبد کے اصل معنی غلامی یا اطاعت کے نہیں ہیں ۔ البتہ مجازی طور پر یہ لفظ ان مفہومات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
اس آیت کی تشریح میں حسب ذیل الفاظ درج ہیں:
’’ اس آیت کا موقع ومحل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں کے احکام اور اپنے آباؤ اجداد کے اوہام کی پیروی میں کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق طرح طرح کی قیود کی پابندی کرتے تھے ۔ جب ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ہماری عبادت کرتے ہو ، تو ان ساری پابندیوں کوختم کرو اور جو کچھ ہم نے حلال کیا ہے اسے حلال سمجھ کربے تکلف کھاؤ پیو ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنے پنڈتوں اور بزرگوں کے نہیں بلکہ ہمارے بندے ہو ،اور اگر تم نے واقعی ان کی اطاعت وفرماں برداری چھوڑ کر ہماری اطاعت وفرماں برداری قبول کی ہے تو اب تمھیں حلت وحرمت اور جوازوعدمِ جواز کے معاملہ میں ان کے بنائے ہوئے ضابطوں کے بجائے ہمارے ضابطہ کی پیروی کرنی ہو گی ۔ لہٰذا یہاں بھی عبادت کا لفظ غلامی اور اطاعت ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ‘‘۔( صفحہ 73)
اس آیت میں ’’ اگر تم خدا کی عبادت کرتے ہو تو —‘‘ کے الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ یہاں جس چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ عبادت کا براہِ راست مفہوم اور اس کا ’’ اصلی اور بنیادی تصور ‘‘ نہیں بلکہ عبادت کا ایک تقاضا ہے ۔ محولہ بالا تشریح کے ابتدائی فقروں میں خود یہ فرق پایا جا رہا ہے ۔ مگر آخر تک پہنچتے پہنچتے بات بدل گئی اور دعوی کر دیا گیا کہ —’’ یہاں عبادت کا لفظ غلامی اور اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ‘‘۔
بحث کے آخر میں وہ آیتیں درج کی گئی ہیں جو مصنف کے نزدیک عبادت کے تینوں مفہومات کی جامع ‘‘ ہیں ۔ یعنی ان میں عبادت کا یہ مکمل تصور پیش کیا گیا ہے کہ ’’ غلامی اطاعت اور پر ستش ‘‘ تینوں معنوں میں خدا کو اپنا معبود بناؤ۔ مگر کسی ایک سے بھی موصوف کا جامع اور مکمل تصور عبادت ثابت نہیں ہوتا ۔ یہاںمیں چند آیتوں پر گفتگو کر وں گا ۔
قُلْ يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ وَلكِنْ أَعْبُدُ اللهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ(10:104)۔ یعنی، کہو کہ لوگو ! اگر تمہیں ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ میرا دین کیا ہے تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کے سواجن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ، ایمان لانے والوں میں شامل ہو جاؤں ۔
اس سلسلے میں بیان میں آگے یہ فقرہ ہے:وَلا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لا يَنْفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ(10:106)۔ یعنی، اور اللہ کے علاوہ ان کو نہ پکارو جو تم کو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں عِبَادَةً مِّن دُونِ اللهِ سے مراد وہ عمل ہے جو ان ہستیوں کے تعلق سے ظاہر ہوتا ہے جن کو آدمی نافع وضار سمجھ کر پکارتا ہے۔ یعنی یہاں عبادت سے مراد پر ستش ہے ۔ اور غیر از خدا معبودوں سے مراد بُت۔
’’فَلا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ‘‘ مِنَ الْأَوْثَانِ الَّتِي لَا تَعْقِلُ(تفسير القرطبی، جلد 8، صفحہ 387)۔ یعنی،’’ خدا کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا ‘ ‘کا مطلب یہ ہے کہ میں بُتوں کو نہیں پوجتا جو عقل و شعور نہیں رکھتے۔
ایک آیت یہ ہے:
وَلِلهِ غَيْبُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَما رَبُّكَ بِغافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (11:123)۔ یعنی، آسمانوں اور زمین کی جس قدر حقیقتیں بندوں سے پوشیدہ ہیں۔ ان کا علم اللہ ہی کو ہے اور سارے معاملات اسی کی سرکار میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ۔
اس آیت میں فاعبدہ سے پہلے إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ کا فقرہ ہے اور اس کے بعد وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں عبادت کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تمام مخلوقات کا کار ساز ہے ، اسی پر بھروسہ کرو اور اسی کو اپنا ملجاو ماویٰ بناؤ۔
’’فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ‘‘ أَيِ الْجَأْ إِلَيْهِ وَثِقْ بِهِ ( تفسير القرطبی ، جلد9، صفحہ 117)۔ یعنی، ’’ اسی کی عبادت کر اور اسی پر توکل کر ‘‘ یعنی اس کو اپنا ملجا بنا لے اور اسی پر بھروسہ کر۔
ایک آیت یہ ہے :
مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَاّ أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها أَنْتُمْ وَآباؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِها مِنْ سُلْطانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَاّ لِلهِ أَمَرَ أَلَاّ تَعْبُدُوا إِلَاّ إِيَّاهُ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ(12:40) ۔ یعنی، اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داد ا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے لیے کوئی دلیل معبود یت نازل نہیں کی۔ اقتدار صرف اللہ کے لیے خاص ہے اس نے حکم دیا ہے کہ خود اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے یہی سیدھا طریقہ ہے۔
اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داد ا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے لیے کوئی دلیل معبود یت نازل نہیں کی ۔ اقتدار صرف اللہ کے لیے خاص ہے اس نے حکم دیا ہے کہ خود اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے یہی سیدھا طریقہ ہے ۔
اس آیت میں اَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوْهَآ کا ٹکڑا ظاہر کر رہا ہے کہ اس کو اس قسم کے کسی ’’ جامع ‘‘ مفہوم کا ماخذ نہیں بنایا جا سکتا جو زیرِ بحث کتاب میں پیش کیا گیا ہے ۔ ’’ تمہارے معبود محض کچھ نام ہیں جو تم نے رکھ لیے ہیں ‘‘ یہ وضاحت بتاتی ہے کہ یہاں عبادت سے اس قسم کا کوئی عمل مراد ہے جو ان معبودوں کی نسبت سے ظاہر ہوتا ہے جن کا در حقیقت کوئی وجود نہیں ۔ جو عابدوں کے اپنےمفرو ضے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسا معبود بُت ہے، نہ کہ سیاسی حکمراں ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں جس چیز کی تردید کی گئی ہے وہ خدا کے سوا دوسری مفروضہ ہستیوں کو نافع وضار سمجھ کر پکارنا اور ان کی پر ستش کرناہے ۔ اس لیے اس کے بالمقابل جس چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ بھی اصلاً یہی ہو سکتا ہے کہ اسی کی پر ستش کرو اور اسی کو نافع وضار سمجھو۔
آیت کا یہی مفہوم مفسرین نے لیا ہے ۔ قرطبی یہ بتاتے ہوئے کہ أَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَسے مراد ’’ اصنام ‘‘ ہیں ۔ اگلے فقروں کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً‘‘ بَيَّنَ عَجْزَ الْأَصْنَامِ وَضَعْفَهَا فَقَالَ:’’مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ‘‘ أَيْ مِنْ دُونِ اللهِ إِلَّا ذَوَاتِ أَسْمَاءٍ لَا مَعَانِيَ لَهَا،’’سَمَّيْتُمُوها‘‘ مِنْ تِلْقَاءِ أَنْفُسِكُمْ. وَقِيلَ: عَنَى بِالْأَسْمَاءِ الْمُسَمَّيَاتِ، أَيْ مَا تَعْبُدُونَ إِلَّا أَصْنَامًا لَيْسَ لها من الإلهية شي إِلَّا الِاسْمُ، لِأَ نَّهَا جَمَادَاتٌ (تفسير القرطبی، جلد9، صفحہ 192)۔یعنی، مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً کے فقرے سے بتوں کا عجز اور ان کی کمزوری بیان کی فرمایا کہ خدا کے سوا جن کی تم پر ستش کرتے ہو وہ محض کچھ نام ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ تم نے خود سے یہ نام رکھ لیے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اسماء سے مراد ان کے مسمی ہیں۔ یعنی تم جن کی پر ستش کرتے ہو وہ محض بت ہیں جن کے اندر الوہیت کا کوئی جزء نہیں۔ کیوں کہ وہ تو محض جمادات ہیں۔
اس سلسلے کی آخری اور غالباً سب سے نمایاں آیت یہ ہے :
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا (18:110)جو اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو ، اسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔
اس آیت میں آخری فقرے کا ترجمہ کتاب میں یہ کیا گیا ہے ۔ ’’ اور اپنے رب کی عبادت میں کسی اور کی عبادت شریک نہ کرے ‘‘ اور ا س سے یہ مطلب نکال لیا گیا ہے کہ اس میں ’’ قرآن اپنی پوری دعوت پیش کر رہا ہے ‘‘۔ (صفحہ 84) یعنی یہ کہ پر ستش سے لے کر تمدنی اور سیاسی زندگی تک ہر جگہ احکامِ الٰہی کی تعمیل کی جائے ۔
مگر یہ ترجمہ اور یہ مفہوم دونوں صحیح نہیں۔ اس آیت کا یہ ترجمہ نہیں ہے کہ ۔۔۔ ’’ اپنے رب کی عبادت میں کسی اور کی عبادت شریک نہ کرے ۔ بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘ یعنی یہاں بات یہ نہیں کہی جا رہی ہے کہ زندگی کے پورے نظام میں جو مفصل اور مکمل عبادت تمہیں کرنی ہے اس کے حصے بخرے نہ کرو ۔ بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ خدا کی عبادت جو تم کرو، اس میں کسی اور کو خوش کرنے کا خیال تمھارے دل میں نہیں آنا چاہیے ۔ بلکہ تمہاری عبادت بالکل لوجہ اللہ ہونی چاہیے ۔ آیت کا یہی مفہوم روایات سے اور مفسرین کی تشریح سے ثابت ہے ۔ میں صرف ایک اقتباس نقل کروں گا:
وَقَالَ الْمَاوَرْدِيُّ وَقَالَ جَمِيعُ أَهْلِ التَّأْوِيلِ: مَعْنَى قَوْلِهِ تَعَالَى:’’وَلا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً ‘‘ إِنَّهُ لَا يُرَائِي بِعَمَلِهِ أَحَدًا(تفسير القرطبی ، جلد11، صفحہ 70)۔ یعنی، ماوردی اور تمام مفسرین نے کہا ہے کہ:لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً کا مطلب یہ ہے کہ وہ دکھانے کے لیے عمل نہ کرے ۔ یعنی اس کے اندر ریاکا جذبہ نہ ہو۔
