اطاعت

 اب عبادت کے پہلے مظہر— اطاعت — کو لیجیے اطاعت او ر عبادت دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ چیز نہیں ہیں۔ یہ ایک اعتبار ی تقسیم ہے جو دو طرح کے احکام کے نوعی فرق کو سمجھنے کے لیے اختیار کی گئی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے فقہا اس قسم کے احکام کو اخلاق و معاملات سے الگ کرنے کے لیے ’’تعبدی احکام ‘‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ حالانکہ اخلاق و معاملات بھی ایک لحاظ سے عبادتی افعال ہیں وہ اس سے الگ نہیں ہیں۔

اطاعت کی دو بڑی قسمیں ہیں:انفرادی اور اجتماعی ۔ انفرادی اطاعت سے مراد ان چیزوں میں خدا کی فرماں برداری کرنا ہے جن کا تعلق انسان کی ذاتی زندگی سے ہے۔اس میں وہ تمام کے تمام احکام آجاتے ہیں جو اخلاق و معاملات سے متعلق دیے گئے ہیں۔ وہ سب کچھ جو انسان ذاتی طور پر کر سکتا ہے ، اور وہ سب کچھ جس میں انسان اپنے ذاتی فیصلہ سے کوئی رویہ اختیار کرتا ہے ، ان میں خدائی ہدایات کو اپنانے کا نام انفرادی اطاعت ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اس کو اپنے کسی معاملے میں خدا کا حکم معلوم ہو جائے، اور وہ اس کی تعمیل کی حیثیت میں ہو تو وہ اس سے انحراف کرے۔

وَما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبِيناً (33:36)۔ یعنی، کسی مومن یا مومنہ کو حق نہیں کہ جب اللہ اوررسول کسی امر کا فیصلہ کردیں تو وہ اپنے امر میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو خدا اور رسول کی نا فرمانی کرے گاتو وہ صریح گمراہ ہو گیا۔

یہ انفرادی اطاعت ہر شخص کے اوپر خدا کا لازمی حق ہے۔ کوئی شخص ہر گز خدا کے یہاں عابد شمار نہیں کیا جا سکتا اگر وہ اپنی عملی زندگی میں ان احکام کی تعمیل نہ کر رہا ہو۔ جو حالات اور معاملات کے لحاظ سے اس کے اوپر خدا کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔’’عبادت‘‘ اگر انسان کی اندرونی حوالگی کا نام ہے تو اطاعت یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر کو خدا کے حوالے کر دے۔ اس کی خارجی زندگی بالکل خدا کی مرضی کے تابع ہو جائے۔ ہر مومن اور مومنہ کے اوپر لازم ہے کہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے جن جن معاملات سے اس کا سابقہ پیش آئے، ان میں وہ مکمل طورپر خدا کی اطاعت کرے۔ حتی کہ کھانے پینے کے معاملہ میں بھی وہ اس کی مرضیات کی پابندی کرنے لگے۔

يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ مَا رَزَقْناكُمْ وَاشْكُرُوا لِلهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (2:172)۔یعنی، اے ایمان لانے والو جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا کی ہیں ان کو کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

احکام کے جس مجموعہ کے لیے میں نے’’ اطاعت ‘‘ کا عنوان اختیار کیا ہے ۔ اس کی دوسری قسم وہ ہے جس کو ہم اجتماعی احکام کہہ سکتے ہیں ۔ یہ وہ احکام ہیں جن کی تعمیل کسی ایک شخص کی مرضی پر منحصر نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اسی وقت روبعمل آتے ہیں جب پورا معاشرہ ان کو عمل میں لانے کے لیے تیار ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ احکام ہمیشہ اس وقت نازل ہوئے ہیں جب اہل ایمان نے اپنے درمیان سیاسی تنظیم قائم کر لی تھی ۔ اور وہ اس حیثیت میں ہو گئے تھے کہ اس قسم کے سماجی قوانین کو بزور نافذ کر سکیں۔ شریعت کے اجتماعی احکام کا مخاطب بااختیار مسلم معاشرہ ہے، نہ کہ متفرق اور منفرد اہل ایمان۔

بنی اسرائیل کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک وہ مصر میں تھے۔ انھیں تورات کے قانونی احکام نہیں دیے گئے۔ البتہ مصر سے نکلنے کے بعد جب انھیں آزاد اور بااختیار گروہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو فورا ً اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوانین بھیج دیے گئے۔ ٹھیک یہی صورت عرب میں اختیار کی گئی۔ مکہ میں شریعت کا وہ حصہ اترا جو ذاتی طور پر ہر ہر مومن سے مطلوب ہے، اور جس کی ہر حال میں لازمی اقامت کا حکم ہے۔ اور بقیہ شریعت حالات کی نسبت سے بھیجی جا تی رہی ۔ یہ احکام بعد کو اس وقت دیے گئے جب اہل ایمان کو زمین پر اقتدار حاصل ہو گیا۔

احکام نازل ہونے کی یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ عام حالات میں اہل ایمان پر دین کا صرف اتنا ہی حصہ مشروع و مفروض ہے جتنا دورِ اقتدار سے پہلے اترتا ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ احکام کی تعمیل ان پر صرف اس وقت فرض ہوتی ہے، جب انھیں اقتدار اور حکومت کے مواقع حاصل ہوجائیں۔ جو اس طرح کے احکام کے نفاذ کے لیے ضروری ہے ۔

میری ان سطروں کو پڑھ کر ایک صاحب نے بڑے زور و شور سے تنقید کی، فرمایا:

’’ مکی دور کے مسلمانوں پر ہم اپنے آپ کو قیاس نہیں کر سکتے۔ مکہ کا مسلمان اگر سود لیتا تھا، مشرکہ سے نکاح کرتا تھا، زانی کو سنگسار نہیں کرتا تھا، چور کے ہاٹھ نہیں کاٹتا تھا۔ تو اس سے اس پر قطعاً کوئی الزام نہیں لگ سکتاتھا۔ کیوں کہ ان مسائل کے بارے میں ابھی تک کوئی حکم اترا ہی نہیں تھا۔ لیکن آج کی صورت واقعتاً بالکل دوسری ہے ۔ آج خیر یہ تو کسی طرح ممکن ہے ہی نہیں کہ وہ سود ، قمار ، شراب ،نکاح مشرکات  وغیرہ امور سے تعلق رکھنے والے احکام دین کو مدنی دور کے احکام کہہ کر ٹال دے۔ دین کے اجتماعی احکام کے بارے میں بھی وہ اس طرح کی گنجائش نہیں پا سکتا کہ ان کے عملی تعطل کو نظر انداز کر دے‘‘۔

میرا جواب یہ ہے کہ یہاں دو مختلف قسم کے احکام کو ملا کر آپ نے خلط مبحث کر دیا ہے۔

جہاں تک سود، قمار اور شراب وغیرہ کی شخصی حرمت کا سوال ہے، ان احکام کا اپنی مکمل شکل میں مدینہ میں نازل ہونا اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ مکہ میں یا مکہ جیسے حالات میں مطلوب نہیں ہوتے۔بلکہ اس کی وجہ تدریج فی الاحکام کی حکمت تھی ، جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ اگر اس رعایت کی ضرورت نہ ہوتی تو یقیناً یہ تمام احکام پورے کے پورے مکہ ہی میں بھیج دیے جاتے۔ کیوں کہ ان احکام کی تعمیل کے لیے با اقتدار ہونے کی شرط نہیں ہے ۔ بلکہ وہ ہر مسلمان سے شخصی طور پر بھی لازماً مطلوب ہیں۔اس کے برعکس، ’’ چور کا ہاتھ کاٹو‘‘اور’’زانی کو کوڑے مارو‘‘ جیسے احکام کی تعمیل کے لیے اقتدار ضروری ہے۔ اس لیے وہ مدینہ ہی میں اتر سکتے تھے اور وہیں اترے۔ ایسے حالات کے بغیر اس قسم کے احکام پہلے بھی کسی امت کو نہیں دیے گئے۔اور نہ اب دیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پہلی نوعیت کے احکام کے لیے مدینہ کا لفظ صرف’’بعد‘‘میں اترنے کا ہم معنی ہے، جب کہ سیاسی اور اجتماعی احکام کا مدینہ میں اترنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ’’حالات اقتدار‘‘ میں پہنچنے پر اترے۔

دونوں قسم کے احکام کا فرق اس سے بھی واضح ہے کہ پہلی نوعیت کے احکام نازل ہونے کا آغاز تو دو ر اقتدار سے پہلے ہی ہو جاتا تھااور بعد کو ان کی تکمیل ہوتی۔ جب کہ دوسری نوعیت کے احکام سرے سے اس وقت تک بھیجے ہی نہیں جاتے جب تک اہل ایمان کو آزاد اور بااختیار حیثیت حاصل نہ ہوجائے۔

شرعی احکام کے دائرۂ عمل کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اترنا خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ احکام مطلقاً مطلوب نہیں ہیں۔ بلکہ حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں۔ ان کا تعین ہمیشہ اس شخص یا گروہ کے واقعی حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے، جو اس کا مخاطب ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تمدنی اور اجتماعی احکام کا مخاطب صرف اہل ایمان کا وہ گروہ ہے، جو ان احکام کو عمل میں لانے کی حیثیت میں ہو۔ محدود دائرہ اختیار رکھنے والے اہل ایمان کو یہ حکم ہی نہیں دیا گیا ہے کہ وہ سماجی اور ملکی پیمانے پر دینی احکام کو نافذ کریں۔ احکام کی تعمیل ایک عملی مطالبہ ہے اور کوئی عملی مطالبہ صرف انھیں لوگوں سے کیا جا سکتا ہے، جو پہلے سے اس کا اقرار کر چکے ہوںاوراسی کے بقدر کیا جا سکتا ہے جتنا بالفعل ان کے لیے ممکن ہے ۔ شریعت کا واضح اصول ہے کہ —   لا ‌يُكَلِّفُ ‌اللهُ ‌نَفْساً إِلَاّ وُسْعَها (2:286)۔ یعنی، اللہ تعالیٰ کسی کے اوپر اتنے ہی عمل کی ذمہ داری ڈالتا ہے جتنا اس کے ’’وسع‘‘ میں ہو۔ وسع سے زیادہ کا مکلف ٹھہرانا اللہ کا طریقہ نہیں۔ پھر اہل ایمان کو ایسے احکام کیوں کر دیے جا سکتے ہیں، جن کی وہ تعمیل کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں۔ اگر کوئی شخص احکام دین کی تفصیل پیش کر کے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اہل ایمان ہر حال میں اس بات کے مکلف ہیں کہ وہ اس پوری فہرست کو زمین پر نافذ کریں، تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص زکوٰۃ کے قوانین کا حوالہ دے کر کہے کہ سرمایہ کی وہ تمام اقسام جن پر زکوٰۃ کی شرحیں متعین کی گئی ہیں، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوشش کرکے ان تمام مدوں کا مالک بنے، تاکہ زکوٰۃ کے عنوان سے جو فرائض عائد کیے گئے ہیں، اپنی زندگی میں وہ ان سب کی تعمیل کر سکے۔

معلوم ہوا کہ دین کے تفصیلی تقاضے مطلقاًمشروع نہیں ہیں۔ بلکہ حالات کی نسبت سے مشروع ہوتے ہیں۔ اہل ایمان کا دائرہ جس نسبت سے پھیلتا ہے، اسی نسبت سے دین کے تقاضے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جب تنہا ایک شخص مومن ہو تو اس پر دین کا اتنا ہی حصہ فرض ہوگا جتنا اس کی ذات سے متعلق ہے۔ اس وقت اس کی اپنی ذات ہی وہ مقام ہوگی جہاں وہ ہدایات الٰہی کی تعمیل کر ے گا۔ جب اہل ایمان ایک یا چند خاندان کی صورت اختیار کر لیں تو وہی خاندان اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے اس کے مخاطب ہوں گے ۔ اور جب اہل ایمان کا کوئی گروہ ایک بااختیار معاشرہ کی حیثیت حاصل کر لے تو اس وقت پورے معاشرے کا فرض ہوگا کہ خدا کی طرف سے اس کے معاشرتی معاملات کے لیے جتنے بھی احکام دیے گئے ہیں، وہ ان سب کی مکمل پابندی اختیار کرے۔ اور چونکہ معاشرے کے پیمانے پر عمل اقتدا ر کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لیے جب اہل ایمان کا کوئی معاشرہ اس حکم کا مخاطب ہو تو لازمی طورپر یہ مفہوم بھی اس میں شامل ہو گاکہ وہ اپنے اوپر ایک سیاسی امیر مقرر کریں۔ اورا س کے ماتحت اجتماعی زندگی بنا کر تمام شرعی قوانین کا اجرء عمل میں لائیں۔

بعض لوگوں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ’’ اقتدار حاصل کرنے کی براہ راست کوشش کرنا اسلام کے پیروؤں کی دینی ذمے داری نہیں ہے ۔ اقتدار کی حیثیت دراصل انعام کی ہے جو دین کی مخلصانہ پیروی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو عطا ہوتا ہے ۔ ‘‘ زیرِ بحث تعبیر کے حامی اس تصور پر سخت تنقید کر تے ہیں۔ وہ اسلام کے سیاسی اور سماجی احکام کی فہرست پیش کر کے کہتے ہیں کہ اگر حکومت حاصل کرنا ضروری نہیں ہے تو ان احکام کی تعمیل کس طرح ہوگی۔مگر اس بحث میں دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ ایک آزاد مسلم معاشرے کا فرض تو یقیناً یہی ہے کہ وہ اپنے درمیان اسلام کی بنیادوں پر ایک سیاسی نظام قائم کرے، کیوں کہ اس کے بغیر معاشرے کے پیمانے پر شریعت کی تعمیل نہیں کی جا سکتی۔ مگر جہاں مسلمان اس حیثیت میں نہ ہوں، وہاں اسلام ان کو خارجی زندگی کے لیے جو پروگرام دیتا ہے ، وہ نصبِ امامت نہیں بلکہ انذار و تبشیر ہے ۔ اس انذار و تبشیر کی مہم میں جو مراحل بھی پیش آئیں، انھیں اس میں پوری طرح ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اگر انہوں نے ایسا کر دیاتو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی مدد فرمائے گا، اور ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر ے گا جو انھیں اقتدار حکومت تک لے جانے والے ہوں۔

پہلی صورت میں حکومت قائم کرنا اہل ایمان کا فرض ہے ۔ دوسری صورت میں حکومت ملنا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ۔

نصب امامت کا مسئلہ اسی آخری صورت حال سے متعلق ہے جو متفقہ طور پر واجب ہے۔ مثال کے طور پر یہاں چند حوالے درج کیے جاتے ہیں۔

  • نَصْبُ الإمَامِ عِنْدَنَا وَاجِبٌ (شرح المواقف للجرجانی، جلد8، صفحہ376)۔یعنی،  مسلمانوں کے لیے اپنے اوپر امام مقرر کرنا ہمارے نزدیک واجب ہے۔
  • لَا بُدَّ لِلْأُمَّةِ مِنْ إِمَامٍ ( شرح المقاصد للتفتازانی، جلد5، صفحہ 233)۔یعنی، مسلمانوں کا اپنا ایک امام ہونا لازمی ہے۔
  • المُسْلِمُونَ لَا بُدَّ لَهُمْ مِنْ إِمَامٍ (العقائد النسفیۃ مع شرحہ للتفتازانی ، صفحہ 467)۔ یعنی، مسلمانوں کے لیے ایک امام ضروری ہے ۔

اس مسئلہ کی اہمیت کا یہ حال ہے کہ فقہ و عقائد کی کوئی بھی کتاب اس کے تذکرہ سے خالی نہیں۔اور اس میں خوارج کے ایک معدوم فرقہ ’’نجدات ‘‘کے سوا کسی کو بھی اختلاف نہیں۔علامہ ابن حزم لکھتے ہیں:

اِتَّفَقَ جَمِيعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَجَمِيعُ الْمُرْجِئَةِ وَجَمِيعُ الشِّيعَةِ وَجَمِيعُ الْخَوَارِجِ عَلَى وُجُوبِ الْإِمَامَةِ حَاشَا النَّجْدَاتِ مِنَ الْخَوَارِجِ (الفصل في الملل لابن حزم، جلد4، صفحہ 72)۔ یعنی، تمام اہل سنت ، فرقہ مرجئہ ، شیعہ اور باستثنائے فرقہ نجدات تمام خوارج امامت کے واجب ہونے پر متفق ہیں۔

 اس معاملہ میں اگراختلاف ہے تو صرف یہ کہ اہل سنت والجماعۃ اس کو ’’ سمعاً‘‘ یعنی شرعی حکم کے طور پر واجب مانتے ہیں۔ اور بعض فرقے مثلا ً زیدیہ اور معتزلہ کا قول یہ ہے کہ یہ ازروئے عقل واجب ہے۔ مگر اپنے اوپر سیاسی امام مقرر کرنے کا مسئلہ ایک ایسے مسلم معاشرہ سے متعلق ہے، جو مستقل اجتماعی حیثیت کا حامل ہونے کی وجہ سے اپنی ایک علیحدہ سیاسی تنظیم برپا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ متفرق اور منتشر اہل ایمان کے لیے اپنے اوپر سیاسی امام مقرر کرنے کا کوئی سوال نہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کوئی مطلق حکم نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک ایسا گروہ جو اپنی الگ اجتماعیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اجتماعیت کو دین کی بنیادوں پر منظم کرے۔ اور اپنا ایک سیاسی امیر مقرر کرکے اس کے ماتحت منظم زندگی گزارے۔ سیاسی امامت کسی گروہ کے اجتماعی اختیارات کا ظہور ہے۔ پھر جہاں اجتماعی اختیار پایا جائے وہیں تو اس کے ظہور کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ جہاں سرے سے اجتماعی اختیار ہی موجود نہ ہو، وہاں اس کا ظہور کیسے ہوگا۔ اور اس قسم کے احکام کی ’’ تکلیف ‘‘ اس کو کس بنیاد پر دی جائے گی۔

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم کو آزاد اور مجتمع گروہ کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔تو یہ حیثیت آخر حاصل کس طرح ہوگی۔ مگر یہ سوال دراصل ایک غلط فکری کا نتیجہ ہے ۔ اگر اسلامی مشن کا تصور یہ ہو کہ اس کا مقصد دنیا میں حکومت الٰہیہ کا قیام ہے تو ایسی صورت میں ہر حال میں کام کا آغاز یہی قرا ر پاتا ہے کہ سیاسی تبدیلی کو نشانہ بنا کر جدوجہد کی جائے اور اس کے لیے ہر ممکن تدبیر یں اختیار کی جائیں، لیکن جیسا کہ پچھلی بحثوں سے واضح ہو چکا ہے۔ سیاسی تبدیلی کا معاملہ مشن کی حیثیت سے مطلو ب نہیں ہے ۔بلکہ وہ حالات کے اعتبار سے اطاعت فی الاحکام کے ذیل میں آتا ہے۔یعنی جس طرح مالیاتی احکام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کا یہی مشن ہونا چاہیے کہ وہ سرمایہ دار بننے کی کوشش کرے تاکہ اپنی زندگی میں مالی احکام کی تعمیل کر سکے۔بلکہ یہ احکام صرف اس سوال کا جواب ہیں کہ جو شخص صاحب املاک ہو وہ اپنی ملکیت میں اپنے اختیارات کو کس طرح استعمال کرے۔ اسی طرح سیاسی احکام کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے جس گروہ کے اختیارات سیاست و حکومت تک پھیلے ہوئے ہوںوہ اپنے ان اختیارات کو کس طرح استعما ل کریں کہ وہ منشائے الٰہی کے مطابق قرار پائیں۔ تمام اطاعتی احکام ، اختیارات کے صحیح استعمال کو بتانے کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے وہ اس وقت اور اسی حد تک کسی کے اوپر عائد ہوتے ہیں جتنا بالفعل کسی کے اندر اختیار پایا جا رہا ہو۔

عام حالات میں جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اہل ایمان خود اپنے آپ کو عابد اور مطیع بناتے ہوئے انذار و تبشیر کی مہم شروع کر یں۔ وہ خدا کے گمراہ بندوں کو خدا کے دین کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ یہ مہم ہر حال میں اپنی موثر ترین شکل میں جاری رکھی جائے گی۔ تاأنکہ کہ اللہ تعالیٰ یا تو اسی راہ میں ہمارا خاتمہ کر دے یا ہمارے لیے وہ حالات پیدا کردے جب سارا علاقہ ہماری اطاعت کے تحت آجائے اور ہم کو یہ موقع ملے کہ ہم ان کے اوپر خلافت کا نظام قائم کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت و حکومت کو قرآن میں دعوتی تحریک کے نشانے کے طور پر پیش نہیں کیا گیا ہے۔بلکہ اس کو وعدہ اور انعام قرار دیا گیا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion