نوعیت مسئلہ

اسلام کی تشریح وتوجیہ کے لیے جو علوم پیدا ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک علم وہ ہے جس کو حکمت دین یا اسرار شریعت کہا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب دینی تعلیمات کی حکمتوں کو جاننا اور اس کے اندر چھپی ہوئی مصلحتوں کو معلوم کرنا ہے ۔ مثلاً جب آپ حج کے فرائض وارکان کا تعین کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ حج کیسے کیسے کرنا چاہیے تو یہ فقہ ہوتی ہے ۔ مگر جب آپ حج کے فائدے بتائیں اور یہ کہیں کہ  :

’’ حج خدا پرستی کے محور پر اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری بناتا ہے ‘‘۔

تو اسی کا نام حکمت دین ہے ۔

جس طرح دوسرے تمام علوم کا آغاز دور اول سے ہوا اور بعد کو ان میں فنی تفصیلات  پیدا  ہوئیں اسی طرح حکمت دین بھی شروع سے امت کے افراد کا موضوع بحث رہا ہے ۔ اس سلسلے میں بہت کافی معلومات ہمارے وسیع لٹریچر کے اندر بکھری ہوئی ہیں ۔ لیکن اس موضوع پر مستقل تصنیفات بہت کم ہیں ۔ دیگر اسلامی علوم کا حال تو یہ ہے کہ ایک ایک فن پر درجنوں بلکہ سینکڑوں مستقل تصنیفات کا نام لیا جا سکتا ہے مگر حکمت دین پر مستقل کتابیں چند ہی لکھی گئی ہیں ، جن میں سب سے زیادہ نمایاں اور مشہور شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ ہے ۔

یہ بات حکمت دین کے ایک پہلو کے بارے میں ہے ۔ دوسرے اعتبار سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ اس موضوع پر مستقل کام اور بھی کم ہوا ہے ۔ حکمت دین کا ایک مطلب یہ ہے کہ مختلف اجزائے دین کے الگ الگ مصالح معلوم کیے جائیں ۔ مثلاً نماز کی حکمت ، روزے کی حکمت ، جہاد کی حکمت وغیرہ ۔ حکمت دین کے موضوع پر اب تک جو کام ہوا ہے ، وہ زیادہ تر اسی پہلو سے متعلق ہے ۔ اس میں دین کے مختلف پہلوؤں کو علیٰحدہ علیٰحدہ عنوانات کے تحت لے کر ان کی منفرد حکمتوں کو بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام اجزائے دین کی مجموعی حکمت معلوم کی جائے ، دین کے مختلف پہلوؤں کو باہم مربوط کر کے پیش کیا جائے ۔ دین کی ایسی تشریح کی جائے جس میں وہ مجموعی حکمت نظر آئے جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے اس کے مختلف اجزاء کو یک جا کیا ہے ۔

مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی کے کام کی بہترین تعبیر میرے نزدیک یہی ہے کہ انھوں نے حکمت دین کے اس دوسرے پہلو پر کام کرنے کی کوشش کی اور اپنی حد تک ایک ایسی تشریح بھی ڈھونڈ نکالی جس میں دین ایک ہم آہنگ کل (inter-related whole) کی شکل میں نظر آنے لگا ۔ مولانا مودودی کا کام اپنے خارجی استعمال کے لحاظ سے اسلام کی دعوت ہے اور اپنی علمی نوعیت کے اعتبار سے دین کی حکیمانہ توجیہ ہے ۔ فی الحقیقت ان کے کام کی یہی دوسری خصوصیت ہے جس نے موجودہ دور کے بہت سے لوگوں کے لیے ان کے خیالات میں کشش پیدا کر دی اور انھوں نے لپک کر اسے قبول کر لیا۔

مگر آپ جانتے ہیں کہ ہرمجموعہ لازماً حقیقت نہیں ہوتا۔ متفرق اجزاء کا کسی با معنی مجموعہ میں مرتب ہو جانا، بے شک اس بات کا ایک قرینہ ہے کہ یہ اجزاء اسی کلی حقیقت کے متفرق حصے تھے ۔ مگر عین اسی کے ساتھ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ جو ترتیب قائم کی گئی ہے ، وہ حقیقی نہ ہو۔ اجزاء بجائے خود تو سب کے سب حقیقی ہوں ، مگر جس مجموعی شکل میں انھیں اکٹھا کیا گیا ہے ، وہ ایک شخص کی محض قوت تخئیل کا کرشمہ ہو۔

اگر کسی علاقہ میں قدیم جانوروں کی پتھرائی ہوئی ہڈیاں (fossil bones) برآمد ہوں تو یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ اس ڈھیرسے کچھ ہڈیوں کو لیں اور ایک مخصوص جاندار کی شکل میں انھیں جوڑ کر کھڑا کر دیں ۔ اس طرح بظاہر ایک مجموعی ترتیب واقع ہو گئی ۔ جن لوگوں نے حیاتیاتی ارتقاء کے نظریہ کا مطالعہ کیا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ اسی قسم کی فرضی ترتیبوں سے دھوکا کھا کر بہت سے ارتقاء پسند علما نے اس نظریہ کو مفروضہ کے مقام سے اٹھا کر حقیقت کا درجہ دے دیا ہے ۔ مگر بار بار کے تجربہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس طرح کی تشکیل وترتیب لازماً حقیقت نہیں ہوتی ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی قوت واہمہ سے کام لے کر مختلف غیر متعلق ٹکڑوں کو ایک مخصوص شکل میں جوڑ دیتا ہے ۔ مگر اس شکل کا واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یعنی اجزا ء کسی اور ہئیت وصورت کے ہوتے ہیں اور ان کو جوڑ کر کوئی اور ہئیت وصورت بنا لی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر پلٹ ڈاون مین (Piltdown Man) جس کے متعلق تقریباً آدھی صدی تک دنیا کے سائنس داں اس ’’یقین ‘‘ میں مبتلا رہے کہ یہ  ماقبل تاریخ کا سب سے قدیم انسانی ڈھانچہ ہے جس کا ہمیں علم ہوا ہے ۔ مگر بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ محض ایک جعلی ڈھانچہ تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔

زیرِ بحث فکر کی غلطی یہ ہے کہ اس نے دین کی جو تصویر بنائی، اس میں اجزاء تو سب وہی استعمال کیے جو کسی نہ کسی اعتبار سے دین کے اجزاء تھے ۔ مگر جس کلی تصور کے تحت انھیں ایک مجموعہ میں ترتیب دیا گیا وہ تصور صحیح نہ تھا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی مکان کو توڑ کر اسی کی اینٹ اور گارے سے دوسری وضع کا مکان بنا ڈالا جائے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی تصویر ، اجزاء کے اعتبار سے دینی ہونے کے باوجود ، اپنی مجموعی ہئیت میں دین کے مطابق نہیں رہی ۔ بظاہر پورے دین کا حامل ہونے کے باوجود وہ اپنی مخصوص ترتیب میں پورے دین سے ٹکرا گئی۔

اس تعبیر نے دین کے مختلف اجزاء کے درمیان جو حکمت جامع تلاش کی اور جس کے تحت تمام دینی تعلیمات واحکام کو مربوط کرنے کی کوشش کی وہ ’’ نظام ‘‘ کا تصور تھا ۔ یعنی اسلام ، زندگی کا ایک مکمل اور مفصل نظام ہے اور اسی لحاظ سے اس کے تمام اجزا ء باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں ۔ اس فکر کے ایک مبلغ کے الفاظ میں — ’’ اسلام ایک نظام حیات ہے جو زندگی کے سارے انفرادی واجتماعی اور ما بعدالطبیعی مسائل کو ایک وحدت میں پروتا اور سب کو عقل وفطرت کے مطابق حل کرتا ہے ‘‘۔

دین کا ایک نظام ہونا بذات خود غلط نہیں ہے ۔ مگر جب نظام کے تصور کو یہ حیثیت دی جائے کہ یہی وہ سبب جامع ہے جو اس کے متفرق اجزاء کو ایک کل میں سموتا ہے ، تو یقیناً وہ غلط ہو جاتا ہے او ر یہی اس فکر کی اصل غلطی ہے ۔ یہ فکر دین کا مطالعہ اس حیثیت سے کرتی ہے کہ وہ زندگی کا ایک ’’ نظام ‘‘ ہے ۔ اس کے نزدیک وہ مجموعی تخیل جس کے تحت پورے دین کو سمجھا جا سکتا ہے ، وہ اس کا نظام ہونا ہے ۔ حالانکہ  دین کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا عنوان ہے ۔ دین محض ایک قانونی نظام نہیں ہے جیسے دوسرے نظام ہوا کرتے ہیں ۔بلکہ وہ خدا سے نفسیاتی تعلق کا ایک ظہور ہے ۔ عمل میں آنے کے بعد بیشک دین میں وہ ساری چیزیں شامل ہو جاتی ہیں جن کے مجموعے کو ’’ نظام حیات ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ مگر دین کا نظام ہونا حقیقت دین کا ایک مظہر ہے ۔ یہ اس کی اضافی حیثیت ہے، نہ کہ اس کی اصل حیثیت ۔ 

دین کا مطالعہ نظام کے عنوان کے تحت کرنے میں اسی قسم کی غلطی کی گئی ہے جو غلطی ان لوگوں نے کی جنھوں نے ’’ انسان ‘‘ کا مطالعہ کرنے کے لیے یہ نظریہ قائم کیا کہ  :

Man is a social animal

یعنی انسان ایک تمدنی حیوان ہے ۔ بے شک عملی تفصیل میں آنے کے بعد انسان ایک اعتبار سے تمدنی حیوان یا سماجی مخلوق بن جاتا  ہے ۔ مگر تمدنی اور سماجی حیثیت انسان کی اصل حیثیت نہیں ہے ، وہ اس کی اصل حیثیت کا ایک مظہر ہے ۔ انسان کی اصل حیثیت اس کا ذی روح اور ذی ارادہ ہونا ہے اور بقیہ تمام حیثیتیں خواہ وہ تمدنی حیثیت ہو یا کوئی اور حیثیت ، اسی اصل سے مختلف نسبتوں کے تحت نکلتی ہیں ۔

یہ کہنا کہ ’’ انسان ایک تمدنی ہستی ہے ‘‘ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ انسان کی مختلف حیثیتوں کو جس جامع تخیل کے تحت ہم سمجھ سکتے ہیں ، وہ اس کا متمدن ہونا ہے ۔ اس تشریح کے بالکل قدرتی نتیجے کے طور پر انسان کی تمام حیثیتیں اس کی تمدنی حیثیت سے متفرع ہوں گی اور اسی کا جزء قرار پائیں گی۔ اس تشریح کا مطلب یہ ہو گا کہ انسان کی دوسری تمام حیثیتیں اس کے ساتھ اس لیے شامل ہیں کہ اس کی تمدنی حیثیت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں ۔ مثلاً انسان کا تمدنی ہستی ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک جسم اور روح کی صورت میں ہو، اس لیے انسان جسم اور روح رکھتا ہے ۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان کی ایک سیاست ہو ، اس لیے وہ اپنا ایک سیاسی ڈھانچہ رکھتا ہے ۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کی توجیہ کرے، اس لیے اس کا ایک فلسفہ وجود میں آیا ہے ، وغیرہ ۔

اس تشریح میں بظاہر انسان کی پوری زندگی آگئی ۔ اور اس لحاظ سے یہ انسان کی مکمل تشریح معلوم ہوتی ہے ۔ مگر غور کیجیے تو اس میں متعدد غلطیاں پائی جاتی ہیں ۔

1۔      اول یہ کہ اس تشریح کے مطابق انسان کی اصل حیثیت اس کی تمدنی حیثیت قرار پاتی ہے اور بقیہ چیزوں کو اسی اصل کے واسطہ سے اس کے اندر جگہ ملتی ہے ۔ جب کہ انسان کی اصل حیثیت اس کا ذی روح ہونا ہے ۔ اور دوسری تمام حیثیتیں اسی روح کے مظاہر ہیں یا اس کے تقاضے اور نتیجے ۔

2۔      دوسری بات یہ کہ نسبت بدل جانے کی وجہ سے انسانیت کا مطلوب بدل گیا ۔ اب وہ چیزیں مطلوب اصلی قرار پائیں جو تمدن کی نسبت سے مطلوب ہوں ۔ جب کہ حقیقۃ ً مطلوب اصلی اس چیز کو بننا چاہیے جو اس کے روحانی وجود کی نسبت سے مطلوب ہو۔

3۔     یہی نہیں بلکہ عملی اعتبار سے دیکھیے تو اس میں سب کچھ غائب ہو گیا۔ انسان کی ساری سرگرمیوں اور اس کے تمام مظاہر کا اصل منبع اس کی روح ہے ۔ اس لیے انسانی زندگی میں کوئی نتیجہ اسی وقت نکل سکتا ہے جب کہ اس کی جڑیں اس کی روح کے اندر پیوست ہوں۔؛ جس تصور نے انسان کے کسی خارجی مظہر کو اس کا اصل وجود سمجھ کر وہاں اپنا بیج بویا ہو،  اس سے کسی بھی قسم کے حاصل کی امید نہیں کی جا سکتی ۔

یہی تمام خرابیاں اسلام کی مذکورہ بالا تشریح میں بھی پیدا ہو گئیں۔ ’’ نظام ‘‘ کے تصور کو دین کی حکمتِ جامع قرار دینے کی وجہ سے یہی حیثیت اسلام کی وہ مرکزی حیثیت قرار پائی جس سے اس کی دوسری حیثیات کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس جامع توجیہ میں دین کے تمام اجزاء موجود ہونے کے باوجود سب کے سب ، اپنے صحیح مقام سے ہٹ گئے ۔

اب دین کی ساری چیزیں بس نظام کے اجزاء ہونے کی حیثیت سے مطلوب قرار پائیں — عقائد وایمانیات اس لحاظ سے اس کا جزء بنے کہ وہ اس نظام حیات کی ’’فکری بنیادیں ‘‘ ہیں ۔ عبادات اس لحاظ سے اس کا جزء نظر آئے کہ وہ اس نظام کے کارکن یا مطلوب افراد تیار کرنے کے لیے ’’ ٹریننگ کورس ‘‘ ہیں ۔ باہمی سلوک سے متعلق تعلیمات اس لحاظ سے اس کا جزء معلوم ہوئے کہ وہ اس نظام سے وابستہ اشخاص کا ’’ اخلاقی ضابطہ ‘‘ ہیں ۔ حدود و قوانین اس لحاظ سے اس کا جزء ثابت ہوئے کہ وہ اس نظام کی ’’ تمدنی بنیاد ‘‘ ہیں ۔ خلافت وامارت اس لحاظ سے اس کا جزء دکھائی دیے کہ اس کے ذریعہ سے یہ نظام ایک قاہر انہ ادارہ کی صورت اختیار کرتا ہے اور اپنے آپ کو بزور نافذ کرتا ہے ، وغیرہ ۔

اس تشریح کا بالکل قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب اصلی بدل گیا ۔ اس تعبیر کے خانے میں آکر دین بحیثیت ’’نظام ‘‘تو بہت ابھر آیا ، مگر اس کا تعبدی پہلو کمزور پڑ گیا۔ دین کی داخلی حیثیت دب گئی اور دین کی خارجی حیثیت اس کے اوپر چھا گئی ۔ جس طرح ’’انسان ‘‘کی مندرجہ بالا تشریح میں سماجی حالات کی تبدیلی اصل انسانی کام قرار پاتی ہے، نہ کہ اس کے ذہن اور روح کی تبدیلی ۔ اسی طرح دین کی اس تشریح میں دینی جدوجہد کا نشانہ انقلابِ نظام قرار پایا۔ حالانکہ دنیا میں بندۂ مومن کا نشانہ یا اس کے عمل کا آخری مقصود اپنے رب سے وہ قلبی اور روحانی تعلق پیدا کرنا ہے جس کو قرآن میں ذکر وشکر ، خشیت وتضرع ، خشوع وخضوع ، اخبات وانابت وغیرہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔

پھر فطرت اور واقعہ میں عدم مطابقت پیدا ہو جانے کا نتیجہ یہ ہو اکہ یہ نظریہ اپنے پہلے ہی تجربہ میں شدید ناکام ہو گیا ۔ دین کے ’’ مکمل تصور ‘‘ نے صرف ’’ ناقص ‘‘ قسم کے دیندار پیدا کیے۔ بیج کو اس کی اصل جگہ پر نہ بونے کی وجہ سے درخت کا کوئی حصہ بھی صحیح شکل میں پیدا نہیں ہوا۔ خدا اور بندے کا تعلق جو ایک نہایت اعلیٰ اور لطیف تعلق ہے ، اس تعبیر کے خانے میں آکر وہ ایک قسم کا سیاسی تعلق بن کر رہ گیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ یہ نظریہ نہ تو قرآن کی آیات پر چسپاں ہوتا ہے اور نہ صلحائے امت کی زندگیاں اس کے ’’ معیار ‘‘ پر پوری اترتی ہیں ۔ دین کا وہ مخصوص نقشہ جو اس فکر کے نزدیک دین کا صحیح ترین نقشہ ہے ، اس کے حق میں سارے قرآن میں کوئی بھی صریح آیت موجود نہیں۔ اس نقشہ کے مطابق بات یہ بنتی ہے کہ دین انسانی زندگی کا ایک مکمل نظام ہے اور اس پورے نظام کو بروئے کار لانے کے لیے جدوجہد کرنا وہ انسانی مشن ہے جو اہل ایمان کے سپرد ہوا ہے ۔ لیکن کتاب الٰہی میں کوئی ایک فقرہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے اس نقطہ ٴنظر کو واقعی طور پر اخذکیا جا سکتا ہو ۔ اس سلسلے میں جو آیتیں پیش کی جاتی ہیں ، ان کے بارے میں تفصیلی تجزیہ آگے آرہا ہے ۔

یہ اس استدلال کی نظریاتی خامی ہوئی۔ اسی طرح عملی اعتبار سے دیکھیے تو امت کی ساری تاریخ میں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس نے ا س ڈھنگ پر ’’ جامع انقلابی تحریک ‘‘ چلائی ہو۔ دنیا کے بے شمار علاقوں میں مسلمان پھیلے اور ہر جگہ انھوں نے دعوت دین کا کام کیا ، جن میں بہت سے مقامات پر بعد کو اسلام کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں ۔ مگر کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے ’’ اسلامی انقلاب ‘‘ برپا کرنے یا ’’ حکومت الہٰیہ ‘‘ قائم کرنے کی دعوت کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا ہو ۔ اس سلسلے میں اگر کسی نے کوئی نظیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ محض تاریخ سازی ہے، نہ کہ تاریخ نگاری ۔ اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ان تمام لوگوں کی دعوت ادھوری تھی یا ان کو پورے دین کا شعور نہیں تھا ، تو ایسی ہر تاویل محض اپنی غلطی کا اعتراف ہو گی ۔ کیوں کہ اسلام کی پوری دعوتی تاریخ کو ناقص ماننے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم ایک شخص کے خیالات کو ناقص مان لیں ۔

اس فکر کا یہ خلا جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے ، اتنا واضح ہے کہ کوئی بھی غیر جانبدار شخص ، جسے قرآن وسنت سے براہ راست آشنا ہونے کا موقع ملا ہو وہ اسلام کے منصوص نقشہ کے ساتھ اس فکر کی بے گانگی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حتی کہ خود اس کے اپنے حلقہ کے اہل علم کو بھی انھیں لوگوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جو اس فکر سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں ۔ مولانامودودی کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا، مگر ہندستان میں جو لوگ اس فکر کے وارث ہوئے ہیں ، ان کے متعلق بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کے متعلق اپنے اندر بےاطمینانی محسوس کرتے ہیں ۔ تقسیم کے بعد جب جماعت اسلامی ہند کی باگ ڈور ان حضرات کے ہاتھ میں آئی ، اسی وقت سے ان کا یہ احساس مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ لٹریچر پر نظر ثانی ، دستور میں نصب العین کے فقرے کی تبدیلی ، پالیسی میں داخلی پہلو کو سب سے زیادہ جگہ دینا ، وغیرہ  ، وہ واقعات ہیں جو میرے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں ۔

لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہندستان کی جماعت اسلامی کے یہ رہنما موجودہ فکر میں اختلال کو محسوس کرنے کے باوجود اس کا واضح اور متعین شعور نہیں رکھتے ۔ وہ ابھی تک اس کا تجزیہ نہیں کر سکے ۔ اس لیے وہ اب تک اس کے حل کی صحیح تدبیر بھی سوچ نہیں سکے ہیں ۔ ان کے احساس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس فکر کے مجموعی نقشہ میں یہ جو بات ہوئی ہے کہ اسلام کا روحانی پہلو دب گیا ہے اور اس کا سیاسی پہلو ابھر آیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک اتفاقی واقعہ ہے جو خارجی حالات کے سبب سے پیش آگیا ۔ یعنی اس فکر کے علم بردار نے جس مخصوص زمانے میں اپنے خیالات پیش کرنے شروع کیے ، وہ  چونکہ سیاسی ہنگاموں کا زمانہ تھا ، ملک میں سیاسی تحریکیں زور وشور سے چل رہی تھیں ، اس لیے اس کی تحریروں میں سیاست کا غلبہ ہو گیا ۔ اب اس کا حل ان کے نزدیک یہ ہے کہ تقریر وتحریر میں دبے ہوئے پہلو کو ابھارا جائے ۔ دین کا متوازن تصور پیش کیا جائے تاکہ سیاست وحکومت کے ساتھ دین کے دوسرے پہلوؤں کو بھی ان کی جگہ حاصل ہو ۔

یہ بات اوپر سے لے کر نیچے تک جماعت کے مختلف اصحاب نے خود میری تنقید کے جواب میں کہی ۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ کی یہ توجیہ مولانا مودودی کے لٹریچر کو جو حیثیت دیتی ہے وہ کسی طرح اس پر منطبق نہیں ہوتی ۔ تاہم اگر آپ کا اصرار ہے تو آپ مولانا مودودی سے لکھوا کر منگوا دیجیے کہ انھوں نے اپنی تحریروں میں دین کا جو تصور دینے کی کوشش کی ہے وہ ان کے نزدیک علی الا طلاق دین کی تشریح نہیں ہے بلکہ محض وقتی حالات کے پیش نظر انھوں نے کچھ چیزوں پر زور دیا ہے ۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہوا کہ وہ اپنے دعوے کے حق میں مولانا مودودی کی طرف سے اس قسم کی تصدیق فراہم کرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی باتیں آدمی محض مخاطب کے جواب کے طور پر کہہ دیتا ہے حالانکہ فی الواقع اس پر اس کا یقین نہیں ہوتا۔ 

حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال کا نہایت ناقص اندازہ ہے ۔ یہ لوگ ایک ایسے فکر کو جو درحقیقت دین کی ایک تعبیر ہے ، محض حالات کا وقتی تاثر سمجھتے ہیں ۔ اس لیے اس کے حل کے لیے بھی وقتی نوعیت کی تدبیریں سوچ رہے ہیں ۔ وہ کلی بگاڑ کو جز ئی ترمیم کے ذریعہ درست کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ٹکروں کے کھیل (jigsaw puzzle)کا کوئی سٹ جو گھوڑے کے لیے بنایا گیا ہو، اس کا کوئی بچہ اونٹ سمجھ کر غلط شکل میں ترتیب دے دے ۔ اب کوئی صاحب کہیں کہ اس تصور میں بس گردن ذرا سی لمبی ہو گئی ہے ۔ اگر اس کی گردن چھوٹی کر دی جائے تو وہ گھوڑا بن جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی تدبیر نہیں ہے ۔ کیوں کہ ٹکڑوں کے ایک ڈھیر کا گھوڑا یا اونٹ ہونا ، اس کی مجموعی حکمت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اگر کوئی شخص غلطی سے گھوڑے کے ٹکڑوں کو اونٹ کے ٹکڑے سمجھ لے اور اپنے اس ذہن کے مطابق ایک ڈھانچہ بنا  ڈالے ، تو اس ڈھانچہ میں صرف اتنی سی غلطی نہیں ہو گی کہ اس کی گردن لمبی ہو کر اونٹ کی مانند ہو گئی ہے ، بلکہ اسی مناسبت سے اس کا  پورا وجود بنانے کی کوشش کی گئی ہو گی ۔ اس لیے محض گردن چھوٹی کر دینے سے تصویر حقیقت کے مطابق نہیں ہو سکتی ۔ بلکہ اس کے پورے ڈھانچہ کو توڑ کر ازسر نو واقعہ کے مطابق بنانا ہو گا۔ اس کے ہر ہر جزء کو دوبارہ اپنے صحیح مقام پر رکھنا ہو گا۔

دین کا صحیح تصور جس کے تحت اس کے مختلف اجزاء کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور جو کسی خلا کے بغیر پوری اسلامی تاریخ کو ایک تسلسل میں جوڑ دیتا ہے ، وہ یہ ہے کہ دین کی اصل حقیقت خدا سے خوف ومحبت اور ولایت وتوکل کا تعلق پیدا کرنا ہے ۔ا س تعلق کا لازمی مظہر وہ چیز ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ عبادت ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پھر جب آدمی خدا کو اپنا معبود ومطلوب بنا لیتا ہے اور اس کا پرستار بن جاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں خدا کی پسند کا لحاظ اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے لگتا ہے ، وہ اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کے تابع کر دیتا ہے ۔ پھر خدا کا عابد ومطیع ہو جانا لازمی طور پر تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اس بہترین کام میں لگانا چاہے جو خدا کا کام ہے اور جس کے متعلق خدا چاہتا ہے کہ اس دنیا میں اسے انجام دیا جائے ۔ اس لحاظ سے تبلیغ حق اور نصرت دین کے سارے پہلو اس کی زندگی میں شامل ہو تے چلے جاتے ہیں ۔

دین اصلاً خدا کا حکم ہے اور اسی حیثیت سے ہمیں اس کے احکام پر عمل کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسی کا مکلف قرار دیا ہے ۔ مگر اسی کے ساتھ دین کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ ہماری نفسیات سے اس کا گہرا تعلق ہے ۔ وہ صرف خارج سے ملا ہوا ایک قانونی حکم نہیں ہے بلکہ وہ خود انسان کی اندرونی طلب کا جواب ہے ۔ وہ انسانی فطرت کا ظہور ہے ۔ اور ہمارا دین کا مطالعہ اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب کہ ہم اس دوسرے پہلو کو بھی اپنے سامنے رکھیں ۔

گویا دین کی حکمتِ جامع تعلق باللہ ہے اور دوسری تمام چیزیں اسی اندرونی حقیت کے مظہر یا اس کے تقاضے کی حیثیت سے اس کے ساتھ جڑتی ہیں، نہ کہ نظام ، جس کو زیرِ بحث فکر نے حکمت جامع قرار دیا ہے اور اسی نسبت سے دین کے تمام فکری اور عملی پہلوؤں کو اس سے مربوط کرتی ہے ۔ 

گویا دینی تعلیمات کے مختلف اجزاء کسی یکساں نوعیت کی ’’ فہرست ‘‘ کانام نہیں ہیں۔ جیسا کہ تصورِ نظام تقاضا کرتا ہے ۔بلکہ دین کی ایک حقیقت ہے اور بقیہ چیزیں اس کے وہ پہلو ہیں جو مختلف نسبتوں کے تحت اس میں پیدا ہوتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں دین کے کچھ اجزاء با عتبار حقیقت مطلوب ہیں اور کچھ با عتبار اضافت ۔ حقیقی تقاضے سے مراد ہے داخلی اور حسیاتی طور پر خدا کو پا لینا اور بالکل اس کا عابد وپرستا ر بن جانا۔ اضافی تقاضے سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو خارجی زندگی کے لیے دیے گئے ہیں اور مختلف حالات ومعاملات سے متعلق ہونے کی صورت میں ، ان کے بارے میں اہل ایمان کے رویہ کو ظاہر کرتے ہیں ۔ حقیقی تقاضا ، ہر شخص سے ، ہر حال میں لازماً مطلوب ہوتا ہے ۔ زمانے یا حالات سے اس کے اوپر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ یہی وہ اصل اور اولین چیز ہے جس کو اس دنیا میں حاصل کر لینا  انسان کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ اس کے برعکس، اضافی تقاضے حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں اور دائرہ اختیار کے لحاظ سے اس کی ’’ تکلیف ‘‘ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ۔ اگر اضافت موجود ہو تو اس وقت وہ بھی لازماً اسی طرح مطلوب ہو گا جیسے حقیقی تقاضا ۔ اور اگر اضافت نہ پائی جا رہی ہو تو اس حکم کی حد تک ، اہل ایمان کی کوئی ذمہ داری نہ ہو گی ۔ گویا حقیقت اور اضافت کا یہ فرق دونوں قسم کے احکام کے محض نوعی فرق کو ظاہر کرتا ہے ۔ یعنی یہ فرق صرف اس اعتبار سے ہے کہ کون سا حکم کب مطلوب ہے ۔ مطلوب ومفروض ہونے کے بعد ، ادائیگی کے پہلو سے ، ان کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ 

فکر کا یہ فرق جو میں نے اوپر بتایا ، اسی سے مشن کے تصور میں فرق پیدا ہوتا ہے ۔ جو چیز کسی مجموعہ کی وجہ جامع ہو ، اس کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ وجود میں آجائے تو گویا ساری چیزیں وجود میں آگئیں اور اگر وہ پیدا نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر کوئی چیز بھی پیدا نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے جو ذہن جس چیز کو سبب جامع قرار دے ، قدرتی طور پر وہ اسی کو بروئے کار لانے پر سب سے زیادہ زور دے گا ۔ کیوں کہ اس کا احسا س یہ ہو گا کہ اسی کے وجود میں آنے پر بقیہ تمام چیزوں کا وجود میں آنا منحصرہے ۔ زیرِ بحث فکر میں ہم جو یہ بات دیکھتے ہیں کہ وہ نظام برپا کرنے پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے ، وہ اسی مخصوص ذہنیت کا نتیجہ ہے اس کے مقابلے میں اسلام کی تاریخ میں یہ جو بات نظر آتی ہے کہ داعیان امت ہمیشہ خدا اور آخرت کی حقیقتوں کو ذہنوں میں بٹھانے پر سب سے زیادہ توجہ صرف کرتے رہے ، اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اپنے تصو ر دین کے مطابق وہ سمجھتے تھے کہ اسی کے پیدا ہونے پر ساری دینی حقیقتوں کے پیدا ہونے کا انحصار ہے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion