رب
اس کے بعد’’رب‘‘کی اصطلاح ہے ۔ لغت کی حد تک اس کتاب میں اس کی بالکل صحیح تشریح کی گئی ہے ۔ مگر اس کے آگے جب قرآن کا تصور رب متعین کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی چلتے چلتے پٹری سے اتر گئی ۔ اس کو پڑھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذہن اس کو اپنے مخصوص سانچہ میں ڈھالنا چاہتا ہے ۔ اب چونکہ اصل قرآنی مفہوم میں اس کی گنجائش نہیں تھی ، اس لیے یہاں بھی کچھ ویسی ہی صورت بن گئی، جس کی مثال الہٰ کے باب میں ہم اوپر لکھ چکے ہیں ۔
بحث کا آغاز ان سطروں سے ہوتا ہے:
’’ اس لفظ کا مادہ ’’ر ب ‘‘ ہے جس کا ابتدائی واساسی مفہوم پرورش ہے ۔ پھر اسی سے تصرف ، خبر گیری ، اصلاحِ حال ، اور اتمام وتکمیل کا مفہوم پیدا ہو ۔ پھر اسی بنیاد پر فوقیت ، سیادت ، مالکیت اور آقائی کے مفہومات اس میں پیدا ہو گئے ‘‘۔
یہاں تک بات بالکل صحیح ہے ۔ کیوں کہ رَب یَرُب کا اصل مفہوم پرورش ہے اسی لیے رب کا ترجمہ ’’ پروردگار ‘‘ کیا جاتا ہے۔ مگر جس طرح ہر لفظ میں ایسا ہوتا ہے کہ اصل مفہوم کے تقاضے کے تحت بہت سے معانی پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح لفظ رب اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے جن جن پہلوؤں کا تقاضا کرتا ہے، وہ سب اس میں شامل ہوتے چلے گئے ہیں ۔ اس لفظ کا حقیقی مفہوم تو ایک ہی ہے، مگر اس کے استعمالی مفہوم بہت سے بن گئے ہیں(۱)۔
(۱)’’رب‘‘ سامی زبانوں کا ایک کثیر الا ستعمال مادہ ہے۔ عبرانی ، سریانی اورعربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پا لنے کے ہیں ۔ پھر چونکہ معلم ، استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں ، اس لیے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی کا ’’ ربی ‘‘ اور ’’ رباہ ‘‘ پرورش کنندہ ، معلم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا۔ ( ترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد، جلد 1 ، صفحہ 35)
مگر ’’ رب ‘‘ کی اس تشریح میں زیرِ بحث ذہن کو تسکین نہیں ملی۔ کیوں کہ اس طرح سیادت اور حکمرانی کا تصور محض اس کا ایک ایسا تقاضا بن رہا تھا جو لفظ کے اصل مفہوم میں شامل نہیں ہے۔ جب کہ یہ ذہن اس تصور کو اس کا براہِ راست مفہوم ثابت کرنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ ایک صفحہ کے بعد بات بدل گئی ۔ جو چیز پہلے رب کا ’’ اساسی مفہوم ‘‘ تھی، وہ اس کا صرف ایک ’’مفہوم ‘‘ قرار پائی۔ لکھتے ہیں
’’ غلطی سے رب کے مفہوم کو محض پروردگار کے مفہوم تک محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے اور ربوبیت کی تعریف میں یہ فقرہ چل پڑا ہے کہ ’’هو إنشاءُ الشَّيءِ حالًا فحالًا إلى حَدِّ التَّمامِ‘‘( ایک چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر پایۂ کمال کو پہنچا نا)۔
حالانکہ یہ اس لفظ کے وسیع معانی میں سے صرف ایک معنی ہے ۔اس کی پوری وسعتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ حسب ذیل مفہومات پر حاوی ہے:
1۔ پرورش کرنے والا، ضروریات بہم پہنچانے والا ، تربیت اور نشوونما دینے والا۔
2۔ کفیل ، خبر گیراں ، دیکھ بھال اور اصلاحِ حال کا ذمہ دار۔
3۔ وہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو ، جس پر متفرق اشخاص مجتمع ہوتے ہوں ۔
4۔ سیدِ مُطاع ، سردارِذی اقتدار ، جس کا حکم چلے ، جس کی فوقیت وبالا دستی تسلیم کی جائے ، جس کو تصرف کے اختیارات ہوں ۔
5۔ مالک، آقا۔ ‘‘ (صفحات28-29)
یہ ’’ رب‘‘ کی تشریح میں اس کتاب کے پہلے انحراف کی مثال تھی، جس کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ رب کا سیاسی مفہوم محض اس کا ایک عملی تقاضا نہیں، بلکہ وہ لفظ کے متعدد براہِ راست مفہومات میں سے ایک براہ راست مفہوم ہے ۔ اور بعینہ وہی حیثیت رکھتا ہے جو اس کے دوسرے کسی مفہوم کی حیثیت ہو سکتی ہے ۔
اس سلسلے میں کتاب کے اندر نہایت تفصیل سے قرآن میں مذکور اقوام کی گمراہی کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے بعد سب کے بارے میں مشترک نتیجۂ تحقیق کو ’’ قرآن کی دعوت ‘‘ کے عنوان سے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’ گمراہ قوموں کے تخیلات کی یہ تحقیق جو پچھلے صفحات میں کی گئی ہے ، اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیتی ہے کہ قدیم ترین زمانہ سے لے کر زمانۂ نزول قرآن تک جتنی قوموں کا ذکر قرآن نے ظالم ، فاسد العقیدہ اور بد راہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہے ، ان میں سے کوئی بھی خدا کی ہستی کی منکر نہ تھی ، نہ کسی کو اللہ کے مطلقاً رب اور الہٰ ہونے سے انکار تھا ، البتہ ان سب کی اصل گمراہی اور مشترک گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے ربوبیت کے ان پانچ مفہومات کو جو ہم ابتداء میں لغت اور قرآن کی شہادتوں سے متعین کر چکے ہیں ، دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔
رب کا یہ مفہوم کہ وہ فوق الفطری طور پر مخلوقات کی پرورش ، خبر گیری ، حاجت روائی اور نگہبانی کا کفیل ہوتا ہے ، ان کی نگاہ میں ایک الگ نوعیت رکھتا تھا ۔ اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ اگرچہ رب اعلیٰ تو اللہ ہی کو مانتے تھے مگر اس کے ساتھ فرشتوں اوردیوتاؤں کو ، جنوں اور غیرمرئی قوتوں کو،ستاروں اور سیاروں کو انبیاء اوراولیاء اور روحانی پیشواؤں کوبھی ربوبیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔
اور رب کایہ مفہوم کہ وہ امرونہی کامختار ، اقتدار اعلیٰ کا مالک ،ہدایت ورہنمائی کامنبع، قانون کا ماخذ، مملکت کارئیس اور اجتماع کامرکزہوتا ہے ، ان کے نزدیک بالکل ہی ایک دوسری حیثیت رکھتا تھا اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ یا تو اللہ کے بجائے صرف انسانوں ہی کو رب مانتے تھے یا نظری طور پر اللہ کے رب ماننے کے باوجود عملاً انسانوں کی اخلاقی وتمدنی اور سیاسی ربوبیت کے آگے سر اطاعت خم کیے رہتے تھے ۔ اسی گمراہی کودور کرنے کے لیے ابتدا سے انبیاء علیہم السلام آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے آخر کار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ ان سب کی دعوت یہ تھی کہ ان تمام مفہومات کے اعتبار سے رب ایک ہی ہے اور وہ اللہ جل شانہ ہے ۔ ربوبیت ناقابلِ تقسیم ہے ، اس کا کوئی جزء کسی معنی میں بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے ۔ کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جس کو ایک ہی خدا نے پیدا کیا، جس پرایک ہی خدا فرماں روائی کر رہا ہے جس کے سارے اختیارات واقتدارات کا مالک ایک ہی خدا ہے نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے ، نہ اس کی تدبیر وانتظام میں کوئی شریک ہے ، اور نہ اس کی فرماں روائی میں کوئی حصہ دار ہے ۔ مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمہارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی وتمدنی اور سیاسی رب بھی ۔ وہی تمہارا معبود ہے ۔ وہی تمہارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے ۔ وہی تمہاری دعاوں کا ملجاو ماویٰ ہے ، وہی تمہارے توکل واعتماد کا سہارا ہے ، وہی تمہاری ضرورتوں کا کفیل ہے ، اور اسی طرح وہی بادشاہ ہے ، وہی مالک الملک ہے ، وہی شارع وقانون ساز اور وہی امرونہی کا مختار بھی ہے ، ربوبیت کی یہ دونوں حیثیتیں ، جن کو جاہلیت کی وجہ سے تم نے ایک دوسرے سے الگ کیا ہے حقیقت میں خدائی کا لازمہ اور خدا کے خدا ہونے کا خاصہ ہیں ۔ انھیں نہ ایک دوسرے سے منفک کیا جاسکتاہے ، اور نہ ان میں سے کسی حیثیت میں بھی مخلوقات کو خدا کا شریک ٹھہرانا درست ہے۔‘‘ (صفحات 63-64)
یہاں ربوبیت کے ناقابل تقسیم ہونے کی بات جو کہی گئی ہے وہ بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کی تشریح میں وہی غلطی کی گئی ہے، جو اس سے پہلے ہم الہٰ کی بحث میں دیکھ چکے ہیں ۔ قرآن میں ربوبیت کا ناقابل تقسیم ہونا اصلاً جس حیثیت سے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا پروردگا ر صرف ایک ہے ۔ پروردگاری کے اس کام میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ۔ وہ ان معنوں میں نہیں ہے کہ ’’ فوق الفطری ربوبیت ‘‘ اور ’’ تمدنی وسیاسی ربوبیت ‘‘ دونوں ایک وحدت کے اجزاء ہیںجنھیں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
مثال کے طور پر ایک آیت لیجئے، جس کا اس کتاب کے ا ندر اس ضمن میں حوالہ دیا گیا ہے):صفحہ 66(
وَاللهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ …. يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ۔ إِنْ تَدْعُوهُمْ لا يَسْمَعُوا دُعاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ (35:11-14)۔ یعنی، اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ..... وہ رات کو دن میں پرو دیتا ہے اور دن کو رات میں ، اس نے چاند اور سورج کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلا جا رہا ہے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے پادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا جن دوسری ہستیوں کو تم پکارتے ہو اُن کے ہاتھ میں ایک ذرہ کا اختیار بھی نہیں ہے ، تم پکارو تو وہ تمہاری پکار سُن نہیں سکتے ، اور سُن بھی لیں تو تمہاری درخواست کا جواب دینا ان کے بس میں نہیں۔ تم جو انھیں شریک خدا بناتے ہو اس کی تردید وہ خود قیامت کے دن کریں گے ۔
اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کو چھوڑ کر تم جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ ذرہ برابر طاقت نہیں رکھتے ۔ حتیٰ کہ وہ تمہاری ’’ پکار ‘‘ کو سن بھی نہیں سکتے ۔ اس لیے تم اپنا رب اس کو بناؤ جس کی قوت اور تسخیر کا مظاہرہ رات دن ہوتا رہتا ہے ۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جس ربوبیت کے ناقابل تقسیم ہونے کا ذکر ہے وہ فوق الفطری ربوبیت ہے ۔ یہاں ان ہستیوں کے مقابلے میں اللہ کے رب حقیقی ہونے کا اعلان ہے جن کو انسان عالم اسباب پر متصرف سمجھ کر اپنی حاجتوں کے لیے انھیں ’’ پکارتا ‘‘ ہے ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اثبات میں بھی اسی نوعیت کی ربوبیت ماننی ہو گی جس نوعیت کی ربوبیت کی نفی کی گئی ہے یہاں میں تفسیر کے دو حوالے نقل کروں گا جس سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے:
’’ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ ‘‘ ويكونُ ذلك مُقَرِّرًا لِما قَبْلَهُ مِن التَّفرُّدِ بالإلهيَّةِ والرُّبوبيَّةِ، واستِدلالًا عليه، إذ حاصِلُهُ جميعُ المُلكِ والتَّصرُّفِ في المَبدَإِ والمُنتهى لَهُ تعالى، وليسَ لِغيرِهِ سبحانهُ منهُ شيءٌ‘‘ (تفسير روح المعانی، جلد11، صفحہ 354)۔ یعنی، ’’اس کے سوا جن دوسری ہستیوں کو تم پکارتے ہو اُن کے ہاتھ میں ایک ذرہ کا اختیار بھی نہیں ہے‘‘یہ فقرہ اللہ کے الہٰ واحد ہونے اور ربوبیت اس کے لیے خاص ہونے کے لیے پچھلے جملہ کی تقریر اور اس کی دلیل ہے ، کیوں کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ اقتدار اور تصرف تمام کا تمام شروع سے آخر تک اسی کے لیے ہے اور اس میں خدا کے سوا کسی اور کا کوئی حصہ نہیں۔
یہ فقرہ اللہ کے الہٰ واحد ہونے اور ربوبیت اس کے لیے خاص ہونے کے لیے پچھلے جملہ کی تقریر اور اس کی دلیل ہے ، کیوں کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ اقتدار اور تصرف تمام کا تمام شروع سے آخر تک اسی کے لیے ہے اور اس میں خدا کے سوا کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ۔
وَالْإِشَارَةُ بِقَوْلِهِ:ذلِكُمُ إِلَى الْفَاعِلِ لِهَذِهِ الْأَفْعَالِ وَهُوَ اللهُ سُبْحَانَهُ، واسم الْإِشَارَةِ: مُبْتَدَأٌ، وَخَبَرُهُ:اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ أَيْ: هَذَا الَّذِي مِنْ صَنْعَتِهِ مَا تَقَدَّمَ: هُوَ الْخَالِقُ الْمُقَدِّرُ، وَالْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمَالِكُ لِلْعَالَمِ، وَالْمُتَصَرِّفُ فِيهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ قَوْلُهُ: لَهُ الْمُلْكُ جُمْلَةً مُسْتَقِلَّةً فِي مُقَابَلَةِ قَوْلِهِ:وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ أَيْ: لَا يَقْدِرُونَ عَلَيْهِ وَلَا عَلَى خَلْقِهِ (فتح القدير للشوكانی ،جلد4، صفحہ393-394)۔ یعنی، ذالکم کا اشارہ مذکورہ بالا افعال کے فاعل کی طرف ہے جو کہ اللہ تعالیٰ ہے ۔ اور ذالکم ترکیب میں مبتدا ہے اور اس کی خبر ہے اللہ ربکم لہ الملک۔ یعنی یہ خدا جس کی تمام صنعتیں ہیں ، وہی خالق ہے، مقدر ہے ، قادر ہے ، مقتدر ہے ، عالم کا مالک ہے اور سب پر اسی کا تصرف ہے ۔ اور دوسری ترکیب یہ ہو سکتی ہے کہ لہ الملک اگلے فقرے کے مقابلے میں مستقل جملہ ہو ۔ ایسی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خدا کے سوا جن کو تم پکارتے ہو، وہ موجودات پر یا ان کی تخلیق پر کوئی قدرت نہیں رکھتے ۔
زیرِِ بحث کتاب کے مذکورہ طویل اقتباس میں قدیم ترین زمانہ سے لے کر زمانۂ نزولِ قرآن تک گمراہ قوموں کی جس ’’ اصل اور مشترک گمراہی ‘‘ کا ذکر ہے ، اس کو ثابت کرنے کے لیے کتاب میں ’’ ربوبیت کے باب میں گمراہ قوموں کے تخیلات ‘‘ کے عنوان کے تحت نہایت تفصیل کے ساتھ ان کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ سب کی سب ربوبیت کے بارے میں مذکورہ بالا دو قسم کی گمراہی میں مبتلا تھیں ۔ ایک فوق الفطری ربوبیت میں دوسروں کو شریک کرنا۔ دوسرے ، اخلاقی وتمدنی وسیاسی ربوبیت، دوسروں کو دینا ۔ مگر اس لمبی بحث کے باوجود جو کچھ ثابت ہوا وہ صرف ربوبیت کا پہلا مفہوم ہے ۔ ربوبیت کا دوسرا مفہوم کسی آیت سے نہیں نکلتا ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بیشتر ایسی آیتوں سے استدلال کیا گیا ہے، جن میں لفظ ’’ رب ‘‘ سرے سے موجود ہی نہیں ۔ مثلاً قوم نوح کے سلسلے میں یہ آیت نقل کی گئی ہے:
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ . فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ (26:107-108)۔ یعنی، میں تمہارے لیے رسول امین ہوں پس خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
کتاب کی تشریح کے مطابق اس آیت میں اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، سیاست اور تمام معاملات زندگی میں خدا کو رب یعنی حاکم اور مقتدر اعلیٰ قرار دینے کا ذکر ہے ۔ مگر قطع نظر اس کے کہ یہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے ، جس فقرے میں سرے سے رب کا لفظ ہی موجود نہ ہو اس سے ربوبیت کے کسی مفہوم پر کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔
بعض قوموں کے سلسلے میں ایسی آیات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں رب کا لفظ موجود ہے۔ مگر ان سے مصنف کا مدعا ثابت نہ ہو سکا۔کیوں کہ ان آیات میں رب کا لفظ ’’ سیاسی اور تمدنی ربوبیت ‘‘ کے معنی میں نہیں ہے ۔ مثلاً قوم عاد کی گمراہیوں کے سلسلے میں حسب ذیل آیت پیش کی گئی ہے :
وَتِلْكَ عادٌ جَحَدُوا بِآياتِ رَبِّهِمْ (11:59)۔
اس کے بعد آیت میں حسب ذیل فقرہ ہے:
وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (11:59)۔ یعنی، اور اس کے رسولوں کو نہ مانا اور ہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کی۔
اس فقرہ میں بھی جبابرہ کے اتباع سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے’’سیاسی اور تمدنی معاملات میں ان کی اطاعت کی‘‘۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیاتِ الٰہی کے ذریعہ رسول کے منجانب اللہ ہونے کی جو تصدیق مل رہی تھی ، اس سے انھوں نے ہدایت نہیں پکڑی ۔ بلکہ وقت کے سرکش لیڈروں کا ساتھ دیتے ہوئے اس کا انکار کیا جو رسول کی رسالت کو جھٹلا رہے تھے۔
اس فقرے کا ترجمہ کتاب ’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں کیا گیا ہے— ’’ اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کر دیا ‘‘۔ ( صفحہ 35) آیت کا لفظ ’’حکم‘‘کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر’’آیت‘‘کے اصل معنی نشانی کے ہیں اور یہاں یہی مراد ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ رسول کو پہچاننے کے لیے انھیں جو نشانیاں دی گئی تھیں ۔ اس سے انھوں نے بصیرت حاصل نہیں کی اور اس کی تکذیب کی ۔ یہاں ’’ سیاسی اور تمدنی ربوبیت ‘‘ کا کوئی ذکر نہیں ۔ علامہ آلوسی بغدادی لکھتے ہیں :
’’جَحَدُوا بِآياتِ رَبِّهِمْ ‘‘أي كَفَروا بِآياتِ رَبِّهِمُ الَّتي أَيَّدَ بِها رَسولَهُ الدّاعي إليه، ودَلَّ بِها على صِدقِهِ، وأنكَرُوها، فقالوا:يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَة (روح المعانی، جلد6، صفحہ 284)۔یعنی، ’’آیات کا انکار کیا ‘‘— یعنی ان نشانیوں کا انکار کیا جو ان کے رسول کو رسالت کی پہچان کے لیے دی گئی تھیں ۔ اور اس بات پر دلالت کرتی تھیں کہ رسول اپنے دعوے میں سچا ہے ۔
مگر اتنی بات سے اس ذہن کو تسکین نہیں ہو سکتی تھی ۔ کیوں کہ وہ تو اقتدار اور حکمرانی کے معاملہ کو متعدد مفہومات میں سے صرف ایک مفہوم نہیں بلکہ اسی کو اصل مفہوم قرار دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ یہ بحث اپنے آخری نتیجے تک پہنچتے پہنچتے ایک اور موڑ مڑگئی ۔ بحث کے آخر میں قرآن کی دعوت ‘‘ کے عنوان سے بہت سی آیتیں نقل کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں :
’’ ان آیات کے سلسلے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن ربوبیت کو بالکل حاکمیت اور سلطانی ( sovereignty) کا ہم معنی قرار دیتا ہے اور رب کا یہ تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ وہ کائنات کا سلطانِ مطلق اور لا شریک مالک وحاکم ہے — اسی حیثیت سے وہ ہمارا اور تمام جہان کا پروردگار ، مربی اور حاجت روا ہے ، اسی حیثیت سے وہ ہمارا کفیل ، خبر گیراں ، مختار کار ، اور معتمد علیہ ہے ، اسی حیثیت سے اس کی وفاداری وہ قدرتی بنیاد ہے جس پر ہماری اجتماعی زندگی کی عمارت صحیح طور پر قائم ہوتی ہے اور اس کی مرکزی شخصیت سے وابستگی تمام متفرق افراد اور گروہوں کے درمیان ایک امت کا رشتہ پیدا کرتی ہے ، اسی حیثیت سے وہ ہماری اور تمام مخلوقات کی بندگی ، اطاعت اور پرستش کا مستحق ہے ، اسی حیثیت سے وہ ہمارا اور ہر چیز کا مالک، آقا اور فرمانروا ہے ‘‘۔ (صفحات 68-69)
گویا رب کا لفظ اپنی پہلی تشریح کے مطابق یہ معنی رکھتا تھا کہ اس کا اصل مفہوم پرورش ہے مگر پرورش کے تقاضے کے تحت اس میں کئی اور مفہومات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کا تقاضا ہے کہ جو پرورش کرے وہ بالا تر اقتدار کاحامل ہو ۔ کیوں کہ پرورش کے لیے زمین وآسمان میں جس تصرف کی ضرورت ہے وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا، نیز جس کی پرورش کی جائے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پروردگا ر کی فرمانبرداری کرے ۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنا انتہائی نا شکری اور نمک حرامی ہے ۔ مگر آخری تشریح کے مطابق بات یہ بن گئی کہ رب کا لفظ حاکم اور سلطان کے ہم معنی ہے ۔ اور حاکمیت اور سلطانی کا تقاضا ہے کہ وہی مربی ہو، وہی مختار کار ہو، اسی کی وفاداری کی جائے ، اسی کی پرستش ہو، وہی ہمارا مالک وآقا قرار پائے۔ اس طرح بات بالکل الٹ گئی۔ پہلی صورت میں پرورش کے تقاضے کے تحت دیگر مفہومات نکل رہے تھے ۔ اور آخری صورت میں اقتدار کے تقاضے کے تحت تمام مفہومات نکلنے لگے۔
رب کے لفظ کو ’’ بالکل حاکمیت اور سلطانی کے ہم معنی ‘‘ قرار دینے کے لیے کتاب میں سولہ آیتیں نقل کی گئی ہیں ۔ ( صفحات68-69) ان میں سے کچھ آیتیں ایسی ہیں جن کا حوالہ دوسری اصطلاحات کے سلسلے میں بھی دیا گیا ہے اور وہاں ہم نے ان پر گفتگو کی ہے ۔ یہاں میں ان میں سے چند خاص آیتوں پر گفتگو کروں گا جس سے واضح ہو گا کہ ان حوالوں سے وہ مخصوص انقلابی مفہوم ثابت نہیں ہوتا جو موصوف ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔
پہلی آیت جو اس سلسلے میں نقل کی گئی ہے ، وہ یہ ہے:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (7:54)۔ یعنی، حقیقت میں تمہارا رب تو اللہ ہے جس نے آسمان وزمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہو گیا ، جو دن کو رات کا لباس اُڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑتا آتا ہے ، سورج اور چاند اور تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں ، سنو، خلق اسی کی ہے اور فرماں روائی بھی اسی کی بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب۔
اس آیت میں غالباً — اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ کے فقرے سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اس میں ’’سیاسی ربوبیت‘‘ کا ذکر ہے ۔ یعنی فقرے کا مطلب یہ ہے کہ خلق اس کی ہے تو قانونی اور سیاسی حکمرانی بھی لوگوں کے اوپر اسی کی نافذ ہونی چاہیے ۔
اس بات کے الگ سے مطلوب ہونے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ۔ مگر اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے ۔ پوری آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ کے ٹکڑے میں جو بات کہی گئی ہے وہ وہی ہے جو اس سے متصل اوپر کے الفاظ میں کہی گئی تھی ۔ خَلَقَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ الخ سے ’’خلق‘‘ کا ذکر تھا اور اس کے بعد ’’مُسَخَّراتٍ بِأَمْرِهِ‘‘ میں ’’امر‘‘ کا ۔ اسی کو بعد کے فقرے میں اللہ سے مختص کرتے ہوئے فرمایا:أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ۔ یعنی، زمین وآسمان اور اس کی تمام چیزوں کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے اور سب پر براہِ راست اسی کا کنٹرول ہے ۔ اس لیے تم اسی سے ’’خوف اور امید ‘‘ رکھو اور صرف اسی سے ’’ دعا ‘‘ مانگو (الاعراف،7:55-56)۔ یہی مفہوم مفسرین نے لیا ہے ۔ میں ایک حوالہ یہاں نقل کروں گا :
’’والشَّمسُ والقَمَرُ والنُّجومُ مُسخَّراتٌ بِأمرِهِ‘‘، أي خَلَقَهُنَّ حالَ كَونِهِنَّ مُسخَّراتٍ بِقَضائِهِ وتَصرِيفِهِ. أَلَا لَهُ الخَلقُ والأمرُ، فإنَّهُ المُوجِدُ للكُلِّ والمُتصرِّفُ فيهِ على الإطلاقِ ( تفسير أبی السعود،3، صفحہ 232)۔یعنی، ’’ سورج ، چاند ، ستارے ، سب اسی کے امر کے تحت مسخر ہیں ‘‘۔ یعنی انھیں اس طرح پیدا کیا ہے کہ اسی کا فیصلہ ان کے اوپر نافذ ہوتا ہے ،اور وہی انھیں گردش دے رہا ہے۔ ’’ خلق اسی کی ہے اور امر اسی کا ‘‘۔ کیوں کہ وہی سب کو وجود دینے والا ہے اور کلی طور پر اسی کا تصرف سب کے اوپر ہے‘‘ ۔
ایک اور آیت یہ ہے :
فَلِلهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّماواتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعالَمِينَ ۔ وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (45:36-37)۔ یعنی، پس ساری تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین وآسمان اور تمام کائنات کا رب ہے ، کبریائی اسی کی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی ، اور وہ سب پر غالب اور حکیم ودانا ہے۔
اس آیت میں غالباً رَبِّ السمواتِ وَرَبِّ الأرْضِ سے دونوں قسم کی ربوبیتوں کا مفہوم اخذ کیا گیا ہے ۔ یعنی اس کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ آسمانوں میں فوق الفطری اقتدار بھی اسی کا ہے اور زمین میں قانونی اور سیاسی اقتدار بھی اسی کا ۔ مگر یہ ایک بے دلیل بات ہے ۔ کیوں کہ آس پاس اس مفہوم کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے اور بغیر کسی واضح قرینہ کے محض لفظ ’’کبریاء‘‘ سے سیاسی اقتدار کا مفہوم نکالا نہیں جا سکتا۔ کبریا کے معنی عظمت اور بڑائی کے ہیں اور قرآن میں اس طرح کے الفاظ زمین وآسمان میں اللہ تعالیٰ کے فوق الفطری اقتدار اور بالا تری کو بتانے کے لیے آتے ہیں اور وہی یہاں بھی مراد ہیں ۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں :
فَلِلهِ الْحَمْدُ رَبِّ السمواتِ وَرَبِّ الأرْضِ أَيِ: الْمَالِكِ لَهُمَا وَمَا فِيهِمَا؛ وَلِهَذَا قَالَ: رَبِّ الْعَالَمِينَ .ثُمَّ قَالَ: وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السمواتِ وَالأرْضِ قَالَ مُجَاهِدٌ:يَعْنِي السُّلْطَانَ. أَيْ: هُوَ الْعَظِيمُ الْمُمَجَّدُ، الَّذِي كَلُّ شَيْءٍ خَاضِعٌ لَدَيْهِ فَقِيرٌ إِلَيْه ( تفسير ابن كثير ، جلد 7، صفحہ 273)۔’’ ساری حمد اللہ ہی کے لیے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ‘‘ یعنی وہی زمین وآسمان کا اور ان کے درمیان تمام چیزوں کا مالک ہے ، اور ’’ اسی کی کبریائی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی ‘‘ اس کی تشریح مجاہد نے یہ کی ہے کہ اسی کا اقتدار ہے یعنی وہی بڑائی اور بزرگی والا ہے جس کے آگے ہر چیز پست ہے اور اس کی محتاج ہے ۔
شو کانی لکھتے ہیں:
وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَيِ: الْجَلَالُ وَالْعَظَمَةُ وَالسُّلْطَانُ، وَخَصَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لِظُهُورِ ذَلِكَ فِيهِمَا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ أَيِ: الْعَزِيزُ فِي سُلْطَانِهِ. فَلَا يُغَالِبُهُ مُغَالِبٌ، الْحَكِيمُ فِي كُلِّ أَفْعَالِهِ وَأَقْوَالِهِ وَجَمِيعِ أَقْضِيَتِهِ (فتح القدير للشوكانی، جلد 5، صفحہ 14)۔ ’’ زمین وآسمان میں بڑائی اسی کی ہے‘‘—یعنی جلال وعظمت اور اقتدار اسی کا ہے ۔ اور آسمان وزمین کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا کہ ان میں اس کی ان صفات کا ظہور ہوا ہے ‘‘ ۔ وہی عزیز وحکیم ‘‘ ہے، یعنی اس کا اقتدار سب سے بڑھ کر ہے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ وہ اپنے اقوام وافعال اوراپنے تمام فیصلوں میں حکیم ہے ۔
ایک آیت یہ ہے:
إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ۔ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنا راجِعُونَ (21:92-93)۔ یعنی، حقیقت میں تمھاری یہ امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں ، لہٰذا تم میری ہی بندگی کرو۔ لوگوں نے اس کار ربوبیت اور اس معاملہ بندگی کو آپس میں خود ہی تقسیم کر لیا ہے مگر ان سب کو بہر حال ہماری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے۔
اوپرمیں نے آیت کا جو ترجمہ دیا ہے وہ زیرِ بحث کتاب کا ترجمہ ہے ۔ اوراسی ترجمہ میں یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ یہ آیت کس طرح مصنف کے نزدیک ربوبیت کے سیاسی مفہوم کی ماخذ بن گئی ہے ۔ ’’ اس کا رربوبیت کو آپس میں خود ہی تقسیم کر لیا ‘‘ کا ترجمہ بتاتا ہے کہ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ کا مطلب غالباً یہ لیا گیا ہے کہ ربوبیت اپنے تمام فوق الفطری اور سیاسی وتمدنی مفہومات کے ساتھ خدا کے لیے خاص تھی ۔ مگر لوگوں نے کچھ خدا کو دیا اور کچھ آپس میں تقسیم کر لیا۔
مگر یہاں اس قسم کے کسی نظریہ کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ کا ترجمہ یہ ہے کہ — ’’انھوں نے ٹکڑے کر لیا اپنے معاملہ کو اپنے درمیان ‘‘ امۃ واحدۃ کا لفظ بتا رہا ہے کہ یہاں جس تقطع کا ذکر ہے وہ اسی امر(امۃ واحدۃ )میں تقطع ہے، نہ کہ کسی اور چیز میں۔
اس آیت سے پہلے ’’ رجال وحی ‘‘ کا ذکر ہے ( الانبیاء، 21:8) اور اس سلسلے میں ایک درجن سے زیادہ انبیاء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ سب ’’امتِ واحد ‘‘ ہیں۔ یعنی ایک ایسا گروہ جو بنیادی طورپر ایک دین لے کر آیا اور ایک دین پر قائم رہا ۔ مگر اس کے بعد ان کے متبعین نے اس وحدت کو باقی نہیں رکھا ۔ ہم نے تو ایک ہی بنیادی دین سب کو دیا تھا۔ مگر لوگوں نے خود اختلاف ڈال کر اس کے ٹکڑے کر لیے اور الگ الگ مذہبی فرقے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے لگے اور اصل دین کو چھوڑ دیا۔
شو کانی لکھتے ہیں :
إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَالْأُمَّةُ: الدِّينُ كَمَا قال ابن قتيبة، ومنه: إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ أَيْ: عَلَى دِينٍ، كَأَنَّهُ قَالَ:إِنَّ هَذَا دِينُكُمْ دِينٌ وَاحِدٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْأُمَمِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي التَّوْحِيدِ، — وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ خَاصَّةً لَا تَعْبُدُوا غَيْرِي كَائِنًا مَا كَانَ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ أَيْ: تَفَرَّقُوا فِرَقًا فِي الدِّينِ حَتَّى صَارَ كَالْقِطَعِ الْمُتَفَرِّقَةِ. وَقَالَ الْأَخْفَشُ: اخْتَلَفُوا فِيهِ، وَهُوَ كَالْقَوْلِ الْأَوَّلِ( فتح القدير للشوكانی، جلد3، صفحہ 502)۔یعنی، امت کا لفظ یہاں دین کے معنی میں ہے۔ گویا فرمایا کہ تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے مختلف امتوں کے درمیان توحید میں کوئی اختلاف نہیں ’’ میں تمہارا رب ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کو میرے لیے خالص کر دو اور کسی بھی دوسری چیز کی عبادت نہ کرو ۔ (تَقَطَّعوا أَمْرَهُم بَيْنَهُم)کے فقرے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے دین میں فرقے کر ڈالے یہاں تک کہ دین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اخفش نے کہا ہے کہ انھوں نے دین میں اختلاف کیا ۔ اور یہ پہلے قول کے مطابق ہے۔
