اپنی تحریر کا ایک حصہ میں نے آخر ستمبر 1962ء میں اور دوسرا حصہ آخر نومبر 1962ء میں مولانا کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔ اس طرح مہینوں کی مدت گزر گئی اور اس درمیان میں کئی بار یاد دہانی کے خطوط لکھے ۔ آخر طویل انتظار کے بعد 26مارچ 1963ء کی ڈاک سے مجھے ایک پیکٹ ملا۔ اوپر میرا پتہ لکھا ہوا تھا ، اور نیچے حسب ذیل سطریں درج تھیں ۔
المرسل:ملک غلام علی
معان خصوصی مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی
اچھرہ ، لاہور
پیکٹ کی شکل بتا رہی تھی کہ یہ وہی مضمون ہے جس کا مجھے پچھلے چھ مہینے سے شدید انتظار تھا ۔ مگر جب اس کو کھولا تو معلوم ہوا کہ بعینہ میرا مضمون مجھے واپس بھیج دیا گیا ہے ۔ درمیان میں لگے ہوئے تمام صفحات بالکل سادہ تھے ، بس ایک جگہ پیشانی پر نظر آرہا تھا کہ پنسل سے کچھ لکھ کر اسے مٹا دیا گیا ہے ۔چنانچہ میں نے حسب ذیل خط لکھا ۔
اعظم گڈھ، 26مارچ 1963ء
اعظم گڈھ، 26مارچ 1963ء
محترمی مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی سلام مسنون
آج کی ڈاک سے میرا بھیجا ہوا مضمون واپس ملا۔ آپ کی فرمائش کے مطابق آپ کے جواب کے لیے ہر ورق کے درمیان میں نے سادہ اوراق لگادیے تھے ۔ مگر خلاف وعدہ وہ تمام اوراق بالکل خالی ہیں اور اس کے ساتھ آپ کا کوئی خط بھی نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا معاملہ ہے ۔براہ کرم صورت پہلی بار مئی 1962 ء میں جب میں نے اپنی تحریر مولانا مودودی کے نام روانہ کی تھی تو نظریات ونتائج سمیت پوری تحریر بھیج دی تھی۔ مگر بعد کو یہ زیادہ مناسب معلوم ہوا کہ صرف نظریاتی حصہ کے بارے میں ان کا تبصرہ معلوم کیا جائے ۔ چنانچہ دوسری بار میں نے صرف یہی حصہ بھیجا۔
حال سے مطلع فرمائیں ۔
خادم وحید الدین
