اس کے بعد امیر جماعت کی طرف سے ایک کارڈ ملا جس میں لکھا تھا۔
’’آپ کی تحریریں رام پور سے منگوائی ہیں۔ امید ہے کہ دو تین روز میں آ جائیں گی۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کو کچھ لکھ سکوں گا۔‘‘
جواب میں میں نے لکھا کہ رام پور میں مولانا صدر الدین صاحب کے پاس میری جو تحریر ہے وہ بہت ناقص اور نامکمل حالت میں ہے۔ اگر آپ میرے خیالات دوبارہ واضح شکل میں دیکھ کر اس پر تبصرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو میں یہاں سے اس کی ایک نقل آپ کو بھیج دوں۔
آپ کا تبصرہ میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ اور اس کے لیے اپنی تحریر بھیجنے میں یقیناً مجھے بہت خوشی ہو گی۔
اس کے بعد پھر قیم جماعت کی طرف سے تحریر کا تقاضا آیا جس کے جواب میں میں نے لکھا۔
اعظم گڑھ، 5 ستمبر 1962ء
اعظم گڑھ، 5 ستمبر 1962ء
محترمی سلام مسنون
قیم جماعت اسلامی جناب محمد یوسف صاحب کے دستخط شدہ دو خط مورخہ 27 نومبر اور 3 دسمبر 1962ء وصول ہوئے۔ میں اس سے پہلے 24 نومبر کو ایک خط آپ کے نام روانہ کر چکا ہوں۔ جو گویا ان خطوط کا پیشگی جواب ہے۔ میں نے اس میں لکھا تھا کہ ’’اگر آپ میرے خیالات پر تبصرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو میں اپنی تحریر موجودہ مکمل شکل میں آپ کی خدمت میں بھیج دوں‘‘ ۔
مگر اس کے متعلق آپ کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں دوبارہ عرض کروں گا کہ اگر آپ کی طرف سے بلاکسی شرط کے اس ارادے کا اظہار ہو تو میں ان شاء اللہ بخوشی اپنی تمام تحریریں آپ کی خدمت میں روانہ کر دوں گا۔ لیکن اس یقین دہانی کے بغیر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کس لیے میں اپنی تحریر آپ کی خدمت میں بھیجوں۔
جہاں تک میرے خط مورخہ 8 نومبر کے جواب کامعاملہ ہے، اس سلسلے میں تحریر کے مطالبے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس خط کا جواب دینے کے لیے وہی معلومات کافی ہیں جن کی بنا پر آپ نے شعبۂ تصنیف سے میرااستعفیٰ منظور کیا تھا۔ جس طرح 5 ستمبر کو آپ اس پوزیشن میں تھے کہ ’’فکری اختلاف کی بنا پر شعبہ تصنیف سے علیٰحدگی کے متعلق میری درخواست منظور کریں۔ ٹھیک اسی طرح آج آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ میرے مذکورہ بالا خط کا جواب تحریر فرمائیں۔ اگر آپ کا 5 ستمبر کا فیصلہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھاتو یقیناً آج بھی آپ کو میرے خط کا جواب دینے میں کوئی زحمت پیش نہیں آنی چاہیے۔
میں اپنے 8 نومبر کے خط کے سلسلے میں آپ کے جواب کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں۔ براہ کرم جلد روانہ فرمائیں۔
خادم وحید الدین
