دہلی، 10 اکتوبر 1962ء

دہلی، 10 اکتوبر 1962ء

برادر عزیز        السلام علیکم

گرامی نامہ ملا، اگر آپ نے آخری طور سے یہ فیصلہ ہی فرما لیا ہے کہ آپ کو اپنے فکری اختلاف کی بنا پر جماعت کی رکنیت سے علیٰحدہ ہو نا چاہیے تو ہم اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں کہ اسے چارو ناچار برداشت کریں۔ ورنہ میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ آپ نے اس سے پہلے جو فیصلہ فرمایا تھا وہی زیادہ مناسب تھا، یعنی یہ کہ شعبۂ تصنیف سے علیٰحدگی کے بعد آپ اپنا کچھ وقت مزید مطالعہ و تحقیق میں صرف فرمائیں اور اس دوران میں جماعت اور جماعت کے باہر کے اہل علم سے گفتگو و تبادلہ خیال بھی فرماتے رہیں، کیا عجب اس کے نتیجے میں جماعت اور آپ کے نقطۂ نظر میں اتفاق کی کوئی شکل نکل آتی ۔ ابھی تو وہ گفتگو بھی اختتام کو نہیں پہنچی ہے جو آپ کے اور مولانا صدر الدین صاحب کے درمیان چل رہی تھی، اور جیسا کہ میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں وہ آپ کے تبصرہ پر اپنا تبصرہ لکھنے کے لیے بھی آمادہ ہیں بشرطیکہ اس کا اندازہ وہ نہ ہو جو آپ نے پہلے اختیار فرمایاتھا، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے، مولانا جلیل احسن صاحب وغیرہ سے بھی آپ کی خط و کتابت کا سلسلہ ابھی جاری ہی ہے ۔ پھر ذرا صبر سے کام لے کر اس کے نتیجے کا کیوں نہ انتظار فرما لیں۔ علیٰحدگی کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔ اور کسی علیٰحدہ ہونے والے کو خواہ مخواہ روکنے کی ہرگز ہماری خواہش نہیں ہے۔ لیکن کسی بھی رکن جماعت کی علیٰحدگی ظاہر ہے ہمارے لیے کوئی خوش آئند بات نہیں ہے اور آپ کی  علیٰحدگی تو خصوصیت کے ساتھ ہمارے لیے ایک رنجیدہ واقعہ ہو گا اور میں تو ذاتی طور سے بھی اپنے لیے اس کو نہایت تکلیف دہ حادثہ سمجھوں گا۔ اس لیے جی چاہتا ہے کہ آپ کومطمئن کرنے کے لیے ہم آخری حد تک اپنی کوششیں جاری رکھیں اگر خدانخواستہ اس کے بعد بھی اتفاق کی کوئی راہ پیدا نہ ہو سکے تو پھرمجبوری ہے۔

رہی یہ بات کہ ہمارے اور آپ کے درمیان اب خلوص کی وہ فضا باقی نہیں رہ گئی ہے جو کسی مشترک مقصد کے لیے مخلصانہ تعاون کے لیے درکار ہے تو اول تو میں نہیں سمجھ سکاکہ گفتگو کے موجودہ مرحلہ میں آپ نے یہ بات کیوں لکھی ہے۔ تعاون کے ہونے یا نہ ہونے کا ابھی سوال ہی کیا ہے۔ آپ اس وقت تو بہرحال رکن جماعت ہی ہیں۔ اور ہمارے اور آپ کے درمیان جو کچھ گفتگو اور خط و کتابت ہو رہی ہے وہ کسی تعاون کے سوال کے بجائے اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ آپ آئندہ جماعت کے ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، اور رکنیت کے مسئلہ کا مخلصانہ تعاون کی فضا سے کوئی براہ راست تعلق میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوں کہ اس کی بنا پر آپ نے اپنے سابقہ فیصلہ کے خلاف دفعتاً اپنی رکنیت ختم کر دینے کا فیصلہ کس طرح فرما لیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مجھے اس بات پر انتہائی حیرت ہے کہ آپ نے اس مخلصانہ فضا کے باقی نہ رہنے پر میرے اس خط سے استدلال فرمایا ہے جو میں نے مولانا صدرالدین صاحب کو آپ کے تبصرہ کے ذیل میں لکھا تھا۔ وہ خط میں نے بہت رواروی میں کھڑے کھڑے لکھا تھا۔ کیوں کہ ایک صاحب اسی وقت رام پور جا رہے تھے۔ لیکن آپ کے خط میں اسے غور سے پڑھنے کے بعد بھی مجھے اس میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جس سے آپ مخلصانہ تعاون کی فضا باقی نہ رہنے پر استدلال کرسکیں۔ کیا یہ بات تعاون کے فقدان کی دلیل بن سکتی ہے کہ اس بات کے باوجود کہ مجھے آپ کاتبصرہ پڑھنے کے بعد آپ کی طرف سے تقریباً مایوسی ہو چکی ہے، میں مولانا صدرالدین صاحب سے یہ نہیں کہتا کہ اب آپ سے گفتگو کا سلسلہ منقطع کردینا چاہیے۔ بلکہ ان سے دریافت کرتا ہوں کہ ان کے خیال میں بات چیت کی گنجائش باقی ہے یا نہیں۔ اور ان کے جواب کے مطابق میں آپ کو جواب دینے پر آمادگی کااظہار کر رہا ہوں اور مولانا جلیل احسن صاحب کو بھی میں یہ نہیں لکھ رہا ہوں کہ آپ سے اب گفتگو فضول ہے۔ بلکہ یہ کہ ان کو جو کچھ گفتگو کرنی ہے، اسے جلد اختتام کو پہنچانے کی کوشش کریں، اور وہ بھی محض اس لیے کہ آپ ان کی طویل مراسلت کی تاب نہ لا سکیں گے۔

بہرحال میں تو اپنے طور سے یہی سمجھ رہا ہوں کہ میرا وہ خط تعاون کی فضا کے قائم و برقرار رہنے بلکہ اس کوقائم و برقراررکھنے کی خواہش کا پتہ دیتا ہے، نہ کہ اس کے ختم ہونے کا۔ البتہ اس کامیرے پاس کوئی علاج نہیں ہے کہ آپ نے غالباً کسی خاص تاثر کی بنا پر اس کے بعض فقروںکو وہ معنی پہنائے ہیں جن کی نہ لفظوں میں کوئی گنجائش ہے اورنہ وہ میرے حاشیہ خیال ہی میں تھے۔

پڑھانے لکھانے کا مفہوم غالباً آپ نے یہ سمجھا ہے کہ میں خدانخواستہ آپ کو مبتدی سمجھتا ہوں اور اس بنا پرمولانا جلیل احسن صاحب کو لکھ رہا ہوں کہ وہ آپ کو الف ب پڑھانا شروع کر دیں۔ حالانکہ وہ فقرہ میں نے محض ان کے مخصوص طریق مراسلت کو ذہن میں رکھ کرکچھ بے تکلفی کے انداز میں لکھ دیا تھا۔ یعنی جیسا کہ آپ نے خود بیان فرمایاتھا، وہ آپ کے مضمون پر خود کوئی تبصرہ لکھنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ اس کے لیے وہ طریقہ یہ اختیار کرنا چاہتے تھے کہ وہ آپ کے مضمون کے سلسلے میں آپ سے کچھ سوالات کریں گے۔ اور آپ کو ان کا جواب لکھنا ہو گا۔ اور اس طرح سوال و جواب کے ذریعہ آپ اور وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اگر اس طریق جواب کی تعبیر کے لیے میں لکھانے پڑھانے کا لفظ مولانا صدرالدین صاحب کے نام اپنے پرائیویٹ خط میں لکھ دیا تھا تو کیا واقعی میں نے اتنی بڑی غلطی کی ہے کہ اس پر آپ اس درجہ رنجیدہ ہوں۔ اور اس کے بعد اب آپ کے لیے جماعت کی رکنیت کو فوری طور پر ختم کر دینا ضروری ہو گیا ہو! درآں حالیکہ یہ امر واقعہ بھی ہے جس سے مجھے یقین ہے کہ آپ بھی انکار کرنا نہیں چاہیں گے کہ مولانا جلیل احسن صاحب آپ کے استاد ہیں۔ اس لیے اگر لکھانے پڑھانے کے الفاظ سے تعلیم و تعلم کی طرف کوئی اشارہ نکلتابھی ہو تو یہ آپ کے لیے کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہونی چاہیے۔

رہی پلٹا کھانے کی بات تو اس پر آپ نے اپنے جس کرب و اذیت کا اظہار فرمایا ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے افسوس تو ضرور ہوا لیکن معاف فرمائیے گا، اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ کیوں کہ آپ نے خوامخواہ میرے فقروں کو غلط معنوں پر محمول فرمایا ہے۔ اور اس طرح نہ صرف اپنے اوپر بلکہ خود مجھ پر بھی بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ میرے دل میں آپ کی کتنی وقعت ہے۔ اور میں دوسروں کے سامنے آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کن لفظوںمیں کرتا رہا ہوں۔ میں اس کا خیال بھی نہیں کر سکتا کہ آپ جس بات کو حق سمجھتے ہوں، اسے مصالح کی بنا پر ٹھکرا دیں یاکسی مفاد کی خاطر کسی غلط بات کو مان لیں۔ البتہ آپ کے بارے میں میرا احساس آج نہیں شروع ہی سے یہ ہے، جس کا میں خود آپ سے متعدد بار اظہار بھی کر چکا ہوں کہ آپ کے مزاج میں شدت ہے، اور اسی لیے آپ جس بات کو صحیح مان لیں پھر اس کے بارے میں کسی کی بات قبول کرنے کے لیے آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے۔ ہاں کچھ عرصہ بعد آپ پر کسی طرح اپنی غلطی واضح ہو جائے تو اس صورت میں آپ کو لوٹنے میں بھی پس و پیش نہیں ہوتا یہ تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے بارے میں میرا یہ احساس غلط ہے لیکن میں نے جو بات لکھی ہے وہ بس اسی مفہوم کی حامل ہے۔ لکھتے وقت اس کے سوا اور کوئی مفہوم میرے ذہن میں نہیں تھا، اب آپ کو اختیار ہے کہ آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں۔

آپ نے اسی ضمن میں مجھ پر دوعملی کا بھی الزام لگایا ہے مجھ میں بہت سے نقائص وعیوب ہیں جن سے میں بخوبی واقف ہوں، لیکن جہاں تک دوعملی یا منافقت کا تعلق ہے میں ہمیشہ اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اور آپ کا یہ الزام پڑھ کر واقعی ٹھنڈے دل سے میں نے اس کا جائزہ لیا کہ خدانخواستہ آپ کے ضمن میں میں کسی درجے میں اس کا مرتکب تو نہیں ہوا ہوں۔ چنانچہ میں نے اس مدت میں آپ کو جو چند خطوط لکھے یا لکھوائے ہیں، ان کی نقول کا بھی مطالعہ کیا۔ اور آپ سے اس مدت میں جو گفتگوئیں ہوئی ہیں ان کو بھی یاد میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن آپ کے الزام کی تائید میں نہ خطوط میں مجھے کوئی چیز مل سکی اور نہ کوئی گفتگو یاد آ سکی۔ مجھے تو کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شدّت تاثر میں تحقیق و اطمینان حاصل کیے بغیر ہی خطوط یا گفتگوؤں کے حوالہ سے یہ الزام عائد کر دیا ہے۔ تاہم اگر میرے کسی خط یا گفتگو کو کسی ایسی بات کی آپ نشاندہی کر سکیں جو مولانا صدر الدین صاحب کے نام میرے خط کے مفہوم و انداز سے متضاد ہو تو ضرور کریں میں آپ کا نہایت ممنون ہوں گا۔

آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مولانا صدرالدین صاحب کے نام میری تحریر نے ان تمام باتوں کی تصدیق کر دی جو آپ عرصہ سے میرے بارے میں سن رہے تھے،مگر آپ کا دل یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میرے خیال میں نصح و خیر خواہی کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ ایسی باتیں پہلے ہی میرے علم میں لاتے جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا تھاکہ آپ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم کر سکتے تھے۔ لیکن اب جب کہ آپ کو ان پر یقین ہو گیا ہے تو کم از کم اب آپ کو ان کی ضرور ہی نشاندہی کر دینی چاہیے۔ تاکہ اگر واقعی وہ قابل اصلاح باتیں ہوں تو میں اپنی اصلاح کر سکوں۔

آپ نے اپنے خط میں اس کی بھی شکایت کی ہے کہ میں نے آپ کو زبانی یا تحریری طور سے مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دراں حالیکہ میں نے اس کا وعدہ بھی کیاتھا۔ تو یہ بات تو آپ کو معلوم ہے ہی کہ آپ کی تحریر پر مفصل تبصرہ کرنے کے لیے مولانا صدرالدین صاحب کو باقاعدہ متعین کیا گیا تھا، جو ہماری نگاہ میں اس کام کے لیے موزوں تر آدمی تھے، اور اسی کے ساتھ مولانا جلیل احسن صاحب سے بھی خواہش کی گئی تھی کہ وہ بھی آپ کے خیالات سمجھنے اور جماعت کا نقطۂ نظر سمجھانے کے لیے آپ سے خط و کتابت کریں۔ اور اس مدت میں آپ اور مولانا صدر الدین صاحب جو کچھ لکھتے رہے ہیں وہ بہرحال میری نگاہ سے بھی گزرتا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں آج آپ پر یہ ظاہر کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے طور سے بہت پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا۔ جس کا اظہار میں نے کچھ رفقاء سے کیا بھی تھا کہ اگر خدانخواستہ آپ کو مطمئن کرنے کے سلسلے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں تو آخر میں اس موضوع پر میں ضرور آپ سے بات چیت کروں گا۔ مگر معلوم نہیں آپ کی اس تحریر کے بعد اس کا موقع باقی رہا یا نہیں۔ بہرحال میری خواہش یہ ہے کہ میری مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں آپ اپنے خط پرکم از کم اس حد تک ضرور نظرثانی کریں کہ جب تک آپ اپنے ذاتی مطالعہ و تحقیق اور اہل علم سے تبادلہ خیال کر لینے کے بعد اپنے خیالات و نظریات کے بارے میں پوری طرح یکسو نہ ہو جائیں، جماعت سے علیٰحدگی کا فیصلہ ملتوی رکھیں۔ ممکن ہے ہمارے اور آپ کے درمیان اتفاق کی کوئی صورت پیدا ہو جائے جس کے بہرحال ہم دل سے متمنی ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ آپ کو اپنے فیصلے پر اصرار ہی ہو تو مطلع فرمائیں کہ آپ کے فیصلہ پر چار و ناچار ہمیں راضی ہی ہونا ہے۔

                                                           خاکسار

                                                           ابواللیث

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion