شہادت حق
اس سلسلے کا دوسرا تقاضا وہ ہے جس کو شہادت یا دعوت الی الاسلام کہا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک پوری طرح پہنچ جائے تاکہ آخرت میں کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہے کہ ہم کو حقیقت کا علم نہیں تھا۔ اس لیے ہماری گمراہی کی ذمے داری ہمارے اوپر نہیں ہے:
رُسُلاً مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَاّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی، رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے اوپر کوئی حجت باقی نہ رہے ۔
رسولوں کو بھیجنے کا اولین مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ ’’ اعلان و اسرار ‘‘ کے ذریعہ حق کے پیغام سے لوگوں کو خبردار کر دیں۔ یہ خدا کی طرف سے آگہی اور پیغام رسانی کا ایک کام ہے۔ جو اس لیے کیا جاتا ہے کہ کائنات جس اسکیم کے تحت بنائی گئی ہے۔اور اس کا بالآخر جو انجام ہونے والاہے اس سے لوگ مطلع ہوجائیں۔ جو کچھ غیب میں ہے وہ اس وقت کے آنے سے پہلے لوگوں کے علم میں آجائے، جب موجودہ دنیا کی بساط الٹ دی جائے گی اور غیب شہود بن جائےگا۔
موجودہ زمانے میں بعض لو گ دعوت حق کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو ایک بہتر اور مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے دنیا کے سامنے لایا جائے۔ یہ بات اصلاً غلط یا قابل ترک نہیں ہے ۔ متکلمانہ حکمت کا تقاضا کسی وقت یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کو ایک بہتر نظام زندگی کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ مگر یہ یقینی ہے کہ یہ بات صرف متکلمانہ ضرورت کی حد تک صحیح ہے، اگر اسی کو دعوت اسلامی کا اصل اور حقیقی انداز قرار دیا جائے تو وہ اپنی صداقت کھو دے گی۔
اسلام کو اگر اصلاً بہتر نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیا جانے لگے تو ایسی صورت میں دعوت اسلامی کی حیثیت مخاطب کے ذہن میں یہ بن جائے گی کہ وہ مسائل عالم کو حل کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مقصد لوگوں کو معاشی اور سیاسی عذا ب سے ڈرانا ہے۔ جب کہ انبیاء کی دعوت کو قرآن میں اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ آسمانی عذاب سے لوگوں کو ڈرانے کے لیے آتے تھے۔
يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلى مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاقِ (40:15)۔ خدا اپنے حکم سے روح کو بھیجتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے۔
اس عملِ تبلیغ کی انتہائی صورت مدعو کے لحاظ سے تو یہ ہے کہ وہ دعوت کو قبول کر کے اپنی زندگی اس کے مطابق بنا لے ۔ مگر داعی کے لحاظ سے اس کی انتہائی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اپنی بات کو آخری حد تک لوگوں تک پہنچا دے۔ وہ حقیقت کو ان کے اوپر اس طرح واضح کر دے کہ پھر اس کے بعد کسی کے لیے عذر اور تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ چنانچہ انبیاء کے لیے اتمام حجت کا جو معیار مقرر کیا گیا، وہ یہی تھاکہ وہ اپنی بات کو پوری طرح لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس سے آگے انھیں کسی اور چیز کا مکلف نہیں بنایا گیا۔ وہ تمام قومیں جن کا قرآن میں اس حیثیت سے ذکر ہے کہ انہوں نے انبیاء کے پیغام کو نہیں سنا، اور ان کی نا فرمانی کر کے عذاب الٰہی کے مستحق ہو گئیں، وہ وہی ہیں جن پر نبی نے اپنی تقریروں سے اور گفتگوؤں کے ذریعہ کا م کیا تھا۔ بات پہنچانے سے زیادہ کچھ اور نہیں کیا جا سکا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اس حکم کی تعبیر کے لیے جو مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ سب اطلاع اور آگہی کے معنوں میں ہیں۔یہاں میں چند آیتیں نقل کرتا ہوں:
صدع بالامر — فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ( 15:95)۔ یعنی، جس چیز کا تمہیں حکم ملا ہے اس کو خوب کھول کر لوگوں کو سنا دے۔
تبئینِ ذکر — وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ (16:44)۔ یعنی، اور اے نبی ہم نے تمہاری طرف ذکر بھیجا ہے تاکہ تو اسے لوگوں پر ظاہر کر دے۔
ایذانِ وحی— فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلى سَواءٍ (21:109)۔ یعنی، اگر یہ لوگ اعراض کریں تو ان سے کہہ دو کہ میں نے تم کو پیغام رسالت سے آگاہ کر دیا ہے ۔
ابلا غِ رسالت— وَقالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ (7:79)۔ یعنی، (صالح نے ) کہا اے میری قوم میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچادیا اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔
قصص ِآیات — يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آياتِي (7:35)۔ یعنی، اے اولاد آدم تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں گے جو تم کو میری آیتیں سنائیں گے۔
قراتِ قرآن — وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِِ (17:106)۔ اور ہم نے قرآن کو جزء کر کے نازل کیا ہے تاکہ تو ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنا دے۔
تلاوتِ کتاب — أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ يُتْلى عَلَيْهِمْ (29:51)۔ یعنی، کیا ان لوگوں کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔
انذار و تبشیر — وَما أَرْسَلْناكَ إِلَاّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَنَذِيراً ( 34:28)۔ یعنی، ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
نداء للایمان — رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ (3:193)۔ یعنی، خدایا ہم نے ایک منادی کو سنا کہ وہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا۔
دعوت الی الاسلام — وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعى إِلَى الْإِسْلامِِ (61:7)۔ یعنی، اس سے بڑا ظالم کون ہے کہ اس کو خدا کی طرف بلایا جائے اور وہ خدا پر بہتان باندھے۔
تبلیغ ما انز ل اللہ — يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكََ (5:67)۔ یعنی، اے رسول خدا کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے۔
تذکیر بایام اللہ — وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللهِ ( 14:5)۔ یعنی، (موسیٰ کو ہم نے بھیجا کہ) لوگوں کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔
داعی اسی ذہن کے تحت اس کام کا آغاز کرتا ہے ۔ وہ ہمدردی اور حق پسندی کے تمام تقاضوں کے ساتھ اپنی بات آخری حد تک لوگوں کو سنا دینا چاہتا ہے ۔ اس کے بعد اس مہم کے دوران میں جو واقعات پیش آتے ہیں، ان کا تعلق اصلاً کارِ تبلیغ سے نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں سے ہے جن کے اوپر شہادت و تبلیغ کا کام کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کوئی ایک صورت متعین نہیں کی جا سکتی، اور نہ اس کی کسی مخصوص مثال کو لازمی طور پر شہادت کی تشریح قرار دیا جا سکتا ہے— ہو سکتا ہے کہ داعی صرف پکارتے پکارتے مر جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ وقت کی بعض بڑی شخصیتیں اسلام قبول کر لیں اور ان کے اثر سے خدا کا دین یکایک پورے علاقے میں پھیل جائے۔ ہو سکتا ہے کہ مخاطبین سے ٹکراؤ ہو اور وہ تنہا یا اقتدار سے مل کر تحریک کو ختم کر دینے کی سازش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر دے کہ داعیِ اول یا اس کے بعد آنے والے اس کے ساتھی ملک کے اقتدار پر قابض ہوجائیں۔پھر اقتدار پر قبضہ کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ محض ایک سیاسی غلبہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک پھیلے اور اتنا بڑا عوامی تعاون حاصل کر لے کہ وہاں ایک منظم سوسائٹی وجود میں آجائے۔ یہ ساری صورتیں ممکن ہیں، اورا ن میں سے ہر ایک کی مثالیں اسلام کی دعوتی جدوجہد کی طویل تاریخ میں موجود ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی صورت شہادتِ حق کی ادائیگی کی واحد یا معیاری صورت نہیں ہے ۔ شہادت یا دعوت کی ادائیگی صرف یہ ہے کہ خدا کے پیغام کو حقیقی ’’ نصح‘‘ کی تمام شرائط کے ساتھ’’قول بلیغ‘‘ کی زبان میں لوگوں تک پوری طرح پہنچا دیا جائے۔ اور اس پہنچانے میں خواہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیش آئے۔ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے جاری رکھا جائے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا، وہ اس جدوجہد کے دنیوی نتائج یادوسرے لفظوں میں تاریخ دعوت کے واقعات ہیں جو مختلف حالات میں مختلف شکل اختیار کرتے ہیں۔ گویا داعی کی نسبت سے جو کچھ مطلوب ہے وہ صرف یہ کہ خدا کے پیغام کو وہ آخری حد تک پہنچا دے اور آخر عمر تک پہنچاتا رہے۔ بقیہ تمام چیزیں دراصل وہ واقعات ہیں جو مدعو کی نسبت سے پیش آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان واقعات کی کوئی ایک لگی بندھی فہرست نہیں بنائی جا سکتی اور نہ ان کی نوعیت کا فرق داعی کے کام کے ناقص یا کامل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انبیاء پہلے اصلاح معاشرہ پر اپنی قوت لگاتے ہیں۔ اور اس کے بعد سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر تقدیم و تاخیر کی یہ بحث میرے نزدیک صرف اس با ت کا ثبوت ہے کہ آپ زیرِ بحث تعبیر سے آزاد ہو کر سوچ نہ سکے۔اور اسی کے چوکھٹے میں رہتے ہوئے ایک نئے عنوان سے اپنے عدم اطمینان کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ قرآن میں مذکور انبیاء میں آخری رسول کے سوا تین رسول ہیں۔ جن کی زندگی میں بادشاہت اور حکومت جمع ہوئی — حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت یوسف علیہم السلام ۔ان تینوں میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ ان کی حکومت کسی معاشرتی حالات کے تقاضے کے طور پر ابھری تھی۔ یا یہ کہ انہوں نے پہلے معاشرہ کی اصلاح کی اور اس کے بعد حکومت قائم فرمائی۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ غیر اہل اسلام پر جو دعوتی کام کیا جائے گا، اس میں ان کے سامنے بیک وقت سارا دین پیش کرنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے دین کی اصولی تعلیمات انھیں بتائی جائیں۔خدا کا تصور، رسالت کا تصور اور آخرت کا تصور،یہ وہ چیزیں ہیں جو اولاً غیر مسلم مخاطبین کے سامنے رکھی جاتی ہیں اور مسلسل مختلف پہلوؤں سے ان کے سامنے اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ جہاں جہاں ان کا ذہن اٹک رہا ہوتا ہے، اس کو موثر استدلال کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد جب وہ اسے مان لیتے ہیں تو انھیں ان احکام کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔ صحیحین کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ کو یمن کی طرف دعوتی مشن پر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب کے ایک گروہ سے ملو گے تو انھیں سب سے پہلے کلمہ توحید کی طرف بلانا :فَلْيَكُنْ أَوَّلُ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1395، صحیح مسلم حدیث نمبر 19)۔ جب وہ اس کو مان لیں تو اس کے بعد انھیں نماز اور دیگر اعمال شریعت کی تعلیم دینا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء اپنے ابتدائی دعوتی مرحلہ میں صرف بنیادی تعلیمات لے کر آتے تھے۔ اور عرصہ دراز تک اس کی تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ اس کے بعد جیسے جیسے عملی حالات پیدا ہوتے تھے، اس کے مطابق تفصیلی ہدایات نازل کی جاتی تھیں۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی جب کسی قوم کے پاس آیا تو اس نے پہلے ہی مرحلہ میں ایک پورا سماجی اور تمدنی نظام مرتب کرکے ان کے سامنے رکھ دیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ اسلامی سٹیٹ قائم کر کے تم ان تمام قوانین کو زندگی کے سارے شعبوں میں نافذ کرو۔
3۔اس سلسلے کا تیسرا تقاضا وہ ہے، جو مسلمانوں کی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ امت مسلمہ کے افراد کے اندر اللہ تعالیٰ یہ روح دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں۔ وہ صرف اپنی ذات کے لیے نہ جئیں بلکہ جن مسلمانوں کے درمیان وہ رہ رہے ہیں، ان کی ہدایت اور فلاح کے لیے بھی مسلسل کوشش کر رہے ہوں۔ جس طرح ہم پیشہ افراد کے ایک گروہ کا باہمی تعلق ٹریڈ یونین کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اسی طرح عبادت گزار بندوں کا مشترک جذبۂ عبودیت انھیں مجبور کر تا ہے ۔ کہ وہ باہم متحدد ہوں اور ایک دوسرے کی اصلاح و ترقی کے لیے کمر بستہ رہیں۔
اس حکم کی تعمیل کے دو درجے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی ۔ انفرادی حیثیت سے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق دوسرے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے سرگرم رہے۔بائبل کے الفاظ میں’’ وہ اپنے بھائی کا رکھوالا‘‘ بن جائے۔ (پیدائش 4:9) یہی وہ چیز ہے کہ جس کو حدیث میں ’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ‘‘ کہا گیا ہے(صحیح مسلم، حدیث نمبر 55)۔ یعنی، دین کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں۔
حضرت جریر بن عبداللہ سے اسلام قبول کرتے وقت آپ نے جو عہد لیا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى إِقَامِۃ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ (صحيح البخاري،حدیث نمبر529)یعنی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین چیزوں پر بیعت کی ، نماز کی اقامت، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کی خیر خواہی۔
اسی کو دوسرے الفاظ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا گیا ہے ۔ امام نووی لکھتے ہیں:
قد تَطَابَقَ على وجوبِ الأَمْرِ بالمعروفِ والنَّهْيِ عنِ المُنْكَرِ الكِتَابُ والسُّنَّةُ وإجماعُ الأُمَّةِ، وهو أيضاً من النَّصِيحَةِ التي هي من الدِّين (شرح النووي على صحيح مسلم، جلد 2، صفحہ22)۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے پر کتاب و سنت اور اجماع سب کا اتفاق ہے ۔ دین کو خیر خواہی کہا گیا ہے ، اور امر بالمعروف، نہی عن المنکر اسی خیر خواہی کا نام ہے۔
یہی وہ عمل ہے جس کو سورۃ عصر میں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی نسبت سے بندۂ مومن کے ظاہر ہونے والے جذبۂ عبودیت کو’’باہم حق و صبر کی نصیحت ‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کے دو اہم پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے ۔ اس عمل کا ایک رخ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جو کچھ چاہتا ہے، اس کی طرف ہم اللہ سے ایمان واسلام کا معاہدہ کرنے والوں کو راغب کریں۔ اور دوسرے یہ کہ مرضیِ رب پر قائم ہونے کے سلسلے میں اس مادی دنیا میں جو رکاوٹیں پیش آتی ہیں، ان کا مقابلہ کرنے اورمشکلات کے باوجود مرضیِ رب پر جمے رہنے کی طاقت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
ایک مفسران دونوں پہلوؤں کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
{وَتَوَاصَوْاْ بِالْحَقِّ} الخ، بيانٌ لتكميلهم لغيرهم، أيْ وَصَّى بَعْضُهم بَعْضاً بالأمرِ الثابتِ الذي لا سبيلَ إلى إنكاره، ولا زوالَ في الدارينِ لمحاسنِ آثاره، وهو الخيرُ كُلُّه من الإيمانِ بالله عز وجل، واتباعِ كتبهِ ورسلِه في كلِّ عَقْدٍ وعملٍ، {وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ}، أيْ عن المعاصي التي تشتاقُ إليها النفسُ بحكمِ الجِبِلَّةِ البشريةِ، وعلى الطاعاتِ التي يشقُّ عليها أداؤها، أو على ما يَبْلُو الله عز وجل بهِ عبادَهُ (تفسيرابي السعود، جلد9، صفحہ197)۔یعنی، تواصی بالحق کا مطلب اپنے بعد دوسرے اہل ایمان کی بھلائی چاہنا ہے۔ یعنی باہم ایک دوسرے کو احکامِ الٰہی کی تلقین۔ ایسے احکام کی جن سے انکار ممکن نہیں ہے اور جس کے محاسن دونوں جہان میں باقی رہنے والے ہیں۔ اور اس سے مراد وہ سارا خیر ہے جوایمان باللہ اور تمام معاملات میں اتباع کتب و رسل میں پوشیدہ ہے۔ تواصی بالصبر کا مطلب ان گناہوں سے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش ہے، جن کی طرف انسان کا نفس بشری تقاضوں کے تحت مائل ہوتا ہے اور ایسے احکام کی تعمیل پر آمادہ کرنا جن کی ادائیگی شاق ہوتی ہے۔ یا ان چیزوں پر صبر کی تلقین جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتاہے۔
اس کے بعد تواصی کے لیے حق و صبر کی حکمت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
لِأَنَّ الأَوَّلَ عِبَارَةٌ عَنْ رُتْبَةِ الْعِبَادَةِ الَّتِي هِيَ فِعْلُ مَا يَرْضَى بِهِ اللهُ تَعَالَى، وَالثَّانِي عَنْ رُتْبَةِ الْعُبُودِيَّةِ الَّتِي هِيَ الرِّضَا بِمَا فَعَلَ اللهُ تَعَالَى (تفسير أبي السعود، جلد9، صفحہ197)۔یعنی، اس لیے کہ ’’ حق ‘‘ عبادت کا یہ درجہ ہے کہ بندہ وہ کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضا ہواور ’’صبر ‘‘ عبادت کا یہ درجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ آئے اس پر بندہ بالکل راضی رہے۔
اجتماعی حیثیت سے اس فرض کی ادائیگی کا معاملہ امت کے اجتماعی حالات پر موقوف ہے ۔ اگر امت مسلمہ آزاد اور با اختیار حیثیت کی حامل ہو تو اس کا فرض ہے کہ اپنے میں سے کچھ لوگوں کو منتخب کر کے انھیں اس بات کا اختیار دے کہ وہ لوگوں کے اوپر شریعت کے احکام کو باضابطہ نافذ کریں۔ اس اصول کی ایک تعمیل وہ تھی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صحرائے سینا میں پہنچنے کے بعد بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے ان کے اوپر بارہ نقیب مقرر کیے۔ لیکن اگر اس انتہائی شکل کے مواقع حاصل نہ ہوں، تو پھر اس سے کمتر درجہ میں انھیں چاہیے کہ اپنے اوپر کچھ معلم اور مبلغ مقرر کر لیں، جیسا کہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے انصار کے سلسلے میں اختیار کیا گیا تھا۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جب مدینہ کے پچھتر اشخاص (73 مرد ، 2 عورتیں)نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبو ل کیاتو اس وقت آپ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے اوپر بارہ نقیب مقرر کر لو۔ چنانچہ انہوں نے اپنے میں سے ایسے بارہ آدمی منتخب کیے جن میں سے تین قبیلہ اوس سے تھے اور نو قبیلہ خزرج سے۔ اس کے بعد آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:اِنْتُمْ كُفَلَاءُ عَلَى قَوْمِكُمْ (الطبقات الکبری لابن سعد، جلد 3، صفحہ 557)۔ یعنی، تم مومنین مدینہ کے اوپر نگراں اور ذمہ دار ہو۔ اسی قسم کی امارت حضرت جعفر کی بھی تھی جو حبش کے مہاجرین کے اوپر امیر مقرر ہوئے تھے( ملاحظہ ہو، سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 337)۔ اسی طرح دار الاسلام سے نکل کر مسلمان دنیا کے جن علاقوں میں پھیلے ، ہر جگہ انہوں نے اپنی ایک تنظیم بنانے کی کوشش کی۔ خود اسلامی زندگی گزارنے اور دوسروں کو اسلام کی دعوت دینے کے ساتھ جس چیز کی انہوںنے خاص طور پر کوشش کی وہ یہی تھا کہ وہ منظم ہوں اور ایک سربراہ کے تحت اپنے شرعی فرائض کو انجام دیں۔
