جواب

اعظم گڑھ، 26 فروری 1963ء

محترمی مولانا ابواللیث صاحب سلام مسنون

گرامی نامہ مورخہ 21 فروری ملا۔ آپ نے اپنے اس خط میں گفتگو کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’آپ شوریٰ کے اجتماع میں شرکت کے لیے دہلی آئیں تو اس موقع پر بات چیت ہو جائے۔‘‘ مگرموجودہ حالت میںمیرے لیے مجلس شوریٰ کے اجتماع میں شریک ہونا بالکل بے معنی ہے۔ چنانچہ میں نے طے کیا ہے کہ آپ کی طرف سے اگر دعوت نامہ آیا بھی تو اس مرتبہ میں نہیں جاؤں گا۔ اس لیے دہلی میں ملاقات نہ ہو سکے گی۔ البتہ آپ کے خط سے معلوم ہوا کہ آپ مارچ میں بورڈ آف اسلامک پبلی کیشنز کے اجلاس میں شرکت کے لیے علی گڑھ جانے والے ہیں۔ وہاں ملاقات ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ میں بھی جلد ہی دو سالہ قیام کے پروگرام کے تحت علیگڑھ جا رہا ہوں۔ میں نے ’’علم جدید کا چیلنج‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھنا شروع کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں دو سال علی گڑھ رہ کر وہاں اس کی تیاری کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میرے وہاں پہنچنے کے بعد آپ کا علی گڑھ کا سفر ہوا تو ان شاء اللہ وہاں ملاقات ہو سکے گی۔

مگر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ گفتگو آخر کس مسئلہ پر ہو گی۔ گفتگو تو اس سے پہلے اعظم گڑھ میں ہو چکی ہے۔ اس وقت اور اس کے بعد تحریری طور پر آپ کو جو کچھ کہنا تھا، کہہ چکے ہیں۔ پھر اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کون سی بات ہے جس پر ہم آپ گفتگو کریں گے۔

آپ نے لکھا ہے کہ ’’ہم ایک دسرے کے بارے میں بدگمانیاں رفع کر کے اختلافی مسائل پر کھل کر بات چیت کر لیں۔‘‘ مگر مجھے آپ سے کوئی ذاتی شکایت یا بدگمانی نہیں ہے جس کو رفع کرنے کی ضرورت ہو۔ میرا اصل مسئلہ اس نظریاتی تشریح سے متعلق ہے جو مولانا مودودی کے لٹریچر میں پائی جاتی ہے۔ آپ یا جماعت اگر زیرِ بحث آتے ہیں تو صرف اس لیے کہ آپ لوگ اس کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اور اس کی طرف سے مدافعت کر رہے ہیں۔ اعظم گڑھ کی گفتگو میں جب میں نے اس کا ذکر چھیڑا تھا تو یہ در اصل گفتگو کو ’’محدود‘‘ کرنا نہیں تھا، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ کو متعین کرنا  تھا۔ کیوں کہ میرا اصل مسئلہ فی الواقع مولانا مودودی کا لٹریچر ہی ہے۔

مولانا مودودی نے جس انداز سے دین کی تشریح کی ہے میرا شدید احساس ہے کہ وہ صحیح تشریح نہیں ہے۔ میرا یہ احساس ان کی کسی ایک کتاب یا کسی کتاب کے چند پیراگراف کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ان کے سارے ہی دعوتی لٹریچر کے بارے میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا مودودی کی غلطی کوئی جزئی غلطی نہیں ہے بلکہ دین کا مجموعی فکر قائم کرنے میں وہ غلطی کر گئے ہیں۔ اس لیے دین کے سارے ہی اجزاء کی حیثیت ان کے ذہن میں بدل گئی۔ اور ا س طرح دین کے بارے میں ان کی تمام کی تمام تشریحات اس سے متاثر ہوئی ہیں۔

دوسری طرف آپ اور جماعت اسلامی کے دوسرے افراد اس لٹریچر کو جماعت کی فکر کا مستند ترجمان سمجھتے ہیں۔ اور اس لیے قدرتی طور پر دین کی صحیح ترین شرح بھی۔ ایسی حالت میں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس طرح جماعت اسلامی کے اندر رہ سکتا ہوں۔ لٹریچر کے بارے میں میرا مندرجہ بالا احساس قدرتی طور پر تقاضا کرتا ہے کہ میں  اس کی تردید یا تصحیح کرنے کی کوشش کروں۔ مگر جماعت کے اندر رہتے ہوئے جب میں ایسا کرتا ہوں تو فوراً خیال ہوتا ہے کہ یہ دیانتداری کے خلاف ہے۔ کیوں کہ ایک رکن جماعت کے الفاظ میں یہ جماعت کو اندر سے ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے کسی شخص کو جماعت کے باہر آ کر اپنا کام کرنا چاہیے، نہ کہ اس کے اندر سے۔

اگر آپ گفتگو کے لیے کہیں تو میں بہرحال آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ مگر جب میں دیکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ ڈھائی سال سے جاری ہے اور اب تک اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو آئندہ کے لیے بھی مجھے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس سلسلے میں ہماری آپ کی گفتگو کا آغاز جون 1960ء میں ہوا تھا۔ اس دوران میں بار بار گفتگو کے مواقع آئے۔ مولانا صدر الدین صاحب کی وساطت سے تحریری تبادلہ خیال بھی نہایت تفصیل سے ہوا۔ مگر اصل مسئلہ جہاں ڈھائی سال پہلے تھا ، وہیں اب بھی ہے۔

اس لیے درخواست تو یہی ہے کہ اس مسئلہ کو بے جا طول دینے کے بجائے اب آپ اسے ختم کر دیں۔ تاکہ آپ کو بھی، آپ کے الفاظ میں ’’بحث و مباحثہ‘‘ سے چھٹی مل جائے۔ اور میں بھی یکسو ہو کر جو کچھ کرنا چاہوں اسے کر سکوں۔

خادم وحید الدین

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion