الہٰ
سب سے پہلا لفظ الہٰ ہے۔ (ال ه) کا مادہ عربی زبان میں ایک ایسی کیفیت کے لیے بولا جاتا ہے جس میں حیرت کے ساتھ لپک اور اشتیاق پایا جاتا ہو:
أَلِهَ يَأْلَهُ إذا تَحَيَّر (لسان العرب، جلد13، صفحہ467)
ألَهَهُ:أجارَهُ، وآمَنَه (القاموس المحیط، صفحہ 1242)
أَلَهَ الفَصيلُ إذا وَلِعَ بأُمِّه (تفسير البيضاوي،جلد1، صفحہ 26)۔ اس لحاظ سے الہٰ وہ ہے جس کے بارے میں حیرت انگیز طور پر اپنے سے مختلف ہونے کا تصور ہو، جس کو آدمی اپنا پناہ دہندہ سمجھے ، جس کی طرف وہ شدت شوق سے لپکتا ہو۔ یہ لفظ دراصل اس گہرے جذبہ کا ترجمان ہے، جو ایک بندۂ مجبور کے دل میں اپنے خالق ومالک کے لیے ہونا چاہیے ۔ ایک عاجز اور مشتاق انسان کے مخصوص جذبات جب کسی ہستی کو اپنا مرکز توجہ بنا لیتے ہیں ، جب وہ اس پر بھروسہ کرنے لگتا ہے اور اسی سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کر لیتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے فلاں ہستی کو اپنا الہٰ بنا لیا۔
الوہیت کا یہ تصور لازمی طور پر تقاضا کرتاہے کہ جس کو الہٰ قرار دیا جائے وہ بااقتدار بھی ہو۔ کیوں کہ جو ہستی اقتدار نہ رکھتی ہو وہ حاجت روائی اور پناہ دہندگی کا کام انجام نہیں دے سکتی ۔ قرآن جب بتوں اور ارواح کی الوہیت کا انکار کرتا ہے تو اس کی خاص دلیل یہی ہوتی ہے کہ وہ ان اختیارات کی سر ے سے مالک ہی نہیں جو الہٰ بننے کے لیے درکار ہیں — پہلی بات الہٰ کا اصل مفہوم ہے اور دوسری بات الہٰ کے اصل مفہوم کا تقاضا۔
کتاب میں لغوی تحقیق کی حد تک الہٰ کے ا صل مفہوم کو تسلیم کیا گیا ہے ( صفحہ 10)۔ مگر اس کے بعد اس کے مختلف ’’ معانی ‘‘ کی فہرست بندی کرتے ہوئے اصل مفہوم اور اس کے تقاضے کے فرق کو نظر انداز کر کے سب کو اس طرح یکجا کر دیا گیا
’’ پس معلوم ہوا کہ معبود کے لیے الہٰ کا لفظ جن تصورات کی بنا پر بولا گیا وہ یہ ہیں:حاجت روائی ، پناہ دہندگی ، سکون بخشی ، بالاتری وبالا دستی ، ان اختیارات اور ان طاقتوں کا مالک ہونا جن کی وجہ سے یہ توقع کی جائے کہ معبود قاضی الحاجات اور پناہ دہندہ ہو سکتا ہے ، اس کی شخصیت کا پر اسرار ہونا یا منظر عام پر نہ ہونا، انسان کا اس کی طرف مشتاق ہونا ‘‘ ۔( صفحہ11)
اس تشریح میں بالا دست اور با اختیار ہونے کا تصور جو درمیان میں شامل کیا گیا ہے وہ حقیقی الہٰ کا تقاضا ہے ، وہ الہٰ کا لغوی مفہوم نہیں ہے ۔ یعنی الہ کے لغوی معنی با اقتدار ہونے کے نہیں ہیں بلکہ الوہیت کی مستحق دراصل وہی ذات ہو سکتی ہے جو اقتدار واختیار رکھتی ہو۔ چونکہ زیرِ بحث ذہن اقتدار کے تصور کو اس قسم کے ’’ تقاضے ‘‘ کے طور پر دیکھناپسند نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے اس نے اصل اور تقاضے کے اس فرق کو نظر انداز کر کے سب کو ایک ہی فہرست میں یکساں حیثیت سے شامل کر دیا۔
مگر اس کی تسکین کے لیے صرف اتنی بات بھی کافی نہیں تھی کہ الہٰ کی فہرستِ معانی میں اقتدار واختیار کا تصور کسی نہ کسی طرح آجائے ۔ اس کی تسکین تو اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ یہی مفہوم اصل اور بنیاد کی حیثیت سے ثابت ہوجائے ۔ چنانچہ آگے چل کر اس نے اس پورے مفہوم کو الٹ دیا ۔ اور اقتدار کو الہٰ کا اصل مفہوم قرار دے کر اس کے تمام تقاضوں کو اس مرکزی مفہوم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ حالانکہ الہ کا اصل مفہوم اشتیاق او رپناہ دہندگی ہے اور بقیہ تمام مطالب اسی اصل سے جڑتے ہیں ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ان سطروں کو پڑھیے جو الہٰ کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرنے کے بعد ’’ الوہیت کے باب میں ملاک امر ‘‘ کے عنوان کے تحت کتاب میں درج ہیں :
’’ الہٰ کے یہ جتنے مفہومات اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب کے درمیان ایک منطقی ربط ہے ۔ جو شخص فوق الطبیعی معنی میں کسی کو حامی ومدد گار،مشکل کشا اور حاجت روا ، دعاؤں کا سننے والا اور نفع یا نقصان پہنچانے والاسمجھتا ہے ، اس کے ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک وہ ہستی نظام کائنات میں کسی نہ کسی نوعیت کا اقتدار رکھتی ہے ۔اسی طرح جو شخص کسی سے تقویٰ اور خوف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ناراضی میرے لیے نقصان کی اور رضا مندی میرے لیے فائدے کی موجب ہے ، اس کے اس اعتقاد اور اس عمل کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے ذہن میں اس ہستی کے متعلق ایک طرح کے اقتدار کا تصور رکھتا ہے ، پھر جو شخص خداوند اعلیٰ کے ماننے کے باوجود اس کے سوا دوسروں کی طرف اپنی حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے ، اس کے اس فعل کی علت بھی صرف یہی ہے کہ خداوندی کے اقتدار میں وہ ان کو کسی نہ کسی طرح کا حصہ دار سمجھ رہا ہے...پس الوہیت کی اصل روح اقتدار ہے۔(صفحہ 17)
دیکھیے ، یہاں بات بالکل الٹ گئی۔ الوہیت کی اصل روح اشتیاق اور احتیاج کے جذبے کے تحت کسی طرف لپکنا تھا او ر اقتدار کا تصور اس میں اس لحاظ سے شامل ہوا تھا کہ اس قسم کی لپک کسی ایسی ہی ہستی کی طرف صحیح ہے جو با اقتدار ہونے کی وجہ سے فی الواقع اس کی مستحق ہو ۔ مگر مندرجہ بالا تشریح میں بات یہ ہو گئی کہ الوہیت کی اصل روح اقتدار ہے اور بقیہ تمام مفہومات اسی اصل سے اس میں پیدا ہوئے ہیں ۔ یعنی الہٰ کے مختلف متعلقہ مفہومات کے درمیان ’’ منطقی ربط ‘‘ جس بنیاد پر قائم کیا گیا وہ لفظ الہٰ کا اصل مفہوم نہیں تھا ، بلکہ اس کا ایک تقاضا تھا جو اصل مفہوم کی مناسبت سے اس میں پیدا ہوتا ہے ۔
’’ منطقی ربط ‘‘ کی اس بنیاد کے بارے میں مصنف نے قرآن کی ایک درجن سے زیادہ آیتیں بطور شہادت پیش کی ہیں اور اس کے بعد لکھتے ہیں :
’’ ان تمام آیات میں اول سے آخر تک ایک ہی مرکزی خیال پایا جاتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ الہٰیت اور اقتدار لازم وملزوم ہیں اور اپنی روح ومعنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیز ہیں ‘‘۔ (صفحہ 23)
مگر ان تمام آیتوں میں الہٰ کے ساتھ اقتدار واختیار کا ذکر خدا کے الہٰ صحیح ہونے کے لیے بطور دلیل آیا ہے، نہ کہ یہ بتانے کے لیے کہ —’’ الہٰیت واقتدار اپنی روح ومعنی کے اعتبار سے ایک ہیں ‘‘۔ میں صرف ایک آیت نقل کروں گا :
يا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خالِقٍ غَيْرُ اللهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ لا إِلهَ إِلَاّ هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (35:3)۔ یعنی، لوگو ! تمہارے اوپر اللہ کا جو احسان ہے اس کو یاد کرو ، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمان وزمین میں سے رزق دیتا ہو، اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں پھر تم کدھر بھٹکے جارہے ہو۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی آیتوں میں الہٰ کے ساتھ اقتدار کا ذکر اس حیثیت سے نہیں ہے کہ — ’’الہٰیت اور اقتدار لازم وملزوم ہیں اور اپنی روح ومعنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیز ہیں‘‘۔ بلکہ ایسی تمام آیتوں میں اقتدار کا ذکر اللہ رب العزت کے الہٰ حقیقی ہونے کے بارے میں بطور استدلال ہے ۔ یعنی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ’’ الہٰ کے معنی با اقتدار ہونے کے ہیں ۔ اس لیے ایسی ہستی کو الہٰ کے لفظ سے کیوں موسوم کرتے ہو جو اقتدار نہیں رکھتی ‘‘ بلکہ بات یوں ہے کہ — ’’جن توقعات کی بنیاد پر کسی کو الہٰ بنایا جا تا ہے ، وہ توقعات کوئی ایسی ہستی ہی پوری کر سکتی ہے جو عالم اسباب پر اقتدار رکھنے والی ہو۔ اور چونکہ یہ اقتدار سارا کا سارا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لیے حقیقۃً وہی ذات اس کی مستحق ہے کہ اس کو الہٰ قرار دیا جائے ‘‘۔ دوسرے لفظوں میں یہاں بات دراصل احتیاج کی نسبت سے کہی گئی ہے، نہ کہ اقتدار کی نسبت سے۔
مگر اب بھی بات نہیں بنی تھی ۔ کیوں کہ زیرِ بحث ذہن کو اولین دل چسپی جس چیز سے ہے وہ سیاسی اقتدار ہے ، جبکہ ’’ منطقی ربط‘‘ کی اس تبدیلی کے باوجود جو بات ثابت ہوئی وہ صرف فوق الفطری اقتدار ہے ، الہٰ سے متعلق جن امور کی وجہ سے اقتدار کے تصور کو اس کے براہ راست مفہوم میں شامل کیا گیا ہے ، وہ سب امور وہ ہیں جن کا قانونی اور سیاسی اقتدار سے کوئی تعلق نہیں ۔ دعا کا سننا، حاجتیں پوری کرنا، مشکلات میں مدد دینا، نفع نقصان پہنچانا— یہ سب وہ کام ہیں جن کو انجام دینے کے لیے کائناتی اقتدار کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے وہ طاقت درکار ہے جو عالم اسباب پر حکومت کر رہی ہو ۔ ظاہر ہے کہ یہ اقتدار فوق الطبیعی معنوں میں ہے۔ اور محض فوق الطبیعی اقتدار سے زیرِ بحث انقلابی ذہن کا کام نہیں بن سکتا تھا ۔
اب ذہن نے ایک اور کام کیا۔ اس نے ’’ اقتدار ‘‘ کے لفظی اشتراک سے فائدہ اٹھا کر فوق الفطری اقتدار کے ساتھ سیاسی اور تمدنی اقتدار کا قافیہ بھی اس میں شامل کر دیا۔ یہ بتاتے ہوئے کہ جو شخص فوق الفطری معنی میں کسی کو الہٰ بناتا ہے ، اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اس کے متعلق اقتدار واختیار کا تصور رکھتا ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’ اور علیٰ ہذا القیاس وہ شخص جو کسی کے حکم کوقانون اور کسی کے امرو نہی کو اپنے لیے واجب الا طاعت قرار دیتا ہے ، وہ بھی اس کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتا ہے ۔ پس الوہیت کی ا صل روح اقتدار ہے ۔ خواہ وہ اقتدار اس معنی میں سمجھا جائے کہ نظام کائنات پر اس کی فرماں روائی فوق الطبیعی نوعیت کی ہے ، یا وہ اس معنی میں تسلیم کیا جائے کہ دنیوی زندگی میں انسان اس کے تحت امر ہے اور اس کا حکم بذات خود واجب الا طاعت ہے ‘‘ (صفحہ 17)۔
اس استدلال میں قافیہ بندی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ۔ سیاسی اور تمدنی زندگی میں خدا کی اطاعت بے شک عقیدہ الہٰ کا ایک ضروری تقاضا ہے ۔ مگر اس کو الہٰ کا براہ راست معنی قرار دینا اور یہ کہنا کہ اس کا دوسرا برابر کا مفہوم ’’ سیاسی اور تمدنی الوہیت‘‘ ہے، صحیح نہیں ۔
پھر کیسے اتنے وثوق کے ساتھ الوہیت کے مفہوم ثانی کا دعویٰ کر دیا گیا ، اس کو سمجھنے کے لیے درج ذیل اقتباس پڑھیے
’’ اقتدار اعلیٰ کی وحدانیت کا اقتضا یہ ہے کہ حاکمیت اور فرمانروائی کی جتنی قسمیں ہیں، سب ایک ہی مقتدر اعلیٰ کی ذات میں مرکوز ہوں، اور حاکمیت کا کوئی جزء بھی کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ ہو۔ جب خالق وہ ہے اور خلق میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں ، جب رازق وہ ہے اور رزق رسانی میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں۔ جب پورے نظام کائنات کا مدبرومنتظم وہ ہے، اور تدبیر وانتظام میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں تو یقیناً حاکم وآمر اور شارع بھی اسی کو ہونا چاہیے ۔ اور اقتدار کی اس شق میں بھی کسی کے شریک ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جس طرح اس کی سلطنت کے دائرے میں اس کے سوا کسی دوسرے کا فریاد رس اور حاجت روا اور پناہ دہندہ ہونا غلط ہے ۔ اسی طرح کسی دوسرے کا مستقل بالذات حاکم اور خود مختار فرمانروا اور آزا د قانون ساز ہونا بھی غلط ہے ۔ تخلیق اور رزق رسانی ، احیاء اور اماتت ، تسخیر شمس وقمر اور تکویر لیل ونہار ، قضاء اور قدر، حکم اور پادشاہی ، امر اور تشریع سب ایک ہی کلی اقتدار وحاکمیت کے مختلف پہلو ہیں ۔ اور یہ اقتدار وحاکمیت ناقابل تقسیم ہے ۔ اگر کوئی شخص اللہ کے حکم کی سند کے بغیر کسی کو واجب الا طاعت سمجھتا ہے تو وہ ایسا ہی شرک کرتا ہے جیسا ایک غیر اللہ سے دعا مانگنے والا شرک کرتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص سیاسی معنی میں مالک الملک اور مقتدر اعلیٰ اور حاکم علی الا طلاق ہونے کا د عویٰ کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ بالکل اسی طرح خدائی کا دعویٰ ہے، جس طرح فوق الطبیعی معنی میں کسی کا یہ کہنا کہ تمہا را ولی وکار ساز اور مدد گار ومحافظ میں ہوں ۔ اسی لیے جہاں خلق اور تقدیر اشیاء اور تدبیر کائنات میں اللہ کے شریک ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، وہیں لَهُ الحُكمُ،اور لَهُ المُلكُ، ولم يَكُن لَهُ شَريكٌ في المُلكِ بھی کہا گیا ہے۔ جو اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ الوہیت کے مفہوم میں پادشاہی وحکمرانی کا مفہوم بھی شامل ہے۔ اور توحید الہٰ کے لیے لازم ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اللہ کے ساتھ کسی کی شرکت تسلیم کی جائے ‘‘۔ ( صفحہ 24-25)
اس اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ اقتدار اور حاکمیت ایک ناقابل تقسیم چیز ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ کائنات پر جس کا اقتدار ہے ، اسی کا اقتدار انسان کی تمدنی اور سیاسی زندگی پر بھی قائم ہو ‘‘۔ مگر یہ بات ان آیتوں سے نہیں نکلتی جن کا حوالہ دے کر اسے پیش کیا گیا ہے ۔ قرآن میں بیشک یہی بات کہی گئی ہے کہ اقتدار ناقابل تقسیم ہے مثلاً درج ذیل آیت جو اس سلسلے میں کتاب کے اندرنقل کی گئی ہے:
لَوْ كانَ فِيهِما آلِهَةٌ إِلَاّ اللهُ لَفَسَدَتا فَسُبْحانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (21:22)۔ یعنی، اگر زمین وآسمان میں اللہ کے سوا اور بھی الہٰ ہوتے تو نظام عالم درہم برہم ہو جاتا ، پس اللہ عرش کا مالک ان باتوں سے پاک ہے۔
مگر اس طرح کی آیتوں میں اقتدار اعلیٰ کے ناقابل تقسیم ہونے کی بات انتظام کائنات یا دوسرے لفظوں میں فوق الطبیعی پہلو سے ہے، نہ کہ ان معنوں میں کہ جو الہٰ کائنات کا مقتدر اعلیٰ ہے۔ اسی کو سیاسی دائرہ میں بھی مقتدر اعلیٰ ہونا چاہیے ۔ یعنی ان آیات میں اس حقیقت واقعہ کا ذکر ہے کہ کائنات کے ہر حصہ اور اس کے ہر جزء پر ایک ہی اللہ کا اقتدار قائم ہے ، اس میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ جس خدا کی حاکمیت عالم تکوینی میں قائم ہے ، اسی کی حاکمیت عالم تشریعی میں بھی قائم ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اور قانونی زندگی میں بھی خدا ہی کو اپنا حاکم بنائے ۔ مگر اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ۔
اس استدلال کی دوسری خاص بنیاد جو اقتباس کے آخری حصہ سے معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ الہٰ سے متعلق آیتوں میں بعض مقامات پر لہ الحکم ، لہ الملک اور ولم یکن لہ شریک فی الملک کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ مگر ان الفاظ کا یہ مفہوم خود آیات کے اندر موجود نہیں ہے، بلکہ اصل الفاظ کے لغوی معنی کے ساتھ اپنے خود ساختہ تصور کو شامل کر کے نکال لیا گیا ہے ۔ کیوںکہ ان الفاظ کے لغوی معنی اگرچہ حکم اور اقتدار ہی کے ہیں ۔ مگر جن آیتوں میں یہ الفاظ آئے ہیں ، وہاں ان کا مطلب سیاسی اور تمدنی اقتدار نہیں ہے ، بلکہ وہی فوق الفطری اقتدار ہے، جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اس سلسلے میں کتاب میں تین آیتیں نقل کی گئی ہیں ، پہلی آیت سورہ قصص کی ہے جس میں لہ الحکم کا لفظ آیا ہے،اور اس کا ترجمہ کتاب میں ’’صاحب حکم واقتدار‘‘کیا گیا ہے (صفحہ19)۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پورا متعلقہ ٹکڑا نقل کر دیا جائے ۔ سورہ قصص کی ساتویں رکوع میں یہ بتاتے ہوئے کہ قیامت میں جب تمام انسان حاضر کیے جائیں گے تو وہ لوگ جنھوں نے خدا کا شریک ٹھہرایا تھا وہاں ان کا کوئی مدد گا نہ ہو گا ، ارشاد ہوا ہے :
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشاءُ وَيَخْتارُ مَا كانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحانَ اللهِ وَتَعالى عَمَّا يُشْرِكُونَ . وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ. وَهُوَ اللهُ لا إِلهَ إِلَاّ هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ( 28:68-70)۔ یعنی، تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے ، ان کواس کا اختیار نہیں یہ جو شریک ٹھہراتے ہیں خدا اس سے پاک وبرتر ہے ، اور تیرا رب ان کے چھپے اور کھلے کو جانتا ہے ، وہی اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، دنیا وآخرت میں اسی کی تعریف ہے اور اسی کے لیے حکم ( فیصلہ ) ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔
یہ پورا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں تمدنی اور سیاسی اقتدار کے ذکر کا کوئی موقع نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ حکم ‘‘ کا لفظ یہاں قضا اور فیصلہ کے معنی میں آیا ہے اور اس سے مراد یا تو وہ فیصلہ ہے جو دنیا میں فوق الفطری طور پر تمام اشیاء پر نافذ ہوتا ہے ، یا وہ فیصلہ جو آخرت میں بندوں کے درمیان نافذ ہو گا، مفسرین دونوں طرف گئے ہیں ، مگر اکثریت دوسری تاویل کے حق میں ہے ۔ چند رائیں یہ ہیں
-
- ’’ وَلَهُ الْحُكْمُ‘‘ يَقُولُ: وَلَهُ الْقَضَاءُ بَيْنَ خَلْقِهِ (تفسیر ابن جرير،جلد 19، صفحہ 612)
- أَيِ الْقَضَاءُ بَيْنَ عِبَادِهِ وَالْفَصْلُ (تفسیرالبحر المحیط، جلد 8، صفحہ 321)
- القَضَاءُ بَيْنَ عِبَادِهِ (الكشاف للزمخشری، جلد3،صفحہ428)
- يَحكُمُ لأَهلِ طاعَتِهِ بالمَغفِرَةِ، ولأَهلِ المَعصِيَةِ بالشَّقاوَةِ (تفسیر الخازن،جلد3، صفحہ370)
- القَضاءُ بَينَ عِبادِهِ (مدارك التَّنزيل، جلد2، صفحہ655)
- أي: القَضاءُ النّافِذُ في كُلِّ شَيءٍ مِن غَيرِ مُشارَكَةٍ فيهِ لِغَيرِهِ تعالى (روح المعانی للآلوسی ، جلد10، ص 313)
- القَضاءُ النّافِذُ في كُلِّ شَيء (تفسیر البيضاوی، جلد4، صفحہ184)
لہ الحکم سے فیصلۂ آخرت مراد لینے کی رائے کو اس لیے ترجیح حاصل ہے کہ مشہور صحابی مفسر حضرت عبد اللہ بن عباس سے یہی منقول ہے :
وعن ابن عَبّاس:أي لهُ الحُكمُ بينَ عبادِهِ تعالى، فيَحكُمُ لأهلِ طاعتِهِ بالمغفِرَةِ والفَضل، ولأهلِ مَعصيتِهِ بالشَّقاءِ والوَيل (روح المعانی للآلوسی، جلد10، صفحہ 313)۔ یعنی، عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ لہ الحکم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کو اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کا حق ہے ۔ وہ اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے مغفرت اور انعام کا فیصلہ کرتا ہے اور نا فرمانوں کے لیے بد بختی اور ہلاکت کا۔
دوسری آیت سورہ زمر کی ہے، اور اس میں لہ الملککا لفظ آیا ہے، اس کا ترجمہ کتاب میں’’اقتدارِ حکومت‘‘کیا گیا ہے ۔ سورہ کے شروع میں ان’’اولیاء‘‘کی عبادت پر تنقید ہے، جن کی مشرکین یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ وہ ان کو خدا کا مقرب بنا دیں گے، اور اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے کہ خدا کی کوئی اولاد ہے، جس کا زمین وآسمان کے اختیارات میں کوئی دخل ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے :
خَلَقَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ ۔ خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْها زَوْجَها وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعامِ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ خَلْقاً مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُماتٍ ثَلاثٍ ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لا إِلهَ إِلَاّ هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (39:5-6)۔ یعنی، اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ، وہ رات کو دن پرلپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے ، ہر ایک اپنی مدت مقررہ تک چل رہا ہے ۔ آگاہ ، وہ زبردست ہے بخشنے والا ہے ۔ اس نے ایک جان سے تمہاری پیدائش کی ابتدا کی ، پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا ، اور تمہارے لیے مویشیوں کے آٹھ جوڑے اتارے ، وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں بتدریج تین اندھیروں میں بناتا ہے ۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے اسی کا ہے اقتدار ، اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو۔
یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہاں ملک (اقتدار ) سے مراد وہ اقتدار ہے جو سورج اور چاند کو گردش دے رہا ہے ، جو خلق اور تدبیر کا مالک ہے، نہ کہ سیاسی اور تمدنی اقتدار ۔ چنانچہ مفسرین نے یہی مفہوم لیا ہے ۔ میں امام رازی کے الفاظ نقل کروں گا:
ثُمَّ قَالَ تَعَالَى لَهُ الْمُلْكُ وَهَذَا يُفِيدُ الْحَصْرَ أَيْ لَهُ الْمُلْكُ لَا لِغَيْرِهِ، وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّهُ لَا مُلْكَ إِلَّا لَهُ وَجَبَ الْقَوْلُ بِأَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لِأَنَّهُ لَوْ ثَبَتَ إِلَهٌ آخَرُ، فَذَلِكَ الْإِلَهُ إِمَّا أَنْ يَكُونَ لَهُ الْمُلْكُ أَوْ لَا يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ، فَإِنْ كَانَ لَهُ الْمُلْكُ فَحِينَئِذٍ يَكُونُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَالِكًا قَادِرًا وَيَجْرِي بَيْنَهُمَا التَّمَانُعُ كَمَا ثَبَتَ فِي قَوْلُهُ لَوْ كانَ فِيهِما آلِهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتا (21:22) وَذَلِكَ مُحَالٌ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِلثَّانِي شَيْءٌ مِنَ الْقُدْرَةِ وَالْمُلْكِ فَيَكُونُ نَاقِصًا وَلَا يَصْلُحُ لِلْإِلَهِيَّةِ، فَثَبَتَ أَنَّهُ لَمَّا دَلَّ الدَّلِيلُ عَلَى أنه لا ملك إلا الله، وَجَبَ أَنْ يُقَالَ لَا إِلَهَ لِلْعَالَمِينَ وَلَا مَعْبُودَ لِلْخَلْقِ أَجْمَعِينَ إِلَّا اللَّهُ الْأَحَدُ الْحَقُّ الصَّمَدُ (التفسير الكبير،جلد 26، صفحہ 425)۔ یعنی، پھر فرمایا ’’لہ الملک‘‘، اس سے حصر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ، یعنی اقتدار صرف اسی کا ہے ، کسی اور کا نہیں اور جب ثابت ہو گیا کہ اقتدار اس کے سوا کسی کا نہیں ہے تو یہ کہنا لازم ہو گیا کہ لا الٰہ الا ہو ، کیوں کہ اگر کوئی دوسرا الہٰ ہوتا تو یا تو وہ اقتدار کا مالک ہوتا یا اس کے پاس کوئی اقتدار نہ ہوتا ۔ پس اگر اس کے پاس اقتدار ہوتا تو مختلف اقتدار باہم ٹکرا جاتے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے (21:22)، اور یہ نا ممکن ہے۔ اور اگر دوسرے الہٰ کے پاس کوئی اقتدار نہ ہو تو وہ ناقص ہے اور اس کو الہٰ قرار دینا صحیح نہیں ہو سکتا۔ پس جب دلیل سے ثابت ہو گیا کہ اللہ کے سوا کسی کے پاس اقتدار نہیں تو یہ کہنا ضروری ہوا کہ دنیا کا اور تمام مخلوقات کا صرف ایک الہٰ اور معبود ہے، اس کے سوا کوئی اور الہٰ اور معبود نہیں۔
تیسری آیت سورہ فرقان کی ہے اور اس میں لم یکن لہ شریک فی الملک کے الفاظ آئے ہیں ۔ اس کا ترجمہ کتاب میں ’’ اقتدار حکومت میں اس کا کوئی شریک نہیں ‘‘کیا گیا ہے ۔ مگر یہاں بھی تمدنی اور سیاسی حکمرانی کا کوئی موقع نہیں ۔ آیت کا متعلقہ ٹکڑا حسب ذیل ہے :
تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعالَمِينَ نَذِيراً ۔ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَداً وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً ۔ وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لا يَخْلُقُونَ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً (25:1-3)۔ یعنی، بڑا با برکت ہے وہ جس نے اپنے بندہ پر کتاب فرقان اتاری تاکہ وہ دنیا والوں کے لیے ڈرانے والا ہو ۔ جس کی سلطنت ہے آسمان وزمین میں اور اس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور نہ سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی ہے ۔ اس نے ہر چیز بنائی پھر اس کی تقدیر کی اور لوگوں نے اس کے علاوہ الہٰ بنا لیے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے ، وہ خود ہی پیدا کیے گئے ہیں وہ اپنی ذات کے لیے بھی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ۔ وہ نہ موت وحیات کے مالک ہیں نہ دوبارہ جی اٹھنے کے ۔
یہ سیاق صاف بتا رہا ہے کہ یہاں ’’ ملک ‘‘ کو خدا کے لیے جن معنوں میں خاص کرنے کا ذکر ہے وہ سیاست اور تمدن نہیں بلکہ تخلیق ، نفع نقصان ، تقدیر اشیاء اور موت وحیات کے اختیار ات ہیں ۔ چنانچہ مفسرین نے یہی مفہوم لیا ہے ۔ میں ایک حوالہ نقل کرتا ہوں:
مَا فِيهِمَا مِلْكٌ لَهُ، أَخْبَرَ هُنَا أَ نَّهُ لَهُ مُلْكُهُمَا أَيْ قَهْرُهُمَا وَقَهْرُ مَا فِيهِمَا، فَاجْتَمَعَ لَهُ الْمِلْكُ وَالْمُلْكُ لَهُمَا. وَلِمَا فيهما… وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ تَأْكِيدٌ لِقَوْلِهِ لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَرَدٌّ عَلَى مَنْ جَعَلَ لِلهِ شَرِيكًا (البحر المحيط في التفسير،جلد 8، صفحہ 80)۔ یعنی، زمین وآسمان اور اس کی تمام چیزیں اس کی مقہور ہیں ۔ پس وہی مالک ہے اور اسی کا اقتدار سب کے اوپر ہے ۔ اس کے بعد لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ کا فقرہ اسی پہلے فقرہ کی تاکید ہے اور ان لوگوں کی تردید ہے جنھوں نے خدا کے ساتھ شریک ٹھرائے ہیں۔
ان تینوں آیتوں کے علاوہ بحث کے آخر میں ہم کو مزید چار آیتیں ملتی ہیں، جن میں مصنف کے نزدیک ’’ زیادہ کھول کر ‘‘ اور ’’ زیادہ تصریح ‘‘ کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ’’ الوہیت کے مفہوم میں پادشاہی وحکمرانی کا مفہوم بھی شامل ہے ‘‘ ۔ (صفحہ 25-26)
پہلی آیت حسب ذیل ہے :
قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (3:26)۔ یعنی، کہو خدایا ! ملک کے مالک ، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک لے لیتا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے ۔ تیرے ہی اختیار میں ہے سب بھلائی ۔ بلا شبہ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔
مجھے تسلیم ہے کہ اس آیت میں ’’ ملک ‘‘ کا لفظ دنیوی اقتدار کے معنی میں آیا ہے ۔ مگر کیا محض ’’ دنیوی اقتدار ‘‘ کا لفظ کسی فقرے میں آجانا زیرِ بحث تصور کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس آیت سے جو بات نکلتی وہ صرف یہ ہے کہ اللہ ہی اپنے بالا تر اختیارات کے ذریعہ دنیا کی حکومت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے ۔ وہ ہر چیز پرقادر ہے یہ تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے ۔ مگر اس سے جو چیز ثابت ہوتی ہے وہ اقتدار کا عطیۂ خداوندی ہونا ہے، نہ کہ حصول اقتدار کا امت مسلمہ کا مشن ہونا۔
دوسری آیت یہ ہے :
فَتَعالَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لا إِلهَ إِلَاّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (23:116)۔ یعنی، پس بزرگ ہے اللہ جو کہ بادشاہ حقیقی ہے ۔ اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے ۔
اس آیت سے بھی جو چیز ثابت ہوتی ہے وہ صرف فو ق الفطری الوہیت ہے ۔ آیت کا آخری فقرہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہاں جس چیز کا ذکر ہے وہ عرشِ بریں کا مالک ہونا ہے، نہ کہ تخت سیاسی کا مالک ہونا ۔ سیاسی تخت یا سیاسی حکمرانی کا مسئلہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ مگر اس آیت میں یہ مسئلہ مذکور نہیں ۔
آیت کے پہلے فقرے میں ’’ ملک ‘‘ کا لفظ ہے جس کے معنی بادشاہ کے ہوتے ہیں ۔ مگر آگے پیچھے کے تمام قرائن بتا رہے ہیں کہ یہاں یہ لفظ ’’ سیاسی بادشاہ ‘‘ کے مفہوم میں نہیں آیا ہے۔ بلکہ بادشاہ کائنات یا مالکِ کائنات کے معنی میں آیا ہے ۔ دو حوالے یہاں نقل کیے جاتے ہیں :
الْمَلِكُ هُوَ الْمَالِكُ لِلْأَشْيَاءِ الَّذِي لَا يَبِيدُ وَلَا يَزُولُ مُلْكُهُ وَقُدْرَتُهُ(التفسير الكبير ، جلد23، صفحہ 300)۔یعنی، اس آیت میں ملک کا لفظ تمام اشیاء کا مالک ہونے کے معنی میں آیا ہے جس کی قدرت اور مالکیت کبھی زائل نہیں ہوتی ۔
الْمَلِكُ الْحَقُّ، أَيْ الْحَقِيقُ بِالْمَالِكِيَّةِ عَلَى الْإِطْلَاقِ إِيجَادًا وَإِعْدَامًا، بَدْءًا وَإِعَادَةً، إِحْيَاءً وَإِمَاتَةً، عِقَابًا وَإِثَابَةً، وَكُلُّ مَا سِوَاهُ مَمْلُوكٌ لَهُ مَقْهُورٌ تَحْتَ مَلَكُوتِيَّتِهِ (تفسیرروح المعانی، جلد9، صفحہ 269)۔یعنی، ملک الحق کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہی علی الا طلاق مالک ہونے کا حقدار ہے ، وہی وجود دیتا ہے اور ختم کرتا ہے ، وہی آغاز کرتا ہے اور وہی دُہراتا ہے ، وہی زندہ کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے ، وہی عذاب دیتا ہے اور وہی ثواب دیتا ہے ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے سب اس کے مقہور ہیں اور اس کے اقتدار کے تحت ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ تمام صفات فوق الفطری نوعیت کی ہیں، نہ کہ سیاسی اور تمدنی نوعیت کی ۔ اس لیے اس آیت سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں الہٰ کا لفظ سیاسی اور تمدنی حکمراں کے معنی میں آیا ہے ۔
تیسری آیت یہ ہے :
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِكِ النَّاسِ۔ إِلهِ النَّاسِ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (114:1-6)۔ یعنی، کہو میں پناہ لیتا ہوں لوگوں کے رب کی ،لوگوں کے بادشاہ کی، لوگوں کے الہٰ کی ، وسوسہ ڈالنے والے شیطان کے شر سے ۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے خواہ (وسوسہ ڈالنے والا ) جن ہو یا آدمی۔
یہ تعوذ کی سورہ ہے ۔ یعنی اس میں ان جنوں اور انسانوں سے اور ان چھپے ہوئے شیاطین سے خدا کی پناہ چاہی گئی ہے، جو آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے وسوسوں سے پناہ دینے کا ’’ سیاسی اور تمدنی حکمرانی ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تو صریح طور پر ایک ایسی ہستی کا کام ہے، جو اپنے فوق الفطری ذرائع سے جنات اور انسان پر قابو یافتہ ہو ، اور دلوں تک پر جس کی رسائی ہو۔ اس سورت میں ایک ایسی ہی ہستی کا تصور دلا کر اس سے پناہ مانگنا سکھایا گیا ہے ۔ اس میں الہٰ کے مزعومہ سیاسی پہلو کا کوئی ذکر نہیں ۔
ابن کثیر ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
هٰذِهِ ثَلَاثُ صِفَاتٍ مِنْ صِفَاتِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ : الرُّبُوبِيَّةُ، وَالْمُلْكُ، وَالإِلٰهِيةُ. فَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ وَإِلٰهُهُ، فَجَمِيعُ الْأَشْيَاءِ مَخْلُوقَةٌ لَهُ، مَمْلُوكَةٌ عَبِيدٌ لَهُ. فَأَمَرَ الْمُسْتَعِيذَ أَنْ يَتَعَوَّذَ بِالْمُتَّصِفِ بِهٰذِهِ الصِّفَاتِ، مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ، وَهُوَ الشَّيْطَانُ الْمُوَكَّلُ بِالْإِنْسَانِ. فَإِنَّهُ مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ إِلَّا وَلَهُ قَرِينٌ يُزَيِّنُ لَهُ الْفَوَاحِشَ، وَلَا يَأْلُوهُ جُهْدًا فِي الْخَبَالِ. وَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَهُ اللهُ (تفسير ابن كثير ،جلد8، صفحہ 539)۔یعنی، ربوبیت ، مالکیت، اور الوہیت ، اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں سے تین صفتیں ہیں ۔ پس وہی ہر چیز کا رب اور مالک اور الہٰ ہے ۔ ہر چیز کا وہی خالق ہے سب اس کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں ۔ پس حکم دیا کہ جو ان صفات سے متصف ہستی ہے اسی سے پناہ چاہنے والا شیطان کے مقابلے میں پناہ مانگے ۔ کیوں کہ ہر آدمی کے ساتھ ایک قرین لگا ہوا ہے جو برائیوں کو اس کی نگاہ میں مزین کرتا رہتا ہے اور اس کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتا۔ اور محفوظ وہی رہ سکتا ہے جس کو اللہ محفوظ رکھے۔
چوتھی آیت جو مصنف کے نزدیک تمام آیتوں میں سب سے زیادہ صریح ہے ، وہ یہ ہے :
يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ لا يَخْفى عَلَى اللهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ (40:16)۔ یعنی، (خدا اپنے رسول بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرائے ) جس دن لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ ان کی کوئی بات خدا سے مخفی نہ رہے گی ۔ کس کی حکومت ہے اس دن ۔ صرف اللہ کی جو یکتا اور غالب ہے ۔
اس آیت میں بھی ’’ سیاسی اور تمدنی حکمرانی ‘‘ کا براہ راست کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ خدا کے مقابلے میں سب کے سب عاجز اور بے بس ہیں ۔ ہر چیز دنیا میں چھپی ہوئی ہے، مگر آخرت میں بالکل نمایاں ہو جائے گی ۔ اس کی تشریح میں علامہ آلوسی نے جو الفاظ لکھے ہیں، وہ یہ ہیں :
إنما اختُصَّ المُلكُ بهِ تعالى لأنَّهُ وحدَهُ يَقدِرُ على مُجازاةِ كُلِّ نَفسٍ بما كَسَبَت، ولَهُ العَدلُ التّامُّ فلا يَظلِمُ أحَدًا، ولَهُ التّصرُّفُ فلا يُشغِلُهُ شأنٌ عن شأنٍ، فيُسرِعُ الحِسابَ (تفسير روح المعانی ، جلد12، صفحہ 312)۔ یعنی، اقتدار کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس واسطے خاص کیا کیوں کہ وہی یہ قدرت رکھتا ہے کہ ہر ایک کے کیے کا اسے بدلہ دے اور اسی کا انصاف مکمل انصاف ہے ۔ پس وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہی متصر ف ہے ۔ اس کو ایک کام دوسرے کام سے نہیں روکتا اور وہ جلد حساب کرنے والا ہے ۔
اوپر کے تجزیہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ الہٰ کا لفظ دراصل اس ہستی کے لیے ہے جو انسان کے اشتیاق اور احتیاج کے جذبات کا مرکز ہو ۔ یہ مفہوم یقیناً تقاضا کرتا ہے کہ اسی کو صحیح معنوں میں الہٰ سمجھا جائے جو اقتدار کا مالک ہو۔ مگر یہ اقتدار اصلاً فوق الفطری معنوں میں ہے ۔ کیوں کہ جن توقعات کی بنا پر آدمی کسی کو الہٰ بناتا ہے ان توقعات کو پورا کرنے کے لیے فوق الفطری اقتدار ہی کی ضرورت ہے اس کا قانونی اور سیاسی اقتدار سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ۔ البتہ جیسا کہ آگے آرہا ہے ، اس اتخاذ الہٰ کے بہت سے تقاضے ہیں جو الہٰ بنانے والے کے اپنے حالات کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس میں لازمی طور پر یہ تقاضا بھی شامل ہے کہ جو لوگ خدا پر ایمان لائیں وہ اپنے اجتماعی امور کو خدا کی مرضی کے مطابق بنائیں اور اپنے کسی معاملہ میں اس سے بغاوت کا رویہ اختیار نہ کریں ۔
