بعد کو معلوم ہوا کہ مولانا مودودی نے میرے مضامین بھیجتے ہوئے مجھے ایک خط بھی لکھا تھا ۔ مگر وہ وقت پر مجھے نہ مل سکا ۔ یہ خط مجھے اپریل کے تیسرے عشرہ میں ملا ۔ اس خط کی نقل حسب ذیل ہے ۔
لاہور، 21 مارچ 1963ء
لاہور، 21 مارچ 1963ء
محترمی ومکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے اپنے مضامین ارسال کرنے کے بعد متعدد خطوط میں بار بار مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں آپ کے مضامین پر اظہار رائے کروں ۔ میں نے سر سری طور پر انھیں دیکھنے کے بعد اولین مرحلہ پر آپ سے عرض کر دیا تھا کہ آپ اتنے بلند اور بعید مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ اب آپ سے گفتگو غیر ممکن ولاحاصل ہے ۔ مگر آپ نے میری گزارش تسلیم نہ کی اور برابر اصرار کیے چلے گئے ۔
میں نے دوبارہ آپ کی تحریروں کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ اور اس کے بعد پھر یہی رائے قائم کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ آپ سے تحریری مناظرے میں الجھنا میرے لیے ممکن اورموزوں نہیں ہے ۔ سردست میرے سامنے اپنی محدود قوت وفراغت کا بہتر مصرف موجود ہے ۔ اس لیے میں آپ سے اس سلسلے میں مستقل معذرت چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ مزید مراسلت میں اپنا اور میرا وقت ضائع نہیں فرمائیں گے ۔
آپ کے مضامین آپ کی خدمت میں واپس ارسال کیے جا رہے ہیں ، آپ جس طرح چاہیں انھیں کام میں لا سکتے ہیں ۔
خاکسار
ابو الا علیٰ
