اجتماعی تقاضا
الہٰ اور رب کی بحث میں اوپر جس قسم کے غیر علمی استدلال کا نمونہ آپ نے دیکھا ، اس کی ضرورت مصنف کو صرف اس لیے پیش آئی کہ وہ اسلام کے اجتماعی پہلو کو الٰہ اور رب کی دعوت میں اس کے اصل اورا لدین مفہوم کی حیثیت سے ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ اور چونکہ واقعہ میں ایسا نہیں ہے اس لیے انھیں کمزور دلائل کا سہارا لینا پڑا ۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ اجتماعی مسائل کا اسلامی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے ’’ سیاسی الوہیت ‘‘ یا’’ سیاسی ربوبیت ‘‘ اگرچہ الہٰ اور رب کے مفہوم میں براہ راست شامل نہیں ہیں ، اور اس لحاظ سے یہ با معنی ترکیبیں ہیں ، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کو خدا ماننے کا یہ بھی ایک تقاضا ہے کہ اسی کو اپنی زندگی کا رہنما اور اپنا مطاع تسلیم کیا جائے۔ جو شخص خدا کو زمین وآسمان کا الٰہ اور رب قرار دے۔ وہ اپنے اس اقرار میں جھوٹا ہے ، اگر وہ عملی زندگی میں خدا سے بغاوت کا رویہ اختیار کرے ۔ خدا کو اپنا معبود اور پروردگا ماننے کا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی بالکل اس کے آگے جھک جائے اور اپنے پورے ارادے اور اپنی ساری زندگی کو اس کی مرضی کا تابع کر دے۔ مگر اس بات کو الہٰ اور رب کے اصل مفہوم کی حیثیت سے ثابت کرنا ، اور اس کو اصل مفہوم کا ایک عملی تقاضا قرار دینا۔ دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ کسی لفظ کا جو اصل اور براہ راست مفہوم ہو وہ مطلقاً ہر حال میں مطلوب ہوتا ہے اس سے کسی طرح مفر نہیں۔ جب کہ تقاضا کسی واسطہ کی نسبت سے مطلوب ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ ہر حال میں لازمی نہیں ہوتا۔ اگر واسطہ موجود ہو تو یقیناًمطلوب ہو گا۔ ورنہ سرے سے آدمی کے اوپر اس کی ذمہ داری ہی نہیں ہو گی ۔
اس فرق کو عملی مثال سے زیادہ واضح طورپر سمجھا جا سکتا ہے ۔ جب ایک شخص خدا پر ایمان لائے اور اس کو اپنا الہٰ اور رب قرار دے تو اس پر لازم ہو جائے گا کہ وہ خدا کو فوق الطبیعی معنوں میں واحد الہٰ اور رب سمجھے ۔ اسی پر سارا بھروسہ کرے ، اسی کی بڑائی کا اعتراف کرے ۔ اسی کے احسان مندی کے جذبہ سے سر شار ہو، اور اسی کو اپنے تمام بہترین احساسات کا مرکز بنا لے ۔ اس کے بعد تمدنی اور سیاسی میدان میں اس کے ایمان کا تقاضا اتنا ہی ہو گا جتنا وہ بالفعل تمدن وسیاست سے متعلق ہو ۔ اگر وہ کسی سنسان جزیرِہ میں تنہا ہو تو اس پر اس قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہو گی ۔ اور اگر آبادی کے اندر ہو تو اس پر اتنی ہی ذمہ داری ہو گی جتنا اپنے حالات کے اعتبار سے وہ شرعاً مکلف ہو ۔ جب کہ الوہیت اور ربوبیت اپنے اصل اور اولین مفہوم میں ہر حال میں اس کے لیے ضروری ہے ، وہ کبھی اس سے ساقط نہیں ہو سکتی۔
اگر آپ اصل اور اس کے تقاضے کے اس فرق کو ملحوظ نہ رکھیں اور اسلام کی ایسی تشریح کریں جس میں تقاضہ کو اصلی کی جگہ رکھ دیا گیا ہو یا اصل ا ور تقاضے کو یکساں حیثیت سے پیش کیا گیا ہو۔ تو قدرتی طور پر دونوں آپ کے ذہن میں اپنے اصل مقام سے ہٹ جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ الوہیت اور ربوبیت کا سیاسی تقاضا آپ کے ذہن میں اپنی واقعی حیثیت سے زیادہ مقام حاصل کر لے گا ۔ اور اس کا اصل اور اولین مفہوم اپنی واقعی حیثیت سے کم تر درجہ پر چلا جائے گا ۔ بلکہ اگر سیاسی فضا یا سیاسی طرز فکر سے شعوری یا غیر شعوری تاثر کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوئی ہو تو عین ممکن ہے کہ ذہن پر بس یہی دوسری چیز چھا جائے اور پہلی چیز اس طرح محض برائے نام رہ جائے جیسے کسی پسندیدہ مصرعہ کو مکمل کرنے کے لیے بعض اوقات ایک بے جان سا لفظی مجموعہ اس کے آگے پیچھے لگا دیا جاتا ہے ۔
