اعظم گڑھ15 نومبر 1962ء
محترمی! مولانا صدر الدین صاحب سلام مسنون
آپ کا خط مورخہ 12 نومبر 1962ء ملا، آپ نے لکھا ہے:
’’میں نے زیرِ بحث مسئلے کے بارے میں اپنے خیالات اور دلائل پوری وضاحت سے پیش کر دیے ہیں، اس لیے مزید رد وقدح کی کوئی سعی مفید نہ ہو گی۔‘‘
میں افسوس کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ اس اصل بات کا جواب نہیں ہے۔ جس کے لیے میں نے آپ کو خط لکھنے کی ضرورت محسوس کی تھی۔ میں نے دراصل آپ کی اس بات کے متعلق دریافت کیا تھا ، جو اس سے پہلے مجھے امیر جماعت کی وساطت سے پہنچی تھی، مگر اس کا جواب دینے کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ اپنا موقف بدل کر دوسری بات کہہ دی۔
مسئلہ یہ تھاکہ میں نے چاہا تھا کہ آپ کی تحریر کے بارے میں میرا جو تبصرہ ہے آپ دوبارہ اس پر اظہار خیال فرمائیں۔ اس کے جواب میں مجھے امیر جماعت کا خط مورخہ 13 اکتوبر ملا جس میں مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ آپ کے نزدیک میرے تبصرہ کا ’’طرز‘‘ مناسب نہیں ہے، اس لیے آپ اس کا جواب نہیں دے سکتے۔
اپنا 20اکتوبر کا خط میں نے اسی سلسلے میں آپ کی خدمت میں روانہ کیا تھا اور اس میں مثال کے طور پر اپنے تبصرہ کے ایک حصے کو یاد دلاتے ہوئے آپ سے دریافت کیا تھا کہ مجھے بتائیں کہ اس میں وہ کون سا ’’طرز‘‘ ہے، جس نے میری اس تحریر کو آپ کے لیے ناقابل التفات بنا دیا ہے۔
اس کے جواب میں آپ کو چاہیے تھا کہ میرے تبصرہ کے محولہ ٹکڑے کاتجزیہ کرکے بتاتے کہ دیکھو اس کے ’’طرز‘‘ میں فلاں غلطی پائی جاتی ہے، اس لیے میں اس پر اظہار خیال کرنے سے معذور ہوں۔ اس کے بجائے آپ نے ایک اور بات فرما دی۔ یہ کہ ’’آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ہیں اب مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اپنے اس خط میں اصل مسئلہ کے بارے میں تو آپ نے ایک لفظ نہیں لکھا، البتہ امیر جماعت کے خط کے سلسلے میں ایک قانونی نکتہ نکال کر اس کے بارے میں سات سطریں لکھ ڈالیں، حالانکہ آپ کا یہ اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص سے مجھے یہ شکایت ہو کہ وہ میرے بارے میں نامناسب رویہ اختیار کر رہا ہے، مگر وہ اسے تسلیم نہ کرتا ہو۔ اس کے بعد اتفاق سے متعلقہ مسئلہ پر اس کی ایک دستخط شدہ تحریر مجھ تک پہنچ جائے، اور اس کو پیش کر کے میں کہوں کہ دیکھو یہ خود تمہاری تحریر میرے دعوے کا ثبوت فراہم کر رہی ہے، اس کے جواب میں وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے یا اصل بات کا جواب دینے کے بجائے یہ کہنا شروع کر دے کہ ’’میری ایک نجی تحریر تمہیں پڑھنے کا کیا حق تھا۔‘‘ کاش آپ جانتے کہ اس طرح کی باتیں ہمیشہ آدمی کی اپنی کمزوری کا اعتراف ہوتی ہیں، وہ دوسرے کی تغلیط نہیں کرتیں۔
آپ کی یہ روش میرے لیے سخت حیرت انگیز ہے کہ میں نے اپنے مختصر تبصرہ میں نہایت واضح قسم کی قطعی باتیں آپ کے سامنے رکھی تھیں، مگر آپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا، اور اصل مسئلہ پر خاموش رہ کر دوسری دوسری باتیں کہنا شروع کر دیں۔ کیا آپ کا ضمیر اس پر مطمئن ہے کہ اس طرح کا رویہ اختیار کر کے واقعی آپ خدا اور خلق خدا کے سامنے بری الذمہ ہو گئے ہیں۔ کاش آپ یہ سوچتے کہ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کو اپنے ذہن میں ٹال کر آپ یہ سمجھیں کہ وہ حقیقت میں بھی ٹل گیا۔ وہ بہرحال آپ کی طرف لوٹے گا، پھر کیا اس وقت بھی آپ خاموش رہیں گے۔
خادم وحید الدین
مولانا صدر الدین صاحب کی طرف سے میرے اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ چنانچہ میں نے جلال الدین انصر صاحب (مقیم رامپور) کے نام ایک خط میں اس کی شکایت کی۔ جس کے جواب میں انصر صاحب کا ایک خط مورخہ 11 دسمبر 1962ء مجھے ملا جس میں حسب ذیل الفاظ درج تھے
’’مولانا صدر الدین صاحب کو میں نے آپ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ کا پچھلا خط جواب طلب نہیں تھا، اس لیے انہوں نے جواب نہیں دیا ہے، البتہ آپ سے انہوں نے دو چیزیں طلب کی تھیں لیکن وہ آپ نے نہیں بھیجیں۔
دو چیزوں سے مراد ایک تو مولانا ابو اللیث صاحب کا خط بنام مولانا صدر الدین صاحب دوسرا مولانا صدر الدین صاحب کے جواب پر میرا مفصل تبصرہ، جس کو میں نے اس لیے نہیں بھیجا کہ مولانا صدر الدین صاحب میری اس شرط کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اس کو دیکھنے کے بعد وہ اس کے بارے میں اپنے تبصرہ سے مجھے مطلع کریں گے۔
اس جواب کے بعد میں نے سمجھ لیا کہ اب وہ میرے تبصرہ پر دوبارہ تبصرہ کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہ دوطرفہ افہام و تفہیم کا مرحلہ ختم ہو گیا۔ اب مجھے خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
اس کے بعد میں کچھ دن اس مسئلہ پر غور کرتا رہا۔ بالآخر جس نتیجے پر پہنچا وہ یہ تھا کہ اب غالباً مجھے اپنی کتاب شائع کرنی پڑے گی، چنانچہ مولانا صدر الدین صاحب کو میں نے حسب ذیل خط روانہ کیا۔
