دہلی، 21 فروری 1963ء
دہلی، 21 فروری 1963ء
برادر عزیز السلام علیکم
کئی دن پہلے آپ کا گرامی نامہ ملا تھا۔ رمضان میں بحث و مباحثہ پر طبیعت آمادہ نہیں ہے اور معلوم نہیں کیوں دل میں بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ آپ سے ایک بار ذرا کھل کر بات چیت ہو جائے تو شاید ہم ایک دوسرے کو آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہیں گے۔ اور یوں بھی میں آخر میں آپ سے بات چیت کرنا ہی چاہتا تھا، جیساکہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ اس لیےآپ کے خط کے مندرجات کے بارے میں کچھ عرض کرنے کے بجائے میں آپ سے بھی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ایک بار میں اور آپ زبانی بات چیت کر لیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔ ممکن ہے ہمارے اور آپ کے درمیان بُعد و اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہی ہو کہ کبھی ہم نے کھل کر زبانی بات چیت نہیں کی ہے، اور اب تو مجھے کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کے اعظم گڑھ منتقل ہونے کے بعد ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بدگمانیاں بھی پیدا ہو گئی ہیں۔ جو اختلاف وبُعد میں اضافہ کا موجب بن رہی ہیں۔ اس لیے آخری فیصلہ سے پہلے ایک موقع صاف صاف بات کا ضرور نکالنا چاہیے۔ میں نے اعظم گڑھ کی پچھلی ملاقات میں بھی کچھ اس کی باتیں کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اس کی نوبت اس لیے نہیں آ سکی کہ آپ نے بات لٹریچر تک محدود کر دی اور میں نے بھی سمجھا کہ اب ہمارا اور آپ کا اختلاف ختم ہو رہا ہے، جو بدقسمتی سے غلط ثابت ہوا۔ لیکن میں ابھی اس سے مایوس نہیں ہوا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانیاں رفع کر کے اختلافی مسائل پر کھل کر بات چیت کر لیں تو نہ صرف لٹریچر کے بارے میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر سے قریب آ سکیں گے بلکہ سب ہی اختلافات ان شاء اللہ ختم ہو سکیں گے۔
مجھے ادھر اعظم گڑھ آنے کا کوئی موقع نہیں مل سکے گا۔ رمضان کے بعد میں جنوبی ہند کے دورے پر جا رہا ہوں جہاں سے اوائل اپریل میں ان شاء اللہ واپسی ہو سکے گی۔ جس کے بعد ہی اجتماع شوریٰ کے سلسلے کی مصروفیتیں شروع ہو جائیں گی۔ اس لیے بہتر تو یہ ہو گا کہ آپ شوریٰ کے اجتماع میں شرکت کے لیےآئیں تو اسی موقع پر بات چیت ہوجائے لیکن اگر آپ اس سے پہلے اس سے فارغ ہونا چاہتے ہوں تو اوائل اپریل میں بھی تشریف لا سکتے ہیں۔ کیا میں امید کروں کہ آپ بھی اس بات چیت کی کوئی ضرورت سمجھتے ہیں۔
3 مارچ کو مجھے علی گڑھ بھی جانا ہے، اور بورڈ کا اجتماع بھی 8 مارچ سے پہلے منعقد ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ درمیانی وقت گفتگو کے لیےزیادہ موزوں ہوتا ۔
والسلام ابواللیث
