اسلامی مشن کی تعبیر

پچھلی نصف صدی کے دوران میں جن سماجی نظریات کو قبولیت اور برتری کا مقام حاصل ہوا ہے وہ وہی نظریات ہیں، جو زندگی کے مادی نظام کو درست کرنے اور سیاسی انقلاب بر پا کرنے کے لیے اٹھے ہیں۔ حتی کہ اب وہی تحریک زندہ تحریک سمجھی جاتی ہے جو اس نہج پر کام کر رہی ہو۔ اس سے متاثر ہو کر قدیم مکاتب ِخیال کے لوگ بھی اپنے نظریات کی تشریح اسی مخصوص انداز میں کرنے لگے ہیں ۔ ہندو ازم اور عیسائیت کا جدید لٹریچر اس کی نمایاں مثال ہے ۔ یہ لے اتنی بڑھی ہے کہ اب مذہب تعمیر آخرت کے بجائے تعمیر دنیا کا عنوان بن گیا ہے۔

اگر آپ اس چھائی ہوئی فضا سے متاثر ہوں، اور اس کے بعد اسلام کا مطالعہ کریں تو یہ عین ممکن ہے کہ اسلامی تحریک کا نقشہ آپ کے ذہن میں ٹھیک اسی طرز پر بننا شروع ہو جائے، جو باہر کی دنیا میں آپ دیکھ رہے ہیں ۔ آپ کا ذہن جو نسلی تعلق کی بنا پر پہلے سے اسلام کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت رکھتا تھا، قدرتی طور پر وہ اسلام کو فکر کی اس سطح پر دیکھنا چاہے گا، جو لوگوں کے نزدیک بلند اور مستند سطح ہے ۔ اور جس کی اس حیثیت کو آپ بھی غیر شعوری طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کے بعد جب آپ دیکھیں گے کہ اسلام میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق احکام ہیں ۔ اسلام کی تاریخ میں برسراقتدارطبقہ سے لڑائیاں بھی ہوئی ہیں ، اسلام نے سیاسی قوت بھی حاصل کی ہے— تو ان سب کا مجموعہ آپ کے ذہنی سانچہ میں اسلام کی اس تعبیر کی صورت میں ڈھل جائے گا کہ:

’’اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور انبیاء علیہم السلام اس لیے آئے تھے کہ حکومت الٰہیہ قائم کر کے اس صحیح ترین نظام کو عملاً زمین پر نافذ کریں‘‘۔

اس تعبیر میں بظاہر کوئی ایک لفظ بھی غلط نہیں ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ اسلام کا اپناایک نظام زندگی ہے۔ نبی نے حکومت بھی قائم کی ہے ، اس نے خدا کے دیے ہوئے قوانین کو زمین پر نافذ بھی کیا ہے ۔ مگر ان اجزاء کو جوڑ کر جو مجموعہ تیار کیا گیا ہے، وہ حقیقت کے اعتبار سے ویساہی ہے، جیسے مختلف جانوروں کی ہڈیاں ملا کر ایک نیا ڈھانچہ بنانا، اور دعوی کرنا کہ یہ ایک تاریخی جانور ہے، جو اب سے پانچ کروڑ سال پہلے زمین پر چلتا پھرتا تھا۔

اسلام کے اس تصور کے مطابق دنیا میں اہلِ ایمان کا جو ’’نصب العین‘‘ قرار پاتا ہے، اس کوجماعت اسلامی کی ابتدائی تاسیس کے وقت مندرجہ ذیل فقرے میں بیان کیا گیا تھا:

’’ جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود دنیا میں حکومت الٰہیہ کا قیام اور آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول ہے‘‘۔

  دستور میں نصب العین کے اس فقرے کی تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ:

’’ اس سے مراد اللہ کی شرعی حکومت کا قیام ہے جس کا تعلق انسان کی زندگی کے اس حصے سےہے جس میں اللہ نے انسان کو اختیار عطا کیا ہے ‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عقائد ، اخلاق ، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ سے متعلق جو مفصل قانون خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعہ بھیجا ہے ، اس کو تسلیم کیا جائے ، جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ در اصل خدا کےمقابلے میں بغاوت کا ارتکاب کرتے ہیں اور:

’’مومن کا کام اس بغاوت کو دنیا سے مٹانا اور خدا کی زمین پر خدا کے سوا ہر ایک کی خداوندی ختم کر دینا ہے ۔ مومن کی زندگی کا مشن یہ ہے کہ جس طرح خدا کا قانونِ تکوینی تمام کائنات میں نافذ ہے ، اسی طرح خدا کا قانونِ شرعی بھی عالم انسانی میں نافذ ہو ۔ مومن کی تما م مساعی کا ہدف مقصود یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو خدا کے سوا ہر ایک کی بندگی سے نکالےاور صرف خدا کا بندہ بنائے ۔ یہ کام فی الاصل تو نصیحت، فہمایش، ترغیب اور تبلیغ ہی سےکرنے کا ہے ، لیکن جو لوگ ملک خدا کے ناجائز مالک بن بیٹھے ہیں اور خدا کے بندوںکو اپنا بندہ بنا لیتے ہیں، وہ عموماً اپنی خداوندی سے محض نصیحتوں کی بنا پر دست بردار نہیں ہو جایا کرتے ۔ اس لیے مومن کو مجبوراً جنگ کرنی پڑتی ہے، تاکہ حکومت الٰہیہ کے قیام میں جو چیز سد راہ ہو، اسے راستے سے ہٹا دے‘‘۔

ملک کی تقسیم کے بعد جب ہندوستان کی علحٰد جماعت قائم ہوئی تو یہاں کے رہنماؤں نے نصب العین کے فقرے میں کچھ تبدیلی کر دی اور اس کو مندرجہ ذیل الفاظ میں ظاہر کیا ۔

’’جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود دنیا میں اقامت دین (اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنا) اور آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول ہے‘‘۔

اس تبدیلی کا مطلب نصب العین کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ یہ محض ایک لفظی تبدیلی تھی۔ چنانچہ دستور میں تبدیل شدہ فقرے کے نیچے حسب ذیل نوٹ درج کیا گیا:

’’دستور جماعت میں اس سے پہلے اقامت دین کے بجائے حکومت الٰہیہ کا لفظ تھا جو دراصل اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا تھا جو اقامت دین کا ہے، لیکن چوں کہ حکومت الٰہیہ کے لفظ کے سمجھنے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور کرائی جاتی ہیں اس لیے ضرورت سمجھی گئی کہ اپنے نصب العین کے اظہار کے لیے ایسا لفظ اختیار کیا جائے جو قرآن کا ایک اصطلاحی لفظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام مفہوموں پر حاوی بھی ہو اور کسی غلط فہمی کاباعث بھی نہ ہو‘‘۔

 اب یہی نصب العین جماعت اسلامی ہند کے موجودہ دستور میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

’’ جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے۔ جس کا حقیقی محرک صرف رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے..... یہ دین انسان کے ظاہر و باطن، اور اس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔ عقائد، عبادات ، اور اخلاق سے لے کر معیشت ، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جو اس کے دائرے سے خارج ہو ۔

یہ دین جس طرح رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا ضامن ہے ، اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لیے بہترین نظام زندگی بھی ہے، اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صالح اور ترقی پذیر تعمیر صرف اسی کے قیام سے ممکن ہے ۔

اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہو کر کی جائے اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ — فرد کا ارتقا ، معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو‘‘۔

 یہی بات اس فکر کے تحت پیدا شدہ لٹریچر میں بار بار مختلف انداز سے دہرائی گئی ہے ایک مضمون کے چند فقرے یہ ہیں :

’’ اسلام (عام معنوں میں ) کسی مذہب کا اور مسلمان کسی قوم کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ در اصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق تعمیر کر نا چاہتا ہے اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت کا نام ہے، جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے۔ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد کا ، اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے، جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عمل میں لائی جائے ‘‘۔

’’یہ دعوت جو لوگ بھی قبول کر لیں وہ .......... اسلامی جماعت کے رکن بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ بین الاقوامی انقلابی پارٹی تیار ہوتی ہے جسے قرآن حزب الله کے نام سے یا د کرتا ہے ..........یہ پارٹی وجود میں آتے ہی اپنے مقصد وجود کی تحصیل کے لیے جہاد شروع کر دیتی ہے۔ اس کے عین وجود کا اقتضاء یہی ہے کہ یہ غیر اسلامی نظام کی حکمرانی کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس کے مقابلے میں تمدن و اجتماع کے اس معتدل و متوازن ضابطہ کی حکومت قائم کرے جسے قرآن ایک جامع نام کلمۃ اللہ سے تعبیر کرتا ہے ‘‘۔

’’ یہ مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی جماعت نہیں بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے۔ اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا سے ظلم ، فتنہ ، فساد ، بد اخلاقی ، طغیان اور ناجائز انتفاع کو بزور مٹا دے، ارباب من دون اللہ کی خدا وندی کوختم کر دے اور بدی کی جگہ نیکی قائم کرے۔ لہٰذا اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ، کیوں کہ مفسدانہ نظامِ تمدن ایک فاسد حکومت کے بل پرہی قائم ہوتا ہے اور ایک صالح نظام ِتمدن اس وقت تک کسی طرح قائم نہیں ہو سکتا جب تک حکومت مفسدین سے مسلوب ہو کر مصلحین کے ہاتھ میں نہ آجائے ۔

)تفہیمات ،حصہ 1،  جہاد فی سبیل اللہ(

یہاں میں ایک اور اقتباس نقل کروں گا جس میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اس نقطۂ نظر کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسلامی نصب العین کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

’’ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں جو کچھ دیا گیا ہے وہ یہ ہے :

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ (9:33)۔ یعنی، وہی ہے ( یعنی اللہ ) جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ، تاکہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے۔ خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی نا گوار ہو۔

اس آیت میں اَلھُدیٰ سے مراد دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے ۔ انفرادی برتاؤ ، خاندانی نظام ، سوسائٹی کی ترکیب ، معاشی معاملات ، ملکی انتظام ،سیاسی حکمت عملی، بین الاقوامی تعلقات ، غرض زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کی زندگی کے لیے صحیح رویہ کیا ہونا چاہیے، یہ چیز اللہ نے اپنے رسول کو بتا کر بھیجا ہے ۔

دوسری چیز جو اللہ کا رسول لے کر آیا ہے وہ دین حق ہے ۔ دین کے معنی اطاعت کے ہیں۔ کِیش اور مذہب کے لیے جو دین کا لفظ استعمال ہوتا ہے یہ اس کا اصل معنی موضوع لہٗ نہیں ہے بلکہ اس کو دین اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں بھی انسان خیال و عمل کے ایک خاص سسٹم کی اطاعت کرتا ہے۔ ورنہ در اصل دین کا لفظ قریب قریب و ہی معنی رکھتا ہے جو زمانہ ٔحال میں ’’اسٹیٹ ‘‘کے معنی ہیں ۔ لوگوں کا کسی بالاتر اقتدار کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کرنا، یہ ’’اسٹیٹ ‘‘ہے۔ یہی دین کا مفہوم بھی ہے، اور’’ دین حق‘‘ یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کی، خود اپنے نفس کی ، اور تمام مخلوقات کی بندگی و اطاعت چھوڑ کر صرف اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرے اور اسی کی بندگی و اطاعت اختیار کرے۔ پس در حقیقت اللہ کا رسول اپنے بھیجنے والے کی طرف سے ایک ایسے ’’اسٹیٹ‘‘ کا نظام لے کر آیا ہے ۔ جس میں نہ تو انسان کی خود اختیاری کے لیے کوئی جگہ ہے ، نہ انسان پر انسان کی حاکمیت کے لیے کوئی مقام بلکہ حاکمیت و اقتدار اعلیٰ جو کچھ بھی ہے صرف اللہ کے لیے ہے ۔

پھر رسول کے بھیجنے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اس نظام ِاطاعت ( دین ) اور اس قانونِ حیات (الہدیٰ ) کو پوری جنس ِدین پر غالب کر دے۔ پوری جنس ِدین سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر جن جن صورتوں سے کسی کی اطاعت کر رہا ہے وہ سب ’’جنس ِدین ‘‘کی مختلف انواع ہیں۔ بیٹے کا والدین کی اطاعت کرنا ،بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا ، نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا ، ماتحت کا افسر کی اطاعت کرنا ، رعیت کا حکومت کی اطاعت کرنا ، پیروؤں کا پیشواؤں اور لیڈروں کی اطاعت کرنا، یہ اور ایسی ہی بے شمار اطاعتیں بحیثیت مجموعی ایک نظام ِاطاعت بناتی ہیں اور اللہ کی طرف سے رسول کے آنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پورانظامِ اطاعت اپنے تمام اجزاءسمیت ایک بڑی اطاعت اور ایک بڑے قانون کے ماتحت ہو جائے ، تمام اطاعتیں اللہ کی اطاعت کے تابع ہوں،ان سب کو منضبط (Regulate)کرنے والا ایک اللہ ہی کا قانون ہو ، اور اس بڑی اطاعت اور اس ضابطۂ قانون کی حدود سے باہر کوئی اطاعت باقی نہ رہے۔

یہ رسول کا مشن ہے اور رسول اس مشن کو پورا کرنے پر مامور ہے خواہ شرک کرنے والے اس پر کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں۔ شرک کرنے والے کون ہیں؟ وہ سب لوگ جو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ دوسری مستقل بالذات (یعنی خدا کی اطاعت سے آزاد ) اطاعتیں شریک کرتے ہیں۔ جہاں تک اللہ کے قانون طبعی(Law of Nature)کا تعلق ہے۔ ہر انسان طوعاً و کرہاً اس کی اطاعت کر رہا ہے، کیوں کہ اس کی اطاعت کے بغیر اس کے لیےکوئی چارہ ہی نہیں ہے ۔ مگر جہاں تک انسان کے دائرہ اختیار کا تعلق ہے، اس دائرے میں بعض انسان تو بالکل ہی غیر اللہ کے مطیع بن جاتے ہیں اور بعض انسان اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے کسی حصہ میں خدا کے بھیجے ہوئے قانون اخلاقی (شریعت) کی اطاعت کرتے ہیں اور کسی دوسرے حصہ میں اپنے نفس کی یا دوسروں کی اطاعت کرتے ہیں۔ اسی چیز کا نام اللہ کی اطاعت کے ساتھ دوسری اطاعتوں کو شریک کرنا ہے ۔ اور جو لوگ شرک کی ان مختلف صورتوں میں مبتلا ہیں ان کو یہ بات ناگوار ہوتی ہے کہ اپنی فطری اطاعت کی طرح اپنی اختیاری اطاعت و بندگی کو بھی بالکلیہ اللہ کے لیے خالص کر دیں۔ خواہ نادانی کے سبب سے یا اخلاقی کمزوری کے سبب سے، بہرحال وہ شرک پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کے رسول پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کی مزاحمت کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرے ۔ ( مسلمان اور سیاسی کشمکش، جلد 3، اسلام کی راہ راست اور اس سے انحراف کی راہیں)

 اوپر کے اقتباسات میں جو بات کہی گئی ہے وہ اصلاً کوئی غلط بات نہیں ہے ۔ لیکن جب اسی کو علی الاطلاق اہل ایمان کا نصب العین قرار دیا جائے تو یقیناً وہ غلط ہو جاتی ہے ۔ کیوں کہ مومن کی زندگی کا اصل مقصد خدا سے تعلق پیدا کرنا ہے ، خدا سے انتہائی طور پر لپٹ جانا ، اس سے ہمہ تن متعلق ہو کر زندگی گزارنا، یہی وہ اصل مقصود ہے، جس کے لیے انسان کی تخلیق عمل میں آئی ہے۔ اور یہی وہ چیزہے جس کو پانے کے لیے مومن کو اپنی ساری توجہ صرف کرنی چاہیے۔ دنیا میں مومنانہ عمل کا اصل نشانہ خدا سے جڑنا ہے، نہ کہ کسی مخصوص اسٹیٹ کا نظام قائم کرنا ۔

  اجتماعی انقلاب بر پا کرنا یا زندگی کے نظام کو قسط و عدل پر قائم کرنا، ایمان کا ایک تقاضا ہے جو مختلف حالات میں مختلف شکل اختیار کرتا ہے ۔ میرا یہ حال ہے کہ جب میں سڑک پر چلتا ہوں اور لاؤڈاسپیکر پر بجتے ہوئے فلمی گانے کی آواز میرے کان میں آتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ کاش میرے پاس وہ طاقت ہوتی جس سے میں اس خرافات کو بالکل بند کر دیتا۔ جب میں روزانہ اخبار پڑھتا ہوں اور اس میں دیکھتا ہوں کہ شیاطینِ انس نے لیڈر اور رہنما بن کر زمین کو فساد سے بھر دیا ہے تو دماغ جیسے کھولنے لگتا ہے اور یہ تمنا ابھر آتی ہے کہ کوئی ایسی شکل ہوتی کہ ان مفسدین سے زمین کو پاک کیا جا سکتا۔ جب میں عوام الناس کو دیکھتا ہوں کہ وہ انسان کے بنائے ہوئے احمقانہ قوانین کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور غلط معاشی نظام کے نیچے پِس رہے ہیں۔ تو سارے بدن میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس جال کو توڑ ڈالوں اور اس نظام کو تہس نہس کر دوں، جب میں دیکھتا ہوں کہ وقت کا با اقتدار طبقہ اقتدار پاکر فرعون بن گیا ہے اور ملکی اور بین الاقوامی زندگی کو جہنم بنا دیا ہےتو بے اختیار جی چاہتا ہے کہ کاش میرے لیے یہ ممکن ہوتا کہ میں ان تمام مجرمین کو جیل بھیج دیتا اور انسانیت کو ان کے تخت و تاراج سے رہائی دلا دیتا۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ اشرار کی قیادت نے دنیا کا یہ حال کر دیا ہے کہ زمین کے بہترین ذرائع و وسائل صرف جنگی تیاریوں میں برباد کیے جارہے ہیں، اور سیاست صرف اس کا نام رہ گئی ہے کہ ہر ممکن طریقہ سے اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کی کوشش کی جائے، تو جی چاہتا ہے کہ ایسے حکمرانوں کو خود انھیں کے تیار کیے ہوئے ان آتشیں گڑ ہوں میں دھکیل دوں جو انھوں نے اپنے فرضی دشمنوں اور سیاسی مخالفوں کے لیے بنا رکھے ہیں ۔

ممکن ہے میرے ان جذبات میں کچھ انتہا پسندی ہو ۔ مگر میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں ایمان پیدا ہوا ہے تو وہ خارجی حالات کے بارے میں اس قسم کے احساسات سے خالی نہیں ہو سکتا، مومن کی لازمی صفت ہے کہ وہ دنیا کے بگاڑ کو دیکھ کر کُڑھے ، اس کی اصلاح کی تدبیر سوچے ۔ اس کو دور کرنے کے لیے اپنے بس بھر کوشش کرے ۔ لیکن اگر کوئی شخص کہے کہ یہی اہل ایمان کا اصل مشن ہے اور یہی وہ اصل کام ہے جس کے لیے تمام انبیاء بھیجے گئے تھے، تو میں کہوں گا کہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے جتنا یہ کہنا کہ خارجی بگاڑ کا مسلمان سے کوئی تعلق نہیں ، اس کے بارے میں اسے کچھ سوچنا نہیں چاہیے۔  اگر آپ ایک ایسے مکان میں داخل ہوں جس میں ہر طرف غلاظت اور کوڑا کرکٹ بھرا ہوا ہو تو بے شک نظافت ِایمانی کا تقاضا ہے کہ آپ اس کو شدت کے ساتھ محسوس کریں اور اس کو نکال پھینکنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔لیکن اگر آپ یہ کہنے لگیں کہ — ’’ا یمان کا اصل مقصود یہ ہے کہ گھروں کی صفائی کی جائے‘‘۔ تو یہ بات بجائے خودبالکل لغو ہو گی اور اس قابل ہو گی کہ اس کی تردید کی جائے ۔

یہی وجہ ہے کہ اجتماعی اصلاح اور تمدنی انقلاب کی بات ایک معلوم و معروف بات ہونے کے باوجود’’ اسلامی مشن ‘‘کی حیثیت سے ثابت نہیں ہوتی۔ اسلامی مشن کا یہ تصور کہ اسلام ایک بہترین سیاسی اور تمدنی نظام ہے، اور اس نظام کو جاری ونا فذ کرنا وہ کام ہے جو خدا کی طرف سے ہمارے سپرد ہوا ہے ، یہ اسلامی مشن کا ایک ایسا تصور ہے جس سے قرآن کے صفحات نا آشنا ہیں، مجھے کتاب الٰہی میں کوئی ایک فقرہ بھی ایسا نہیں ملا جس سے اس نقطہ کو واقعی طور پر اخذ کیا جا سکتا ہو۔ اس سلسلے میں جن آیتوں کے حوالے دیے جاتےہیں ۔ ان کو اگلے صفحات میں نقل کر کے ان پر مختصر گفتگو کروں گا۔

ا۔ پہلی آیت ہے:

وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً(2:143)۔ یعنی، اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں کے اوپر گواہ ہو، اور رسول تم پر گواہ ہو۔

اس آیت کو سمجھنے کے لیے جب ہم علمائے تفسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تقریباً سب کے سب اس میں شہادت سے مراد ایک ایسا کام لیتے ہیں، جس کا تعلق اس دنیا سے نہیں بلکہ آخرت سے ہے ۔ یعنی یہ کہ قیامت میں سابق انبیاء اور ان کی مخالف قوموں کے مقدمہ میں امّت محمدؐ شاہد کی حیثیت سے پیش کی جائے گی۔ اس تفسیر کی بنیا د ان روایات پر ہے جن میں خبر دی گئی ہے کہ

’’قیامت کے روز بعض ایسے نبی ہوں گے جن کے ساتھ صرف ایک یا دو یا اس سے کچھ زیادہ ایمان لانے والے ہوں گے، بقیہ پوری قوم نے ان کا انکار کیا ہوگا۔ پھر اس قوم کو بلایا جائے گا جس کی طرف وہ مبعوث کیے گئے تھے۔ قوم سے پوچھا جائے گا، کیا تم کو ہمارا پیغام پہنچا تھا۔ قوم کے لوگ جواب دیں گے، نہیں۔ پھر نبی سے پوچھا جائے گا، وہ کہے گا ہاں۔ میں نے پہنچا دیا تھا۔ پوچھا جائے گا کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ نبی اس کے جواب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کا نام لے گا۔ پھر آپ اور آپ کی امت بلائی جائے گی اور اس سے پوچھا جائے گا۔ کیا اس نبی نے اپنا پیغام رسالت اپنی قوم تک پہنچا دیا تھا، وہ جواب دیں گے ہاں ، پھر ان گواہوں سے پوچھا جاے گا کہ تمہارا زمانہ تو بعد کا ہے ، تم کو کیسے معلوم ہوا ۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے رسول نے ہم کو اس کی خبر دی تھی ۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا  وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ (2:143) (ایک اور روایت کے مطابق ) اس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے امت کا حال دریافت کیا جائے گا تو آپ امت کے عادل ہونے کی گواہی دیں گے۔یہ مطلب ہے اس آیت کا  وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً‘‘۔(مسند احمد، حدیث نمبر 11558، 11283)

 اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے علامہ آلوسی بغدادی لکھتے ہیں:

لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ أي سائر الأمم يوم القيامة بأن الله تعالى قد ‌أوضح ‌السبل وأرسل الرسل فبلغوا ونصحوا وهو غاية- للجعل- المذكور (تفسير روح المعاني ، جلد، 1، صفحہ404)۔ یعنی، شہادت سے مراد قیامت کے روز تمام گمراہ قوموں کے بارے میں اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا راستہ ان کے سامنے واضح کر دیا تھا ، اور رسول بھیجے جنھوں نے حق کو پہنچایا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا ۔ آیت میں جَعَلْنَاکے لفظ سے اس امت کے جس تقرر کا ذکر کیا گیا ہے اس کا مقصدیہی ہے ۔

ابو حیان اند لسی نے اس آیت کے سلسلے میں علما کی تشریحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

أَحَدُهَا:مَا عَلَيْهِ الْأَكْثَرُ مِنْ أَنَّهَا فِي الْآخِرَةِ،وَهِيَ ‌شَهَادَةُ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِلْأَنْبِيَاءِ عَلَى أُمَمِهِمُ الَّذِينَ كَذَّبُوهُمْ، وَقَدْ رُوِيَ ذَلِكَ نَصًّا فِي الْحَدِيثِ فِي الْبُخَارِيِّ وَغَيْرِهِ (البحر المحيط، جلد2، صفحہ 12)۔ یعنی، ایک رائے یہ ہے ، اور بیشتر علمائے تفسیر اسی کے حق میں ہیں کہ اس شہادت کا تعلق آخرت سے ہے اور وہ یہ کہ پچھلی قومیں جنھوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی تھی۔ ان کے خلاف یہ امت انبیاء کی طرف سے بطور گواہ پیش ہو گی۔ شہادت کی یہ تفسیر بخاری اور دوسری کتب حدیث کی روایات سے ثابت ہے ۔

تاہم اس آیت میں ایک مزید مفہوم لینے کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت میں لوگوں سے جو گرفت ہو گی ، وہ ظاہر ہے کہ اسی بنیاد پر ہو گی کہ دنیا میں انھیں حق کا پیغام پہنچا تھا، مگر اس کے باوجود انھوں نے نہیں مانا۔ دوسرے لفظوں میں گمراہ قوموں کے بارے میں آخرت کی عدالت میں جس واقعہ کی شہادت دی جائے گی، وہ ایک ایسا واقعہ ہو گا جو پہلے اسی دنیا میں پیش آچکا تھا ، اس طرح آخرت کی شہادت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں حق کی شہادت دی جا چکی ہو۔(۱)دنیا میں شہادت دینے یا آخرت میں پیش آنے والے مقدمہ سے لوگوں کو باخبر کرنے کا یہ کام پہلے پیغمبروں کے ذریعہ انجام پاتا تھا۔ اور ختم نبوت کے بعد امت محمدی اس کی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ بعض شاذ تفسیریں اس قسم کی بھی ملتی ہیں جن میں شہادت کا یہ دنیوی مفہوم بتایا گیا ہے ۔ ابو حیان اندلسی نے ایک رائے مندرجہ ذیل الفاظ میں نقل کی ہے :

وَقِيلَ:مَعْنَاهُ لِتَنْقُلُوا إِلَيْهِمْ مَا عَلِمْتُمُوهُ مِنَ الْوَحْيِ وَالدِّينِ كَمَا ‌نَقَلَهُ ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم  (البحر المحيط، جلد2، صفحہ 12)۔ یعنی،بعض لوگوں نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ دین کا جو علم تمھیں ملا ہے اس کودوسروں تک اس طرح منتقل کر و جیسے رسول نے اسے تم تک پہنچایا ہے ۔

اس مفہوم کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ خواہ اس مخصوص آیت میں اس کام کا ذکر نہ ہو۔ مگر علم دین کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری ایک معلوم ذمہ داری ہے، جو دوسرے نصوص سے ثابت ہے ، اور یہ بھی صریح نص سے ثابت ہے کہ تبلیغ و دعوت کا یہ کام اسی لیے انجام دینا ہے کہ آخرت میں لوگوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا مقدمہ قائم ہو سکے:

رُسُلاً مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَاّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی، رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے اوپر کوئی حجت باقی نہ رہے ۔

اگر ہم شھادۃ کی آیت میں ان ساری گنجا ئشوں کو مان لیں تو اس کے بعد بھی جو چیز ثابت ہوتی ہےوہ صرف دعوت و تبلیغ یا انذار و تبشیر ہے۔ یعنی یہ کہ لوگوں کو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا جائے کہ مرنے کے بعد آخرت آنے والی ہے اور حساب و کتاب ہونا ہے، تا کہ جب لوگ میدان حشر میں اکٹھا کیے جائیں، اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس ہو تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ ہم سے ایسی چیز کا حساب لے رہے ہیں، جس سے ہم کو باخبر نہیں کیا گیا تھا— حکومت الٰہیہ قائم کرنے کا مشن پھر بھی اس آیت سے نہیں نکلتا۔

2۔ دوسری آیت جو اس سلسلے میں پیش کی جاتی ہے ۔ وہ حسب ذیل ہے :

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ وَما وَصَّيْنا بِهِ إِبْراهِيمَ وَمُوسى وَعِيسى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ(42:13)۔ یعنی، خدا نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو اور ابراہیم کو اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا ، اور اے محمد تمہاری طرف بھی ہم نے اس کی وحی کی ہے ، یہ کہ اس دین پر قائم رہو اور اس میں متفرق نہ ہو۔

اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اس میں الدین سے مراد وہ سارے انفرادی و اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی احکام ہیں جواسلامی شریعت میں ملتے ہیں۔ اور اقامت کا مطلب ہے ان کو قائم کرنا اس طرح یہ آیت پورے شرعی نظام کو مکمل طور پر انسانی زندگی میں غالب و  نافذ کرنے کا حکم دے رہی ہے۔

 اقامت کا اصل مفہوم ہے — کسی کام کا حق ادا کرنا ، اس کو ٹھیک ٹھیک انجام دینا:إِقامَةُ الشَّيءِ:تَوْفِيَةُ حَقِّهِ ( المفردات في غريب القرآن ،صفحہ692)

خارجی حکم کے نفاذ کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ مگر اس کا اصل مفہوم متعلقہ فعل کی مکملانجام دہی ہے، نہ کہ اس کا نفاذ۔ حدیث میں آتا ہے کہ سورہ مومنون کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں تو آپ نے فرمایا:

‌لَقَدْ ‌أُنْزِلَ ‌عَلَيَّ ‌عَشْرُ آياتٍ مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الجَنَّةَ (مستدرك الحاکم،حدیث نمبر 3521)۔ یعنی،مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ۔ جو ان کی اقامت کرے وہ جنت میں جائے گا۔

ان دس آیتوں میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ یہ ہیں- نماز میں خشوع اختیار کر نا، لغو سے پرہیز کرنا۔ زکوٰۃ پر عامل ہونا ، شرمگاہ کی حفاظت کرنا ، امانت اور عہد کو پورا کرنا ، نمازوں کی نگہبانی کرنا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام انفرادی نوعیت کے احکام ہیں ، اس لیے ان کو غالب اور نافذ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔ یہاں ’’اقامت ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو پوری طرح اختیار کر لیا جائے ۔ ان کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر شامل کیا جائے ۔

آیت کی مذکورہ تفسیر ایسی تفسیر ہے، جو میرے علم کی حد تک کسی قابل ذکر مفسر نے اب تک نہیں کی ہے۔ تمام علمائے تفسیر اس آیت میں الدین سے مراد اصل دین یا دین کی بنیادی تعلیمات لیتے ہیں، نہ کہ کل دین ۔ ان کے نزدیک یہاں اقامت دین سے مراد سارے شرعی نظام کو لوگوں کے اوپر قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ دین کے اس بنیادی حصہ کو پوری طرح اختیار کرنا ہے جو ہر شخص سے اور ہر حال میں لازمی طور پر مطلوب ہے۔ اور جس کو اپنی زندگی میں پوری طرح شامل کر لینے کے بعد کوئی شخص خدا کی نظرمیں مسلمان بنتا ہے: .......المُرادُ سائرُ ما يكونُ المَرءُ بإِقامَتِهِ مُسلِمًا‘‘ (الکشاف للزمخشری، جلد4، صفحہ215؛ مدارک التنزیل للنسفی، جلد3، صفحہ248)۔

 زیرِ بحث تعبیر کے حلقہ میں اس آیت کا ترجمہ’’ دین قائم کرو ‘‘کیا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ غلط تو نہیں ہےمگر وہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ ترجمہ کے یہ الفاظ خاص طور پر زیرِ بحث تعبیر کے پیدا کردہ فکر کے پس منظر میں یہ مفہوم اختیار کرلیتے ہیں کہ’’ دین کو غالب اور نافذ کرو ‘‘ یا یہ کہ’’ اپنی ذات سے لے کر ساری دنیا تک اسے زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرو‘‘۔ حالانکہ أَقِيمُو الدِّينَ کے فقرے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ اصل مفہوم کے اعتبار سے ارد و میں اس کا زیادہ بہتر ترجمہ یہ ہو گا ’’دین پر قائم رہو‘‘۔ چنانچہ اردو مترجمین نے عام طور پر اس کا ترجمہ ’’دین قائم کرو‘‘ نہیں کیا ہے۔ بلکہ تقریباً سب کا ترجمہ وہی ہے، جو ہم نے اپنے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ چند مشہور علما کے ترجمے یہاں نقل کیے جاتے ہیں:

شاہ عبدالقادرؒ           یہ کہ قائم رکھو دین اور پھوٹ نہ ڈالو ۔

شاہ رفیع الدینؒ          یہ کہ قائم رکھو دین اور مت متفرق ہو بیچ اس کے ۔

عبدالحق حقانی  ؒ          اسی دین پر قائم رہنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔

اشرف علی تھانویؒ       اسی دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔

ڈپٹی نذیر احمدؒ            اسی دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔

شیخ الہند محمود الحسن ؒ               قائم رکھو دین کو اور اختلاف نہ ڈالو اس میں ۔

یہاں ’’الدین‘‘ سے اساسات دین مراد ہونے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اگلی آیات میں دین حق کے بالمقابل دین باطل کے جو اجزاء بیان کیے گئے ہیں وہ صرف بنیادی امور سے متعلق ہیں، یہ امور قرآن کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں:

مُحاجَّةٌ فِي اللهِ(42:16)، مِراءٌ فِي السّاعَةِ (42:18) حرث دنیا کی طلب (42:20)۔

 ان تینوں باتوں کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا ہے:

أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللهُ (42:21)۔ یعنی، کیا ان کے کچھ دوسرے خدا ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔

علامہ آلوسی بغدادی نے یہاں دین شرک سے یہی تین چیزیں مراد لی ہیں، ان کے الفاظ یہ ہیں :

’’أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ‘‘ ما لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللهُ كالشِّركِ وإنكارِ البَعْثِ والعَمَلِ للدُّنيا (تفسير روح المعاني ، جلد3، صفحہ 28)۔ یعنی، شرکاء نے ان کے لیے جو دین باطل وضع کیا ہے ، وہ ہے — شرک، آخرت کا انکار اور دنیا کے لیے عمل کرنا۔

دین باطل کے یہ بنیادی اجزاء بتا رہے ہیں کہ دین حق کے وہ بنیادی اجزاء کیا ہیں جن کی طرف مشرکین کو اس کے بجائے دعوت دی جا رہی ہے—  وہ ہے توحید، دوسری زندگی کا یقین اور آخرت کے لیے عمل۔ ان تین اجزاء کی طرف دین حق سے متعلق آیتوں میں بھی اشارے موجود ہیں ملاحظہ ہو مذکورہ سورہ  الشوری کی چوتھی ، ساتویں اور بارہویں آیت۔

اس رائے کی بنیاد آیت کے الفاظ ہیں۔ کیوں کہ پوری آیت کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسے دین کی اقامت کا حکم دیا جا رہا ہے، جو حضرت نوح سے لے کر آخری رسول تک تمام انبیاء پر اترا تھا، اب چوں کہ مختلف انبیاء پر نازل کی جانے والی تعلیمات اپنی پوری شکل میں یکساں نہیں تھیں۔ عقائد اور بنیادی اصولوں کی حد تک تو ان سب کا دین بالکل ایک تھا، مگر تفصیلی شریعت اور عملی احکام میں ان کے درمیان کافی فرق تھا، اس لیے حکم کے الفاظ کے مطابق اس سے دین کا وہی حصہ مراد ہو سکتا ہے، جو سب میں مشترک رہا ہو، امام رازی لکھتے ہیں:

أَنَّهُ عَطَفَ عَلَيْهِ ‌سَائِرَ ‌الْأَنْبِيَاءِ وَذَلِكَ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ هُوَ الْأَخْذُ بِالشَّرِيعَةِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهَا بَيْنَ الْكُلِّ (تفسير الرازي،جلد 27 ،صفحہ 587)۔ یعنی، حضرت نوح پر تمام انبیاء کا عطف ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکم کا مطلب شریعت کے اس حصہ پر پوری طرح عامل ہونا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان متفق علیہ ہے۔

چنانچہ امام رازی نے آیت کی تشریح مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے:

’’وَأَقُولُ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مِنْ هَذَا الدِّينِ شَيْئًا مُغَايِرًا لِلتَّكَالِيفِ وَالْأَحْكَامِ، وَذَلِكَ لِأَنَّهَا مُخْتَلِفَةٌ ‌مُتَفَاوِتَةٌ قَالَ تَعَالَى:لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً (الْمَائِدَةِ48: (فَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مِنْهُ الْأُمُورَ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الشَّرَائِعِ، وَهِيَ الْإِيمَانُ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْإِيمَانُ يُوجِبُ الْإِعْرَاضَ عَنِ الدُّنْيَا وَالْإِقْبَالَ عَلَى الْآخِرَةِ وَالسَّعْيَ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَالِاحْتِرَازَ عَنْ رَذَائِلِ الْأَحْوَالِ‘‘ (تفسير الرازي ،جلد 27، صفحہ 587)۔یعنی، ضروری ہے کہ الدین سے کوئی ایسی شَی مراد ہو جو احکام اور عملی ذمے داریوں کے علاوہ ہے، کیوںکہ یہ چیزیں قرآن کی تصریح کے مطابق مختلف انبیاء کے درمیان مختلف رہی ہیں۔ پس لازم ہے کہ یہاںالدین سے مراد ایسے امور ہوں، جن میں شریعتوں کے اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور وہ ہے ایمان خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اوریوم آخرت پر اورایمان سے پھر اور چیزیں پیدا ہوتی ہیں— دنیا سے اعراض، آخرت کی طرف لپک، اچھے اخلاق کواختیار کرنا، اور برے اخلاق سے بچنا۔

مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

’’مراد اس دین سے اصول دین ہیں جو مشترک ہیں تمام شرائع میں، مثل توحید و رسالت و بعث ونحوہ۔ اور قائم رکھنا یہ کہ اس کوتبدیل مت کرنا، اس کو ترک مت کرنا‘‘۔ (بیان القرآن، سورۂ شوریٰ، آیت 13)

یہی رائے تمام مفسرین نے دی ہے۔ کسی بھی قابل ذکر تفسیر میں مجھے آیت کا یہ مفہوم نہیں ملا کہ ’’دین کے تمام انفرادی و اجتماعی احکام کو زندگی کے سارے شعبوںمیں نافذ کرو‘‘۔ یہاں میں چند رائیں نقل کرتا ہوں:

ابو العالیہ — ’’ إِقَامَةُ الدِّينِ: الْإِخْلَاصُ لِلهِ وَعِبَادَتُهُ‘‘ (البحر المحيط في التفسيرجلد9، صفحہ 329) ۔ یعنی، اس آیت میں اقامت دین کامطلب خدا کے لیے اخلاص اور اس کی عبادت ہے۔

مجاہد —’’ لم يُبعَث نَبِيٌّ إلّا أُمِرَ بإِقامَةِ الصَّلاةِ وإِيتاءِ الزَّكاةِ والإقْرارِ باللهِ تعالى وطاعَتِهِ سُبحانَهُ، وذلِكَ إقامَةُ الدِّينِ‘‘( تفسير روح المعاني، جلد3،صفحہ 231)۔یعنی، اللہ نے ہر نبی کو حکم دیا تھا کہ وہ نماز قائم کرے، زکوٰۃ دے، اللہ کااقرار کرے، اس کی اطاعت کرے اوراسی کا نام اقامت دین ہے۔

ابو حیان— ’’وَهُوَ مَا شَرَعَ لَهُمْ مِنَ الْعَقَائِدِ ‌الْمُتَّفَقِ ‌عَلَيْهَا،مِنْ تَوْحِيدِ اللَّهِ وَطَاعَتِهِ، وَالْإِيمَانِ بِرُسُلِهِ وَبِكُتُبِهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْجَزَاءِ فِيهِ‘‘ (البحر المحيط في التفسير ، جلد9، صفحہ 328)۔یعنی، یہ ان متفقہ عقائد کا نام ہے جو توحید، خدا کی اطاعت، رسولوں پر ایمان، اس کی کتابوں پر ایمان، یوم آخرت پر ایمان اور جزائے اعمال سے متعلق ہیں۔

خازن —  ’’والمُرادُ بإِقامةِ الدِّينِ هو توحيدُ اللهِ والإيمانُ بهِ وبِكُتُبِهِ ورُسُلِهِ واليَومِ الآخِرِ، وطاعَةُ اللهِ في أوامِرِهِ ونَواهِيهِ، وسائرُ ما يكونُ الرَّجُلُ بهِ مُسلِمًا، ولم يُرِدِ الشَّرائِعَ التي هي مَصالِحُ الأُمَمِ على حَسَبِ أحوالِها فإنَّها مُختَلِفَةٌ مُتَفَاوتَةٌ.‘‘ قال الله تعالى:’’لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجًا‘‘  (لباب التاویل، جلد4، صفحہ 96)۔یعنی، یہاں اقامت دین سے مراد توحید خدا اور اس کی کتابوں اوررسولوں اور یوم آخرت پرایمان لانا ہے، اور احکام و ممنوعات میں اس کی اطاعت کرنا ہے۔ اور ان سب چیزوں پر عمل کرنا ہے، جن پر عمل کرنے سے کوئی شخص مسلمان بنتا ہے۔ یہاں دین سے مراد شریعتیں نہیں ہیں، جو امتوں کے حالات کے تحت ان کی مصلحت کے پیش نظر نازل ہوتی ہیں۔ کیوں کہ قرآن کی تصریح کے مطابق وہ مختلف ہیں۔

آلوسی بغدادی — ’’أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ، أي دينَ الإسلامِ الذي هو توحيدُ اللهِ تعالى وطاعتُهُ، والإيمانُ بكُتُبِهِ ورُسُلِهِ وبيومِ الجزاءِ، وسائرُ ما يكونُ العبدُ بهِ مؤمنًا، والمُرادُ بإقامَتِهِ تَعدِيلُ أركانِهِ وحِفظُهُ من أن يَقَعَ فيهِ زَيْغٌ والمُواظَبَةُ عليهِ ‘‘ (تفسير الألوسي روح المعاني، جلد 13، صفحہ 27) ۔یعنی، دین اسلام جو کہ توحید ، خدا کی اطاعت، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم جزاء پر ایمان کا نام ہے۔ اور وہ سب کچھ جس سے کوئی شخص مومن بنتا ہے، اور اقامت دین سے مراد اس کے ارکان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا، اس کی نگہداشت اور اس پر دوام۔

نظام الدین قمی نیشاپوری — هو إقامةُ الدِّينِ، يعني إقامةُ أصولِهِ من التوحيدِ والنبوَّةِ والمَعادِ ونحوِ ذلكَ، دونَ الفُروعِ التي تختلفُ بحَسَبِ الأوقاتِ، لِقَولِهِ:{لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجًا}‘‘ (تفسير غرائب القرآن ،جلد6، صفحہ 70)۔یعنی، توحید، نبوت، آخرت پر قائم ہونا اور اس قسم کی دوسری اصولی تعلیمات کو اپنانا جو ان فروعات کے علاوہ ہیں جن میں مختلف شریعتوں کے درمیان اختلاف رہا ہے۔

قرطبی  — ’’ وَهُوَ تَوْحِيدُ اللهِ وَطَاعَتُهُ، وَالْإِيمَانُ بِرُسُلِهِ وَكُتُبِهِ وَبِيَوْمِ الْجَزَاءِ، وَبِسَائِرِ مَا يَكُونُ الرَّجُلُ بِإِقَامَتِهِ مُسْلِمًا. وَلَمْ يُرِدِ الشَّرَائِعَ الَّتِي هِيَ مَصَالِحُ الْأُمَمِ على حسب أَحْوَالِهَا، فَإِنَّهَا مُخْتَلِفَةٌ ‌مُتَفَاوِتَةٌ‘‘ (تفسيرالقرطبي، جلد16، صفحہ10)۔ یعنی، اس کا مطلب ہے خدا کی توحید کا اقرار اور ا س کی اطاعت ۔ اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر اور روز آخرت پر ایمان لانا، اور وہ سب کچھ جس کی اقامت سے آدمی مسلمان بنتاہے۔ یہاں شریعتیں مراد نہیں ہیں جو امتوں کے حالات کے تحت ان کی مصلحت کے مطابق دی جاتی ہیں کیوں کہ وہ ہمیشہ مختلف رہی ہیں۔

ابن کثیر — ’’الْقَدْرُ ‌الْمُشْتَرَكُ بَيْنَهُمْ هُوَ عِبَادَةُ اللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَإِنْ اخْتَلَفَتْ شَرَائِعُهُمْ وَمَنَاهِجُهُمْ‘‘ (تفسير ابن كثير ، جلد 7، صفحہ 197)۔یعنی، انبیاء کی تعلیمات کا قدر مشترک جو بلاشرکت ایک خدا کی عبادت کرنا ہے اگرچہ اس کے سوا ان کی شریعت اور طریقے باہم مختلف ہیں۔

حافظ الدین نسفی  — ’’أي شَرَعَ لكم من الدِّينِ دينَ نوحٍ ومحمَّدٍ وما بينَهما من الأنبياءِ عليهم السَّلام، ثم فسَّرَ المشروعَ الذي اشترَكَ هؤلاء الأعلامُ من رُسُلِهِ فيهِ بقوله: {أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ}، والمُرادُ إقامةُ دينِ الإسلامِ، الذي هو توحيدُ اللهِ وطاعَتُهُ، والإيمانُ برُسُلِهِ وكُتُبِهِ وبيومِ الجزاءِ، وسائرُ ما يكونُ المَرءُ بإِقامَتِهِ مُسلِمًا، وبِما يُرادُ بهِ الشَّرائعَ فإنَّها مُختلِفَةٌ، قال الله تعالى:{لكلٍّ جَعَلْنا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا} ومَحلُّ {أَنْ أَقِيمُوا} نَصْبٌ بَدَلٌ مِن مفعولِ {شَرَعَ} والمَعطوفينَ عليه، أو رفعٌ على الاستِئناف، كأنَّهُ قيلَ:وما ذلكَ المَشروع؟ فقيلَ: هو إقامةُ الدِّينِ‘‘ (مدارك التنزيل، جلد 3، صفحہ 248)۔ یعنی، تمہارے لیے دین میں سے دین نوح دین محمد اور ان کے درمیان آنے والے نبیوں کے دین کو مشروع کیا، اس کے بعد اس مشروع کو بتایا جس میں یہ انبیائے عظام مشترک رہے ہیں۔ فرمایا:ان أَقِيمُوا الدِّينَ یہاں دین اسلام کی اقامت سے مراد ہے:توحید، خدا کی اطاعت، رسولوںاور کتابوں اور یوم جزا پرایمان، اور وہ سب چیزیں جن کو اختیار کر لینے سے کوئی شخص مسلمان بنتا ہے۔ اس حکم میں انبیاء کی شریعتیںمراد نہیں ہیں کیوں کہ وہ مختلف انبیاء کے درمیان مختلف رہی ہیں۔ نحوی ترکیب کے لحاظ سے أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ یا تو محل نصب میں ہے، کیوں کہ وہ شرع کے مفعول کا بدل ہے۔ یا وہ علیحدہ جملہ ہے اور محل رفع میں ہے۔ گویا سوال تھا وہ کیاچیز ہے جومشروع کی گئی ہے فرمایاوہ ہے اس (متفق علیہ) دین پر قائم ہو جانا۔

ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ آیت کے مخصوص الفاظ کی بنا پر یہاں مفسرین نے دین کی بنیادی تعلیمات کو پوری طرح اختیار کرنا مراد لیا ہے۔ ایسی حالت میں اس کا یہ مطلب لینا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے کہ دین کے تمام انفرادی و اجتماعی احکام کو زندگی کے سارے شعبوںمیں نافذ کرو۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اصل دین کے علاوہ شریعت کے اجتماعی اور تمدنی قوانین ہمارے لیے’’اقامت‘‘ کاموضوع نہیںہیں۔ میں صرف یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی اقامت اس طرح مطلق لفظوںمیں ہم پر فرض نہیں کی گئی ہے، جیسے یہ تعبیر اس کو ہم پر فرض کرنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کے ان مقامات سے اس تعبیر کے حق میں استدلال نہیں ملتا جہاں فی الواقع دین کے اجتماعی احکام کے نفاذ کاحکم دیاگیا ہے۔ مثلاً:يَا داوُدُ إِنَّا جَعَلْناكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى (38:26)۔یعنی، اے داؤد، ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ(حاکم) بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرو۔

اس کے برعکس ، وہ ہمیشہ ایسی آیتوں سے نکلتی ہوئی نظر آتی ہے جو اصل مسئلہ سے غیر متعلق ہیں۔ جیسے کوئی شخص زمین کی انفرادی ملکیت کا مخالف ہو، اور قرآن سے سماجی ملکیت کا نظریہ ثابت کرنا چاہتا ہو تو اس کو قرآن کے ان الفاظ میں اپنامدعانظر نہیں آئے گا، جہاں معاشی قوانین کا ذکر ہے۔ اس کے بجائے وہ الارض للہ کے فقرہ سے استدلال کرے گا، کیوں کہ ان دو الفاظ کامجرد ترجمہ لے کر بڑی خوبی سے ان میں اپنا نظریہ فٹ کیا جا سکتا ہے۔ حالاں کہ اس فقرے کاکھیت اورکارخانہ کی ملکیت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں— تمام غیر قرآنی نظریات کابہترین ماخذ ہمیشہ غیرمتعلق آیتیں رہی ہیں۔

اس سلسلے کی تیسری آیت حسب ذیل ہے:

وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ بِما يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (8:39)۔ یعنی، اور تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ دیکھنے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔

بعینہٖ یہی آیت قرآن میں ایک اور جگہ آئی ہے، البتہ وہاں كُلُّهُ کا لفظ نہیں ہے (البقرۃ، 2:193)۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ’’دین اسلام کے پیرووں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو، جب تک فتنہ، یعنی ان نظامات کا وجود دنیا سے نہ مٹ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے‘‘ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، مبحث ’’دین‘‘) ۔

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ فتنہ کی حالت سے مراد ’’سوسائٹی کی وہ حالت ہے جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے‘‘ اور ’’بازآ جانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آ جانا نہیں بلکہ (مذکورہ بالا) فتنہ سے باز آ جاناہے، کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتاہے رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔اس گمراہی سے ان کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے۔ مگر اس سے لڑیں گے نہیں ۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر ازخدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسب موقع اورحسب امکان تبلیغ اور شمشیر دونوں سے کام لیا جائے گا، اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آ جائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرۃ،حاشیہ نمبر 204-205)

اس استدلال کو سمجھنے کے لیے پہلے قرآن کے وہ دونوں مقامات اپنے سامنے رکھ لیجیے، جہاں یہ حکم آیا ہے:

فَاقْتُلُوهُمْ كَذلِكَ جَزاءُ الْكافِرِينَ۔ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۔ وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلهِ (2:191-193)۔ یعنی، پس انھیں قتل کرو، یہی سزا ہے ایسے کافروں کی۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔ 

دوسرا ٹکڑا حسب ذیل ہے:

قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ۔ وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ بِما يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (8:38-39)۔ یعنی، ان کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ باز آ جائیں تو انھیں بخش دیا جائے گا، اور اگر سابقہ روش پر باقی رہیں گے تو پچھلی قوموں کے بارے میں قانون نافذ ہو چکا ہے۔ اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ ان کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔

آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عقیدہ کو چھیڑے بغیر محض اُس قسم کا ایک دنیوی نظام قائم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے جو اوپر کی تشریح میں مذکور ہے، بلکہ یہاں دراصل عقیدہ ہی کو بدلنے کے لیے جنگ کرنے کا حکم ہے

1۔      آیت کے الفاظ کے مطابق کفار جس ’’فتنہ‘‘ میں مبتلا ہیں اور جس کی بنا پر ان سے جنگ کا حکم دیا جارہا ہے، اس سے اگر وہ باز آ جائیں تو ان کی ’’مغفرت‘‘ کر دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ مغفرت محض سیاسی اقتدار چھوڑنے یا فساد دنیا سے باز آ جانے کا صلہ نہیں ہے، بلکہ وہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جوکفر و شرک کو چھوڑ دیں۔(۱)

(۱)فتنہ کے لغوی معنی شرک کے نہیں ہیں، بلکہ شرک اس کا مصداق ہے۔فتنہ کے اصل معنی ہیں تپانا۔ اسی سی اس لفظ میں جانچنے اور آزمائش میں ڈالنے کامفہوم پیدا ہوا۔ پھر ان بری چیزوں کو بھی فتنہ کہنے لگے جن میں آزمائش میں پڑنے والا شخص عموماً مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً کفر اور ظلم وغیرہ۔ابن اثیر لکھتے ہیں: وَقَدْ ‌كَثُر ‌استِعمالها فِيمَا أخْرَجه الاخْتِبارُ للْمكْرُوه، ثُمَّ كَثُر حَتَّى اسْتُعْمِل بِمَعْنَى الإثْم، والكُفْر، والقِتال، والإحْرَاق، والإزَالة، والصَّرف عَنِ الشَّيْءِ (النهاية في غريب الحديث والأثر، جلد3، صفحہ 411) ۔ اسی لیے اہل لغت اس لفظ کی تشریح میں اس کے اصل مفہوم کے ساتھ اس قسم کے الفاظ بھی لکھ دیتے ہیں ۔الفِتْنةُ ‌الكُفْر،الفِتْنة:‌الضَّلَالُ والإِثم (لسان العرب، جلد13، صفحات 318-319)۔

2۔     ارشاد ہوا ہے —  قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُواالآیۃ، فقرے کی یہ ساخت بتاتی ہے کہ یہاں نحوی اعتبار سے إِنْ يَنتَهُوا عَنِ الْكُفْرِ ہی مراد لیا جا سکتا ہے، یعنی اگر وہ کفر سے باز آجائیں تو ان کے لیے بخشائش ہے، ورنہ نہیں۔

3۔      پھراس حکم کا جو منشا مہبط وحی نے سمجھا اور جس کے مطابق آپ نے اپنے دشمنوں سے جنگ کی، وہ صریح احادیث کے مطابق یہی تھاکہ ان لوگوں سے کلمۂ توحید کے اقرار تک جنگ کی جائے۔

چنانچہ مفسرین بعض شاذرایوں کو چھوڑ کر تقریباً سب کے سب اس آیت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ایمان لانے تک جنگ کرنے کاحکم دیا گیا ہے، نہ کہ عام معنوں میں محض فتنہ و فساد سے روکنے کا۔ ان کے نزدیک یہاں فتنۃ سے مراد شرک ہے، اور انتہاء کا مطلب ہے شرک سے باز آ جانا۔ یعنی اس حکم کامطلب یہ ہے کہ ان سے جنگ کر کے یا تو انھیں قتل کر دو، یا انھیں مجبور کرو کہ وہ شرک چھوڑ کر اسلام قبول کریں۔ ابن عباس، ابوالعالیہ، مجاہد، سعید بن جبیر، حسن، قتادہ، ضحاک، ربیع مقاتل بن حیان، سدی،زید بن اسلم، سب سے متفقہ طور پر یہی منقول ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد1، صفحہ 227)۔ موخر الذکر نے :وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ کی تشریح  لَايَكُونُ مَعَ دِينِكُمْ كُفْرٌ کےفقرے سے کی ہے۔ اس قول کو نقل کرکے علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

وَيَشْهَدُ لَهُ  مَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ’’:‌أُمِرْتُ ‌أَنْ ‌أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا:لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَإِذَا قَالُوهَا، عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ(تفسیر ابن کثیر، جلد2،صفحہ 309)۔یعنی، اس قول کی تصدیق صحیحین کی ان روایتوں سے ہوتی ہے جن میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ اپنی زبان سے لا الہ الا اللہ کہہ دیں ۔ جب وہ اس کلمہ کا اقرار کر لیں تو وہ اپنے جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے۔ الایہ کہ کوئی اور حق ان پر آتا ہو اور ان کے بعد ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔

اسی طرح علامہ آلوسی بغدادی لکھتے ہیں:

والمُرادُ من الفِتْنَةِ الشِّرْكُ على ما هو المأثورُ عن قَتادةَ والسُّدِّي وغيرِهما، ويُؤَيِّدُهُ أنَّ مُشْرِكِي العربِ ليسَ في حَقِّهِم إلّا الإسلامُ أو السَّيفُ، لقولهِ سبحانهتُقاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ] الفتح [16 ( تفسير روح المعاني، جلد 1، صفحہ 472)۔ یعنی، اس آیت میں فتنہ سے مراد شرک ہے جیسا کہ قتادہ، سدی اور دوسرے لوگوں سے مروی ہے۔ اور اس رائے کی تائید اس واقعہ سے ہو رہی ہے کہ عرب کے مشرکوں کے لیے اسلام ہے یاتلوار، اس کے سوااور کوئی چیز نہیں جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :تُقاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ۔ (48:16)

اسی بنا پر تقریباً تمام مفسرین نے ان آیات کا مطلب یہ لیا ہے کہ اس میں ایک ایسے      ’’قتال‘‘ کا حکم دیا گیا ہے جو اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کفار و مشرکین اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول نہ کر لیں۔ میں صرف دو حوالے نقل کرتا ہوں:

يَقُولُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم:{قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ‌إِنْ ‌يَنْتَهُوا} أَيْ: عَمَّا هُمْ فِيهِ مِنَ الْكُفْرِ وَالْمُشَاقَّةِ وَالْعِنَادِ وَيَدْخُلُوا فِي الْإِسْلَامِ وَالطَّاعَةِ وَالْإِنَابَةِ، يُغْفَرُ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَف، أَيْ:مِنْ كُفْرِهِمْ، وَذُنُوبِهِمْ وَخَطَايَاهُمْ (تفسير ابن كثير ، جلد 4، صفحہ 54)۔یعنی، اللہ تعالیٰ یہاں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ کافروں سے کہہ دو کہ اگر تم کفر اور اسلام دشمنی سے باز آؤ اور اسلام کو قبول کر لو اور توبہ و اطاعت کا طریقہ اختیار کرو، تو تمہارے زمانۂ کفر کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔

’’{وَقاتِلُوهُمْ حتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ} إلى أنْ لا يُوجَدَ فيهِم شِرْكٌ قَطّ، {وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ} ويَضْمَحِلَّ عنهُم كُلُّ دِينٍ باطِلٍ ويَبْقَى فيهِم دِينُ الإسلام، {فَإِنِ انْتَهَوْا} عن الكُفْرِ وأَسْلَمُوا، {فَإِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ} يُثِيبُهُم على إسلامِهِم، {وَإِنْ تَوَلَّوْا} أَعْرَضُوا عن الإيمانِ ولَمْ يَنْتَهُوا، {فَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ مَوْلاكُمْ} ناصِرُكُمْ ومُعِينُكُمْ.‘‘ (تفسيرمدارك التنزيل جلد 1، صفحہ 645)۔یعنی، مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک ان کے اندر سے شرک کا بالکل خاتمہ ہو جائے، ان کے تمام باطل ادیان مٹ جائیں اور ان میں صرف ایک اسلام کادین باقی رہ جائے، پھر جب وہ کفر چھوڑ دیں اور اسلام قبول کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے قبول اسلام کا انھیں اجر دے گا۔ اور اگروہ ایمان نہ لائیں اور کفر کو نہ چھوڑیں تو اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے۔

اصل یہ ہے کہ اس آیت میں جس قتال کا حکم دیا گیا ہے وہ ایک مخصوص قتال ہے، جس کا تعلق آخری رسول سے ہے۔ یہ آیت کے الفاظ میں ’’کافرین‘‘ کے اوپر ’’سنت الاولین‘‘ کا اجراء ہے۔ یہاں کافرین سے مراد آخری رسول کے وہ مخاطبین ہیں جو اتمام حجت کی حد تک آخری رسول کی دعوت جان لینے کے باوجود بدستور کافر بنے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں خدا کی سنت جو قرآن میں بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کو آفات ارضی و سماوی کے ذریعہ ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ آخری رسول کے مخاطبین کے سلسلے میں یہ سزا مخصوص اسباب کی بنا پر، اس شکل میں نازل ہوئی کہ اہل ایمان کو یہ ’’اذن‘‘ دے دیا گیا کہ ان سے جنگ کر کے انھیں ختم کر دو — قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ (9:14)۔

اس سے پہلے عرب ہی کی ایک قوم (ثمود) کی تاریخ قرآن میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ان کے نبی نے جب ان پر اتمام حجت کر دیا اور اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو بالآخر انھیں نوٹس دے دیا گیا — تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ (11:65)۔ یہ تین دن گزرتے ہی ایک صاعقۂ عظیم نے انھیں آ لیا اور وہ اس طرح فنا کر دیے گئے گویا کبھی تھے ہی نہیں۔ ٹھیک اسی طرح آخری نبی نے جب اپنی قوم پر حجت تمام کر دی تو اس کے بعد اعلان کر دیا گیا— ’’چار مہینے اور زمین پر چل پھر لو‘‘ چار مہینے گزرنے کے بعد اہل ایمان کو حکم دے دیا گیا کہ انھیں جہاں پاؤ قتل کرو۔ ان کے لیے اسلام ہے یا موت تیسری کوئی راہ نہیں۔ (التوبۂ، 9:1-5)

اب اگر اس آیت کو اس ’’قتال‘‘ سے متعلق مانیں جو ہجرت کے بعد رسول اور آپ کے مخاطبین اولین (بنی اسماعیل) کے درمیان خدا کے براہ راست حکم سے شروع ہوا تھا، تو ہم نہایت آسانی کے ساتھ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان لوگوں کے بارے میں، مخصوص اسباب کی بنا پر، رسول کو یہی حکم ملا تھا کہ ان سے اسلام کے سوا اور کچھ قبول نہ کیا جائے۔ لیکن اگر اس کو نظریاتی حیثیت دے کر اس سے مسلمانوں کا عمومی مشن اخذ کیا جائے تو اس آیت کے مطابق، اس مشن کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم لڑ لڑ کر لوگوں کو مسلمان بنائیں۔ حالانکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس قسم کا اختیار نہیں دیا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion