قرآن سے بے تعلقی
جو لوگ دین کی کسی غلط تعبیر سے متاثر ہوں، ان کو خدا کی کتاب سے اتنی دلچسپی نہیں ہو سکتی جتنی اس مخصوص تشریح سے ہو گی جس کو انہوں نے حق سمجھ کر قبول کیا ہے، وجہ بالکل ظاہر ہے۔ قرآن میں دین کی تشریح اپنے تصور دین کے مطابق ہے، نہ کہ کسی اور تصور کے مطابق ۔ جب کوئی شخص دوسرا تصور لے کر قرآن کو پڑھتا ہے تو اس میں اسے اپنے جذبات کی تسکین نہیںملتی۔ قرآن میں اس کو دین ٹھیک اس شکل میں نظر نہیں آتا جس شکل میں وہ اپنے ذہن کے اندر اسے محسوس کرتا ہے، اس بنا پر اس کے اندر کچھ اس قسم کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جس کو قرآن میں اشمئزاز کہا گیا ہے (الزمر، 39:45)۔ (۱) اس کے برعکس، اپنی پسندیدہ تشریح کے تحت پیدا شدہ لٹریچر سے اسے بہت زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہاں اس کے جذبات کو پوری طرح تسکین ملتی ہے۔ وہاں دین اسے عین اس تصور کے مطابق نظر آتا ہے، جو اس نے اپنے ذہن میں قائم کر رکھا ہے۔ آپ کو ایسے افراد ملیں گے جن کو سیرۃ النبی اور اسوۂ صحابہ جیسی کتابیں پڑھنے کے لیے دی جائیں تو وہ ان کو ختم کیے بغیر واپس کر دیں گے۔ اس کے برعکس، عبدالحلیم شرر کے ’’اسلامی ناولوں‘‘ کو وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جب تک ختم نہیں کر لیتے انھیں چین نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلامی تاریخ کو جس رنگین صورت میں وہ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ خالص تاریخی کتابوںمیں نہیں ملتی۔ ان کو اسلام کی واقعی تاریخ سےزیادہ اپنے مخصوص ذوق سے دلچسپی ہے۔ اس لیے وہ تاریخ سے زیادہ تاریخی ناول پسند کرتے ہیں۔
(۱) اشمئزاز یعنی انقباض۔ یہاں میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک خالص نفسیاتی کیفیت ہے، اور ضروری نہیں کہ آدمی کو اس کا واضح شعور حاصل ہو۔ اس قسم کی کیفیات اکثر لاشعورمیں پیدا ہوتی ہیں، اس کا واقعی علم آدمی کو صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی اس غلطی کا شعوری ادراک کر لے اور اس سے باہر نکل آئے ۔ ایک آدمی کسی شخص سے بری طرح متاثر ہو اور اپنے ذہن سے سوچنے کے بجائے اس کے ذہن سے سوچنے لگا ہو تو آپ کبھی اسے قائل نہیں کر سکتے کہ وہ شخصیت پرستی میں گرفتار ہے۔ اپنی اس بیماری کا علم تو آدمی کو صرف اس روز ہوتا ہے جب وہ اس سے باہر نکل آئے۔
