دہلی، 29 جنوری 1963ء
دہلی، 29 جنوری 1963ء
برادر عزیز السلام علیکم
گرامی نامہ مورخہ 23 جنوری کے جواب میں عرض ہے۔ جماعت اسلامی کے فکر کے تعین کے لیے اصل ماخذ اس کا دستور ہے اور رفقاء جماعت اصلاً محض دستور کے پابند ہیں۔ جس کی ایک دفعہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ’’قرآن و سنت جماعت کی اساس کار ہوں گی۔ دوسری ساری چیزیں ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھی جائیں گی جس حد تک قرآن و سنت کی روسے ان کی گنجائش ہو۔‘‘ رہا اس کے لٹریچر کا معاملہ تو وہ کسی ایک مصنف کی کتابوں کا نام نہیں ہے بلکہ متعدد مصنفین کی تصنیفات پر مشتمل ہے جو دین کے مختلف گوشوں کی وضاحت کرتا ہے۔ اور یہ لٹریچر بحیثیت مجموعی جماعت کے نصب العین کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ البتہ جیسا میں پہلے بھی کئی بار اپنی تحریروں میں لکھ چکا ہوں، وہ انسانی ذہن و قلم کا پیدا کردہ ہے۔ اس لیے دیگر تمام مصنفین کی تصنیفات کی طرح اس میں غلطیاں ہو سکتی ہیں بلکہ میں یہ کہنے کے لیے بھی تیار ہوں کہ مجھے خود یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے لٹریچر میں بعض ایسی چیزیں بھی پائی جاتی ہیں جو ہمارے نصب العین اور اس کی تشریح سے جو دستور میں درج ہے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ ہم دستور کے مطابق اپنے نصب العین کی تفصیل و توضیح برابر کرتے رہتے ہیں، اور ہمیں پورااطمینان ہے کہ لوگ ہمارے نصب العین کے سمجھنے کے لیے اصل ماخذ دستور اور اس کی تشریحات کو قرار دیں گے، نہ کہ کسی ایسی عبارت کو جو اس سے پوری طرح ہم آہنگ نہ ہو، اس لیے ہم لٹریچر میں اس طرح کی باتوں کی موجودگی سے کوئی خاص اندیشہ محسوس نہیں کرتے اور تمام افراد جماعت کے بارے میں میرا احساس یہی ہے کہ انہوں نے دستور میں بیان کردہ نصب العین اور اس کی فکر کی تشریح کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اس لیے جو تحریر اس کے مطابق نہ ہو گی اسے وہ قبول نہ کر سکیں گے اور اس سے ہم آہنگی رکھنے والی تحریر خواہ وہ کسی کی ہو ان کے نزدیک جماعت ہی کی فکر شمار ہو گی۔
میری یہ وضاحت معلوم نہیں آپ کی خلش دور کرنے کے لیے کافی ہو گی یا نہیں۔ ہماری خواہش تو بہرحال یہی ہے کہ آپ جماعت میں رہ کر بدستور کام کرتے رہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ جماعت میں رہنے کے لیے اس کے نصب العین کو قبول کرنا ایک ضروری شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہمارے اطمینان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ لٹریچر کے بارے میں آپ کی خلش رفع ہو جائے تو آپ اپنی بحث واپس لے لیں گے۔ اور جماعت میں رہ کر اپنا کام جاری رکھیں گے۔ بلکہ آپ کو یہ اطمینان بھی دلانا ہو گا کہ آپ جماعت کے نصب العین کو قبول کرتے ہیں ۔ اس کی ضرورت مجھے خاص طور سے اس لیے محسوس ہو رہی ہے کہ آپ کی بحث کا نصب العین کے سوال سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ اور (اعظم گڑھ میں) گفتگو کے وقت میرے دریافت کرنے پر بھی آپ نے اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں بتائی کہ اب بھی آپ ہمارے دستور میں درج نصب العین اور اس کی تشریح کو صحیح تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ اور آپ کی یہ پیش نظر تحریر بھی اس سے خاموش ہے۔
میں اس تحریر کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام ابو اللیث
