نشانے کی تبدیلی

اسلام نے جو احکام دیے ہیں، ان کا ایک مقصد یہ ہے کہ آپ کے ذہن کو کچھ مخصوص نشانوں پر لگایا جائے۔ لیکن اگر حکم کو سمجھنے میں آپ غلطی کر جائیں یا اس کی کوئی دوسری تعبیر آپ کے ذہن میں بیٹھ جائے، تو آپ کی مثال اس شکاری کی سی ہو جائے گی جو جانورکے سائے کوجانور سمجھ کر بندوق چلا دے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں گولی اپنا نشانہ کھو دے گی اور کارتوس خالی کرنے کے بعد بھی آپ اپنی مطلوبہ چیز سے محروم رہیں گے۔

اہل ایمان کو خارجی دنیا میں جو کام کرنا ہے۔اس کو دعوت و شہادت کا عنوان دے کر اللہ تعالیٰ نے خدمت دین کاایک نہایت وسیع میدان ہمارے لیے کھول دیا ہے۔ شہادت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندرگویائی اورافہام و تفہیم کی جو طاقت ہے، اس کو ان تمام لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچانے میں پوری طرح لگا دیں، جو خدا سے غافل ہیں یا اس سے پھرے ہوئے ہیں۔ آپ اس قدر شدت اور یقین کے ساتھ اسے پیش کریں گویا عالم بالا کے یہ حقائق آپ کے چشم دید واقعات ہیں، جن کی آپ دنیا کے سامنے گواہی دے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جوکبھی ختم نہیں ہوتا۔ آدمی کبھی یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کو انجام دینے کے لیے مواقع موجود نہیں ہیں۔ یہ آپ کو مشغول ترین زندگی میں لگا دیتا ہے۔ جب تک زمین پر کوئی ایک بھی خدا کا بندہ صحیح راہ سے بھٹکا ہوا ہے۔ اور جب تک آپ کے ہاتھ میں قلم اور آپ کے منھ میں زبان ہے اس وقت تک گویا آپ کے لیے کرنے کاکام موجود ہے۔

لیکن مذکورہ بالا تشریح نے اہل ایمان کے خارجی کام کو شہادت کے بجائے ’’انقلاب‘‘ کا عنوان دے کر یہ قیمتی میدان آپ سے چھین لیا۔ شہادت و تبلیغ کے تصورکے تحت داعی کی جو انتہائی منزل قرار پاتی ہے، وہ یہ کہ خدا کے بندوں تک خدا کا پیغام پوری طرح پہنچ جائے۔ مگر اس تعبیر نے اپنی ساخت کے عین فطری نتیجے کے طور پر اپنے ذمہ یہ کام لے لیا کہ ’’دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت ختم ہو کر امت صالحہ کا نظام قائم ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا ذہن اس مخصوص تعبیر سے بنا ہو، وہ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر مجبور ہوں گے کہ سیاسی تبدیلی کو اپنا اصل نشانہ قرار دیں۔ کیوں کہ اس کے بغیر امامت صالحہ کا قیام وجود میں نہیں آ سکتا۔ شہادت کا تصور ہو تو آدمی کامیابی اس کو سمجھتا ہے کہ اپنی بات آخری حد تک لوگوں کو سنا دے۔ مگر اس دوسری تعبیر نے آپ کو ایک ایسا کام بتا دیا جس کی تکمیل، اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک نظام کی شکل میں بالفعل زمین پر قائم ہو جائے۔ قرآن میں ’’شہادت‘‘ اور اس کے ہم معنی الفاظ کسی کو اس غلط فہمی کی طرف لے جا سکتے تھے کہ محض زبانی گواہی بھی اس کام کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔ مگر آپ نے ’’عملی شہادت‘‘ کا فلسفہ ایجاد کر کے اسے مطمئن کر دیا کہ جب تک باقاعدہ اسٹیٹ وجود میں نہ آئے، شہادت کی ذمے داری ادا نہیں ہو سکتی۔

جو لوگ اس ذہنیت میں مبتلا ہوں، فطری طور پر وہ اپنی قوتوں کے استعمال کے لیے سیاسی پروگرام تلاش کریں گے۔ وہ ’’کام‘‘ اس کو سمجھیں گے کہ حکومت بدلنے کی جدوجہد ہو رہی ہو۔ محض تبلیغ و تفہیم ان کے نزدیک وہ کام نہ ہوگا، جو خارجی دنیامیں انھیں اپنی ایمانی تقاضوںکو پورا کرنے کے لیے انجام دینا ہے۔ اب اگر انقلاب کے لیے حالات سازگار ہوں اور ایک ایساکامیاب سیاسی پروگرام  مل جائے جو انھیں اقتدار کی تبدیلی کی طرف لے جاتا ہوا نظر آئے، تو وہ حرکت کریں گے، وہ محسوس کریں گے کہ ان کے پاس وہ کام موجود ہے، جس کے لیے انھیں اپنی کوشش صرف کرنی چاہیے۔ لیکن اگر سیاسی حالات سازگار نہ ہوں اور ایسا کوئی راستہ وہ نہ پا سکیں جس کے دوسرے سرے پر پارلیمنٹ کے دروازے کھلے ہوئے نظر آتے ہوں، تو ان کی سمجھ میں نہ آئے گا کہ وہ کیا کریں۔ ان کے چاروں طرف کروڑوں کی تعداد میں گمراہ انسانوں کی موجودگی بتا رہی ہو گی کہ ان کا پروگرام کیا ہے۔ لیکن اگر سیاسی تبدیلی کے مواقع نہ ہوں۔ اور اس قسم کا کوئی عملی نقشہ وہ نہ پا سکیں جس میں ان کی انقلابی تمناؤں کی تسکین موجود ہو۔ تو وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی پروگرام ہی نہیں۔ عین کاموں کے ہجوم میں وہ اپنے آپ کو پروگرام کے بغیر محسوس کریں گے۔ بتانے والے انھیں ان کا دعوتی فریضہ یاد دلائیں گے۔ مگر ایسے کاموں کے لیے ان کے اندر کوئی کشش نہ ہو گی۔ ان کی سمجھ میں نہ آئے گا کہ محض دعوت کا پہنچانا بھی کوئی ایسا کام ہے جس میں وہ اپنی قوتیں صرف کریں۔

یہاں یہ یاد رہے کہ اس تعبیر پر میرا اعتراض دراصل یہ نہیں ہے کہ اس نے سیاست کو اسلام میں کیوں شامل کر دیا۔ سیاست زندگی کا ایک لازمی جزء ہے اور کوئی نظریہ جو انسانی زندگی سے متعلق ہو وہ سیاست سے خالی نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس سے بھی اختلاف نہیں ہے کہ کسی مخصوص وقت میں کوئی اسلامی گروہ، سیاست پر کتنی قوت صرف کرے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ہنگامی مرحلے میں کسی اسلامی گروہ کو اپنی بیشتر یا ساری قوت سیاسی تبدیلی کے محاذ پر لگا دینی پڑے۔ میرا اعتراض دراصل یہ ہے کہ سیاست جو صرف اسلام کا ایک پہلو ہے، اسی کی بنیاد پر پورے اسلام کی تشریح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک چیزاپنی صحیح حیثیت میں حقیقت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کو صحیح مقام سے ہٹا دیا جائے تو ایک صحیح چیز بھی غلط ہو کر رہ جائے گی۔

پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگرچہ کچھ دنوں تک اپنے جذبات کا مرکز نہ پائے تو بالآخر وہ سردمہری کا شکار ہونے لگتا ہے۔ جس چیز کو آدمی اپنا نشانہ بنائے اس کا سامنے رہنا بہت ضروری ہے۔ اگر وہ نگاہوں سے اوجھل ہو جائے تو کوئی شخص اپنے آپ کو مایوسی سے نہیں بچا سکتا۔ اس طرح آپ کی ’’ناکام‘‘ اسلامی تحریک کے افراد پہلے حالات کی ناسازگاری کو دیکھ کر مایوس ہوں گے۔ مایوسی سے انتشار تک پہنچیں گے۔ اور انتشار کے بعد بے کرداری کی منزل بہت قریب ہے۔

اسی طرح  أَقِيمُوا الدِّينَ کے الفاظ میں جو حکم دیا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم کو ان تقاضوں اور ذمے داریوں کی طرف متوجہ کیا جائے، جو اپنی ذات کے سلسلے میں خدا کی طرف سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں۔ لیکن اگر اس آیت کا وہ مفہوم آپ کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہو، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، تو اس کا بالکل قدرتی نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کے ذہن میں اس حکم کا نشانہ بدل جائے گا۔ اب اپنی ذات کے بجائے خارج کی دنیا وہ جگہ ہو گی، جہاں آپ أَقِيمُوا الدِّينَ کے حکم کی تعمیل کرنا چاہیں گے۔ آپ اپنی زندگی کو بدلنے کے بجائے نظام بدلنے پر اپنی ساری نظریں جما دیں گے۔

ایسے لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنے آپ سے غافل ہوں گے۔ مگر مسائل عالم کے موضوع پر گفتگو کرنے سے ان کی زبان کبھی نہیں تھکے گی۔ نماز کی ’’اقامت‘‘ سے انھیں کچھ زیادہ دلچسپی نہ ہو گی۔ مگر وہ حکومت الٰہیہ قائم کرنے کا نعرہ بلند کریں گے۔ ان کی اپنی زندگی میں زبردست خلا ہوں گے۔ مگر وہ عالمی نظام کے خلا کو پر کرنے کی باتیں کریں گے۔ ان کا گھر جہاں وہ آج بھی قوّامکی حیثیت رکھتے ہیں، اس میں اپنی بساط بھر عام دنیا پرستوں کے گھر کی تقلید ہو رہی ہو گی۔ مگر ملک کے اندر وہ قوام کی حیثیت حاصل کرنے کی تحریک چلائیں گے، تاکہ ملک کو دنیا پرست لیڈروں کے اثرات سے پاک کر سکیں۔ ان کا سینہ خدا کی یاد سے خالی ہوگا۔ مگر وہ اقتدار حاصل کر کے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن پر قبضہ کرنے کی تجویز پیش کریں گے۔ تاکہ دنیابھرمیں خدا پرستی کا چرچا کیاجا سکے۔ اپنی ذاتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے جن اصولوںپر عمل کرنے کی ضرورت ہے، ان پر عمل کرنے میں وہ ناکام رہیں گے۔ مگر ملکی نظام سے لے کر اقوام متحدہ کی تنظیم تک کی اصلاح کے لیے ان کے پاس درجنوں اصول موجود ہوں گے۔ اس کے کاغذی نقشے اور اخباری بیانات دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ ملت اسلام کا انھیں کس قدر درد ہے کہ کسی مسئلے کادور قریب کا رشتہ بھی اگر ملت کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہ اس کو حل کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان کے قریب جاکر دیکھیے تومعلوم ہو گا کہ ان کے اس اظہار غم کی حیثیت رسمی تعزیت سے زیادہ نہیں ہے، جو مرنے والے کے غم میں نہیں بلکہ صرف اس اندیشے سے کی جاتی ہے کہ زندہ رہنے والوں کو شکایت ہو گی۔ اپنے آج کے حاصل شدہ دائرے میں وہ نہایت سطحی اور غیر ذمہ دارانہ زندگی گزار رہے ہوں گے ، مگر اپنی انقلابی تحریک کی کامیابی کے بعد انھیں کام کا جو وسیع تر دائرہ حاصل ہو گا، اس کا نقشہ اس طرح پیش کریں گے گویا خلافت راشدہ ازسر نو دنیا میں لوٹ آئے گی۔

دیکھیے، آپ کی غلط تشریح نے کس طرح آپ کے عمل کے نشانے بدل دیے۔ قرآن میں ہم کو جو نشانہ دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے اوپر خدا کے دین کو قائم کرو اور د وسروں تک اس کا پیغام پہنچاؤ۔ مگر اس تشریح نے اس کے بجائے ایک اورنشانہ آپ کے سامنے کر دیا—’’دنیا میں اسلامی نظام برپا کرنے کی جدوجہد کرو‘‘۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نگاہیں ان دونوں نشانوں سے ہٹ گئیں۔ اب نہ خود عمل کرنے کی فکر رہی اور نہ پہنچانے کی د ھن پیدا ہوئی۔ اب ساری توجہ اس ایک مسئلے پر لگ گئی کہ کسی طرح اقتدار بدلنے کی کوئی تدبیر ہاتھ آئے تاکہ اسلامی قوانین کو نافذ کیا جا سکے۔ جس طرح کمیونسٹ پارٹی کامشن اپنے کارکنوں کو یہ نشانہ نہیں دیتا کہ وہ اپنی زندگیوں کو بدلیں۔ اورنہ صرف بات پہنچانا ان کے نزدیک کوئی ایسا کام ہے، جس کے لیے وہ متحرک ہوں۔ بلکہ ان کا ذہن ہمیشہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی تدبیریں، سوچتا رہتا ہے۔ ٹھیک یہی نفسیات اسلام کی اس تعبیر نے اپنے متاثر ہونے والوں میں پیدا کر دی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion