اسی دوران میں مولانا جلیل احسن صاحب کی طرف سے حسب ذیل خط ملا۔
چترپور، 16 ستمبر 1962ء
چترپور، 16 ستمبر 1962ء
برادرم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
1۔میں نے تو لکھ دیا تھا کہ میں سوالات کروں گا۔ اب بھی میں اپنے طریق مراسلت پر مصر ہوں، ہر شخص سے مراسلت کے طریقے جدا ہوتے ہیں، میں نے آپ کی تحریر پڑھ کر اندازہ کیا تھا کہ اس پر میں کیوںکر گفتگو کروں گا۔ جو چیز اتنے طنطنے کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے، اس پرزبانی گفتگو قطعاً نامناسب ہے۔ اورجن لوگوں نے آپ سے گفتگو کی انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ اس لیے جب یہ سوال آیا آپ کے بعض احباب کی طرف سے اور بعد میں آپ کی طرف سے تو میں نے کہہ دیا کہ تحریری گفتگو ہی مناسب ہو گی۔
2۔ پھر امیر جماعت نے فرمایا، اس کا بھی جواب یہی کہ مراسلت کے ذریعہ ہی کچھ ہو سکتا ہے، اور اس میں بھی وہ یہ چاہتے تھے کہ بس دوچار گھنٹے میں کچھ لکھ دیا جائے۔ چنانچہ میرے طریق مراسلت پر انہوں نے کہا، اچھا اب مدرسہ کھلے گا۔ پڑھائی لکھائی ہو گی۔ یہ تو بہت دیر طلب بات ہے اور ادھر وحید صاحب کی بے تابی گویا نکلے ہے دم شمشیر کا۔ پھر انہوں نے دہلی سے تحریراً یہی فرمایا کب تک پڑھائی لکھائی ہوتی رہے گی، یہ دراصل میرے اوپر طنز ہے، لیکن جب آدمی الفاظ کے پس منظر سے واقف نہ ہو تو الفاظ اسی طرح فتنے بنتے ہیں۔ (پڑھانے لکھانے والے فقرہ کی تشریح جو یہاں مولانا جلیل احسن صاحب نے کی ہے ، وہ اس سے مختلف ہے جو مولانا ابواللیث صاحب نے کی ہے) ۔
خلاصہ یہ کہ میں اپنے طریق مراسلت پرمصر ہوں۔ اوروہ طریقہ جو دوسروں نے اختیار کیا وہ آپ کے لیے مضر اور ان کے لیے لاحاصل ہیں۔ آپ جانتے ہیں میں پڑھانے لکھانے ہی کا کام کرتا ہوں یہ پڑھانے لکھانے کا انداز کیوں کر چھوڑوں، اس سے آپ کے فکر رفیع اور علم کبیر کے احساس کو چوٹ لگتی ہے تو افسوس ہے۔ زیرِ بحث مسئلہ پر غورکرنے اور کرانے کا بالخصوص آپ کے لیے میرے پاس یہی راستہ ہے جسے آپ نے پڑھانے لکھانے کا نام دیا ہے، اور جسے آپ پسند نہیں کرتے تو چشم ماروشن دل ماشاد! اس سے پہلے آپ میرے ’’پڑھانے لکھانے‘‘ پر تو متوحش نہیں ہوتے تھے، اب کیا سب کچھ آپ پڑھ لکھ گئے؟
جلیل احسن
