تمہید

موجودہ زمانے میں عام طور پر کسی کتاب کی تالیف کے دو مقصد سمجھے جاتے ہیں’’:ناظرین کے لیے سامان تفریح بہم پہنچانا۔ یا ان کی معلومات میں اضافہ کرنا۔‘‘ مگر اس فہرست میں ایک اہم ترین چیز چھوٹ گئی ہے۔ اور وہ ہے ’’حقیقت کا مطالعہ کرنا۔‘‘ یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے، وہ اسی آخری مقصد کے تحت مرتب کی گئی ہے۔

اگلے صفحات میں آپ جو کچھ پڑھیں گے، اس کا مقصد محض کسی تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا نہیں ہے بلکہ دین کی صحیح تعبیر پیش کرنا ہے۔ صحیح تعبیر پیش کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو مجرد شکل میں پیش کیا جائے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ مروجہ تعبیر کی نسبت سے اس کو واضح کیا جائے۔ خالص علمی نقطہٴ نظر سے پہلی صورت بھی کافی ہے۔ مگر جہاں تک عملی اور افادی پہلو کا تعلق ہے، دوسری صورت ہی اس کے لیے موزوں ترین ہے۔ اور میں نے اپنے پیش نظر مقصد کے تحت اسی دوسری صورت کو اس کتاب میں اختیار کیا ہے۔

اس کتاب کا مطالعہ اگر واقعی کسی کے لیے حقیقت کا مطالعہ بن جائے۔ اور دین کے صحیح فہم تک اسے پہنچا دے، تو یہ مؤلف کی انتہائی خوش قسمتی ہو گی۔ اور میں اسی کے لیے اللہ سے دعا کرتا ہوں۔

مگر زیرِِ بحث تعبیر کی حیثیت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ ایک مخصوص حلقہ میں رائج ہو گئی ہے اور ہمیں اس کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ ایک قسم کا چیلنج ہے اور موجودہ کتاب ایک لحاظ سے اس چیلنج کا جواب ۔

اس تعبیر کے تحت پیدا شدہ لٹریچر زبانِ حال سے،اور اس کی بعض عبارتیں (مثلاً قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کا دیباچہ) زبانِ قال سے اس بات کا اعلان ہے کہ اسلاف نے دین کو صحیح شکل میں نہیں سمجھا۔ اس تعبیر کی نظر سے دیکھیے تو چودہ سو برس کی ساری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے اس کے مطابق ’’مکمل‘‘ معنوں میں تجدید و احیائے دین کا کام کیا ہو۔ اگرچہ اس حلقہ کے کچھ ذہین افراد نے اسلامی تاریخ کے بعض واقعات کو اس حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ تمام کوششیں قطعی طور پر تاریخ سازی ہیں، نہ کہ تاریخ نگاری۔

اس طرح یہ تعبیر گویا اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلاف کے تصور دین کے بارے میں ایک قسم کی بے اعتمادی کا اظہار ہے۔ اور اس بات کا اعلان ہے کہ انہوں نے ٹھیک ٹھیک اس طرح دین کی خدمت کرنے کی کوشش نہیں کی جیسی کہ حقیقتاً کی جانی چاہیے۔ مجھے یہ ماننے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارے علما نے بعض آیات یا بعض حدیثوں کا مطلب صحیح طور پر نہ سمجھا ہو، دوسرے لفظوں میں، اجزائے دین میں سے کسی جزء کی نوعیت متعین کرنے میں وہ غلطی کر گئے ہوں۔ اسی طرح ان کے بارے میں عملی کوتاہیوں اور خامیوں کے امکان کا اقرار بھی ہر وقت کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بات قطعاً ناقابل تسلیم ہے کہ حقیقت دین کو سمجھنے میں انہوں نے غلطی کی۔ یا دین کی خدمت کا صحیح طریقہ اختیار کرنے میں وہ ناکام رہے۔

میرے لیے یہ احساس ساری دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر لذیذ ہے کہ میری یہ کتاب اسلاف کے اوپر وارد ہونے والے اعتراض کی مدافعت ہے۔ میں اپنے عاجز اور ناتواں وجود کے ساتھ ان کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔

یہاں مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے جو 7 مارچ 1963ء کو پیش آیا۔ ان دنوںمیں ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کے استدلالات کی تحقیق کے سلسلے میں بے حد مشغول تھا۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ کے کتب خانہ کا وسطی کمرہ ہے، چاروں طرف تفسیر، حدیث، فقہ ، تاریخ، علم کلام اور لغت کی ایک درجن سے زیادہ الماریاں دیواروں سے لگی ہوئی رکھی ہیں۔ ایک بجے دن کا وقت ہے۔ کتب خانے کے بیرونی دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اور تمام لوگ دوپہر کے وقفہ میں اپنے اپنے ٹھکانوں کو جا چکے ہیں۔ مکمل تنہائی کا ماحول ہے جس میں ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف کتابیں۔ مسلسل مطالعہ کی وجہ سے اس وقت میری کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے میرے سارے بدن کا خون نچوڑ لیا ہو۔ تفسیر ابن جریر کی ایک جلد دیکھ کر میں اٹھا کہ اس کو الماری میں رکھ کر دوسری کتاب نکالوں۔ مگر اٹھا تو کمزوری کی وجہ سے چکر آ گیا۔ اورسمت بھول گئی۔ یہ میرا مدّت کا جانا پہچانا کمرہ ہے۔ مگر تھوڑی دیر تک میں وہاں اس طرح کھڑا رہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کدھر جاؤں اور کس الماری سے کتاب نکالوں۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ متعلقہ الماری فلاں سمت میں ہے۔

اس واقعہ کے کچھ دیر بعد جب میں نے اپنے حواس کو یکجا کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا میں زیرِ بحث نظریے کے بارے میں اسلاف امت سے تبادلہ ٴخیال کرنے کے لیے بہت دور تک چلا گیا تھا۔ اور چلتے چلتے تھک گیا۔ مگر اس کمزوری اور تکان کے باوجود مجھے یہ سوچ کر خوشی ہو رہی تھی کہ مجھے ان کی رائے معلوم ہو گئی ہے اور اب میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کی طرف سے پورے اعتماد کے ساتھ زیرِ بحث تصور کی تردید کر سکوں۔ مجھے ایسا نظر آیا گویا یہ تمام الماریاں اور ان میں بھری ہوئی کتابیں اسلاف کی روحیں ہیں جو میرے پیچھے کھڑی ہیں اور میں اپنے کمزور ہاتھوں اور کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ ان کی طرف سے مدافعت کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔

یہ سوچ کر اتنی خوشی ہوئی کہ تکان اور بھوک پیاس سب بھول گئی اور میں دوبارہ مغرب تک کے لیے اپنے مطالعہ میں مشغول ہو گیا۔

اگلے صفحات میں زیرِ بحث تعبیر کا جو تجزیہ آ رہا ہے اس سے پہلے مجھے چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ جماعت کی علاحدگی سے پہلے بعض لوگوں نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ میں اس قسم کی اختلافی بحث نہ چھیڑوں، بلکہ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے دین کا جو تقاضا میں سمجھا ہوں اس کو مثبت طور پر لوگوں کے سامنے پیش کروں۔

یہ مشورہ جس مخلصانہ جذبے کے تحت دیا گیا ہے، میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ اگر میں اس مشورہ کو قبول کر لیتا تو میرے کام کی نوعیت دوسری ہوتی۔ بلکہ اس اندازمیں کام کرنے کے لیے مجھے جماعت سے الگ ہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی، میرے لیے پورا موقع تھا کہ جس طرح جماعت کے دوسرے مقررین و محررین اس چڑیا خانہ میں اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں، اسی طرح میں بھی اپنی آواز فضا میں نشر کرتا رہتا۔ مگر دو اسباب ایسے تھے جن کی بنا پر مجھے وہ فیصلہ کرنا پڑا جس نے بالآخر اس کتاب کی صورت اختیار کی جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

پہلی بات یہ کہ میں اس کو دیانت داری کے خلاف سمجھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی مولانا مودودی کی فکر کی بنیاد پر اٹھی ہے۔ اور تاریخی اسباب نے ان کے لٹریچر کو یہ حیثیت دے دی ہے کہ وہی اب ارکان جماعت کی نظر میں جماعت اسلامی کے فکر کی مستند شرح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ایک شخص جماعت کے اندر رہتے ہوئے اگر دین کی کسی ایسی تشریح کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، جو اس مخصوص لٹریچر کے مطابق نہیں ہے تو وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جو دیانتاً اسے نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ جماعت کا پلیٹ فارم اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ہے، نہ کہ کسی دوسرے کے نظریات کی تبلیغ کے لیے۔

اس صورت حال میں میرے لیے جماعت کے اندر رہ کر کام کرنے کی شکل صرف یہ تھی کہ جماعت مولانا مودودی کے لٹریچر کے بارے میں یہ طے کر دیتی کہ وہ جماعت کے فکر کی واحد مستند شرح نہیں ہے۔ مگر جیسا کہ امیر جماعت کی خط و کتابت سے واضح ہو گا، مجھے اپنے اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد میرے لیے دیانت دارانہ راہ یہی تھی کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا، اس کو کہنے کے لیے اس دائرے سے باہر آ جاؤ۔ کیوں کہ اس کے اندر رہتے ہوئے دیانتہً میں اپنے کو اس کا مجاز نہیں سمجھتا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ رسالہ زندگی کے ذریعہ میں نے اس حلقہ میں چند سال جو کام کیا ہے، اس نے مجھے اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ موجودہ حالت میں محض مثبت طور پر کام کرتے رہنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ مخصوص نزاکت ہے جو مولانا مودودی کے لٹریچر نے پیدا کر دی ہے۔ اس لٹریچر کی غلطی، عام غلطیوں سے مختلف ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ دین عقیدہ و عمل کے جس مجموعہ کا نام ہے، اس میں کوئی کمی بیشی کی ہو۔ وہ سارے دین کو تسلیم کرتا ہے۔ مگر اس مجموعہ کے مختلف اجزاء کی واقعی حیثیت اس کی تشریح میں بدل گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ متاثر اذہان بظاہر سب کچھ مانتے ہیں۔ مگر اس ’’سب کچھ‘‘کو وہ اس طرح نہیں مانتے جس طرح حقیقتاً انھیں ماننا چاہیے۔

قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز خدا سے تعلق پیدا کرنا اور آخرت کے عذاب سے ڈرنے کا مسئلہ ہے۔ اسی کو ہمیں اپنانا ہے اور اسی کی طرف اہل دنیا کو بلانا ہے مگر اس فکر نے آخرت اور تعلق باللہ کی بات کو تربیت کی بات بنا کر رکھ دیا ہے، اس کی تشریح کے خانے میں یہ چیزیں ایسی حیثیت اختیار کر گئی ہیں گویا یہ کارکن تیار کرنے کی تربیتی بنیادیں ہیں، نہ کہ یہی وہ اصل بات ہے جس کے لیے ہمیں متحرک ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ دنیا میں انقلاب برپا کرنے کا مسئلہ ہے۔ اور آخرت کا خوف اور اس طرح کی چیزیں اس لیے ہیں تاکہ جو لوگ انقلاب عالم کے اس پروگرام کے لیے اٹھیں یا انقلاب کے بعد نظام دنیا کو سنبھالیں، ان میں مقصد کی لگن اور کردار پیدا ہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جماعت کے لوگ آخرت کی کامیابی کے بجائے دنیا میں کامیاب ہونے کو اپنا حقیقی مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا حقیقی مقصد تو بلاشبہ آخرت ہی کی کامیابی ہے مگر آخرت کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دنیا میں کیا کرنا ہے، اس کے متعلق ان کا تصور غلط ہو گیا ہے۔ ایک شخص اگر یہ نظریہ قائم کر لے کہ دنیا کی مادی قوتوں کی تسخیر آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے، اور یہ سوچ کر وہ اس کے لیے کام کرنا شروع کر دے، تو اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اصل مقصد کی حیثیت سے تو بے شک اس نے آخرت میں خدا کی رضا ہی کو اپنے سامنے رکھا ہے۔ مگر اس رضا کو حاصل کرنے کی صورت کیا ہو، دوسرے لفظوں میں، دنیا میں ہم کیا پانے کی کوشش کریں تاکہ آخرت میں ہم خدا کو پا سکیں، اس کے متعلق اس کا تصور بدل گیا ہے۔

اس تشریح کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلق باللہ اور آخرت وغیرہ کی باتیں اگرچہ جماعت کے’’ پروگرام‘‘ میں شامل ہیں مگر وہ اس کے افراد میں اپنا حقیقی مقام حاصل نہیں کر سکیں۔ ایسی باتیں ’’تربیت‘‘ کا موضوع بن کررہ جاتی ہیں۔ وہ اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں میں جگہ پانے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس معاملے میں اس تعبیر سے متاثر افراد کی مثال کچھ ایسی ہو گئی ہے جیسے ایک ایسا برتن جس کا رخ غلط ہو گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ برتن کا رخ ٹھیک نہ ہو اور اس میں آپ پانی ڈالیں تو وہ اِدھر اُدھر لگ کر باہر بہہ جائے گا۔ وہ اس کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر اندر جائے گا بھی تو بہت کم۔

چنانچہ میں نے دیکھا کہ میں خوف خدا اور فکر آخرت سے متعلق جو بات کہتا ہوں، اس کو اس تعبیر سے متاثر ذہن رد نہیں کرتا وہ اس کو دلچسپی سے پڑھتا اور سنتا ہے۔ مگر لٹریچر نے اس کا جو ذہنی سانچہ بنا دیا ہے، اس کی وجہ سے اس قسم کی باتیں اس کے اندر صحیح شکل میں نہیں گھستیں۔ ایسی جو بات بھی کہی جاتی ہے، وہ بس ’’تربیت‘‘ کے خانے میں چلی جاتی ہے۔ اب چونکہ دین اور فطرت میں کامل مطابقت ہے۔ اس لیے اگر فطرت میں ذرا سی بھی کجی آجائے تو دین اس کے اندر ٹھیک ٹھیک بیٹھ نہیں سکتا۔ اس لیے سننے اور پڑھنے کے باوجود اس طرح کی باتوں کا واقعی اثر نہیں ہوتا۔ اس کو ذہن کے اندر وہ مقام نہیں ملتا جو حقیقتاً اسے ملنا چاہیے۔

یہ وجہ تھی جس کی بنا پر مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ محض مثبت طور پر اپنی بات کہتے رہنا بے سود ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ سابقہ تعبیر پر براہ راست تنقید کر کے پہلے اس کا غلط ہونا ثابت کیا جائے اور اس کے بعد اس کے بالمقابل صحیح تعبیر پیش کی جائے۔ اس کے بغیر اصل بات واضح نہیں ہو سکتی۔

مجھے یہ خوش فہمی نہیں ہے کہ اس طرح تنقید ہو جانے کے بعد جماعت کے تمام لوگ اپنے خیالات سے توبہ کر کے دوسری فکر کو قبول کر لیں گے۔ ایسا کبھی تاریخ میں نہیں ہوا اور نہ آج ایسا ہو سکتا ہے۔ جماعت کے فکر کو وجود میں آئے اب چوتھائی صدی ہو رہی ہے۔ کتنے کالے بال اس راہ میں سفید ہو گئے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں اس کو قبول کیا تھا، اور اب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔ جب کسی نظریہ پر آدمی کو اتنی لمبی مدت گزر جائے تو اس کے بعد اس سے لوٹنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا، وہ اپنے خیالات سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے کہ اس کے باہر وہ کسی صداقت کا تصور نہیں کر سکتا۔ جماعت بھی اب تقریباً اسی مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔ اب اس کی حیثیت ’’تحریک‘‘ سے زیادہ ایک ’’روایت‘‘ کی ہو چکی ہے جس پر ایمان رکھنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات دلائل کے میدان میں لاجواب ہونے کے باجود آدمی اپنی روایتی ڈگر پر اس طرح چلتا رہتا ہے گویا اس سے بڑی صداقت دنیا میں اور کوئی نہیں پھر اسی کے ساتھ طویل مدّت کے مسلسل عمل کے بعد اب اس نے ماحول کے اندر اپنا مقام پیدا کر لیا ہے، اس کا ایک پھیلا ہوا حلقہ ہے، جس سے بہت سے لوگ طرح طرح سے بندھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک سبب ہے جو بہت سے افراد کے لیے شعوری یا غیر شعوری طور پر کوئی نیا فیصلہ کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

یہاں میں کمیونزم کی مثال دوں گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کمیونزم کا فلسفہ دلیل کے میدان میں مکمل طور پر رد کیا جا چکا ہے۔ اس کے خلاف اتنی زبردست تنقیدیں کی گئی ہیں کہ اب اس کے لیے دلیل کی حد تک کھڑے رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ یوگوسلاویہ کی کمیونسٹ پارٹی کے سابق صدر اور وائس پریسیڈنٹ میلووان جیلاس (Milovan Djilas) جو عالمی کمیونزم کی ایک مشہور شخصیت مانے جاتے رہے ہیں، 1956ء میں جب ان کی کتاب نیا طبقہ (New Class) لندن سے شائع ہوئی تو ساری دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی۔اسی زمانہ میں ریڈرز ڈائجسٹ میں اس پر ایک تعارفی مضمون چھپا تھا، جس کا عنوان تھا

The Book That is Shaking The Communist World

یعنی وہ کتاب جس نے کمیونسٹ دنیا کو ہلا دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود کمیونزم کا نظریہ آج بھی بدستور زندہ ہے بلکہ برابر بڑھ رہا ہے۔ جب انسانی فطرت کا حال یہ ہے تو کوئی وجہ نہیں  کہ میں اپنے بارے میں اس سے مختلف ایک امید قائم کر لوں۔

پھر یہ جانتے ہوئے میں نے اپنی کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اس کے متعدد اسباب ہیں:

1 ۔ ایک تو یہ کہ جماعت سے پندرہ سال متعلق رہنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کا میرے اوپر یہ حق ہے کہ جماعت کے لیے میرے پاس نصیحت کی جو بہترین بات ہے، اس کو اس کی خدمت میں پیش کروں۔ چوں کہ میں نے محسوس کیا کہ اندر رہتے ہوئے میں ایسا نہیں کر سکتا، اس لیے باہر آ کر مجھے اپنا یہ فرض ادا کرنا پڑا۔

2۔کوئی فکر خواہ ذہنوں میں کتنی ہی جڑ پکڑ لے مگر وہ سارے کے سارے افراد کو بدل نہیں دیتا، پھر بھی کچھ ایسے دھڑکتے ہوئے دل باقی رہتے ہیں جن کے سامنے حق آئے تو وہ اس پر فی الواقع کھلے دل سے غور کر سکیں، اور اس کو بے تکلف قبول کر لیں۔ ایسے لوگ ہر دوسرے حلقۂ فکر کی طرح جماعت کے اندر بھی موجود ہیں اور یہی لوگ میری امیدوں کا مرکز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں بندگان خدا کے لیے میں نے یہ مشکل ترین کام کرنے کی زحمت برداشت کی ہے۔

3۔جماعت کے مخصوص حلقہ کے گرد و پیش بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس کے ہمدرد اور بہی خواہ ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے دل میں ایک گرہ پڑی ہوئی ہے جو ابھی تک کھل نہ سکی۔ وہ ساری دلچسپی کے باوجود اس کو مکمل طور پر اپنانے کی آمادگی اپنے اندر نہیں پاتے۔ وہ اپنے اندر ایک موہوم قسم کی کش مکش لیے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے میری کتاب ،ان شاء اللہ، ان کے سوال کا جواب ثابت ہو گی، اور وہ زیادہ شرح صدر کے ساتھ اپنے آئندہ رویہ کا فیصلہ کر سکیں گے۔

4۔مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے ایک مرتبہ جماعت اسلامی کے بارے میں ایک استفسار کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا:

’’اگرچہ کوئی اعتراض شرعی لحاظ سے بظاہر نہ وارد کیا جاسکے لیکن میرا دل اس تحریک کو قبول نہیں کرتا۔‘‘(سیرت اشرف، صفحہ 546)

مولانا تھانوی کے یہ الفاظ ہندوپاک کے تقریباً ان تمام علمائے اسلام کی ترجمانی کرتے ہیں جو اس فکر کو ابھی تک قبول نہ کر سکے۔ دین کا متوارث تصور جو سلف سے چلا آ رہا ہے اور جو دینی درس گاہوں اور دینی کتابوں کے ذریعہ انھیں ملا ہے، اس کو ذہن میں رکھ کر جب وہ مولانا مودودی کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ان کا متوارث فہم دین اس لٹریچر کو قبول کرنے سے ابا کرتا ہے، وہ اس کے مخالف ہو جاتے ہیں، مگر یہ مخالفت عام طور پر محض ایک مجہول احساس کے تحت ہوتی ہے۔ وہ اپنے متوارث تصور کو اس تشریح سے ہم آہنگ نہیں پاتے، اس لیے وہ اس کو نہیں مانتے۔ مگر اس عدم ہم آہنگی کی وجہ کیا ہے، اس کو وہ ابھی تک صحیح طور پر متعین نہ کر سکے۔

ان میں سے جن بزرگوں نے اس اختلاف کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے عموماً اس مسئلہ پر زیادہ وقت صرف نہیں کیا۔ اسی وجہ سے وہ غلطی کا سِرا پانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ دین میں بگاڑ کی جتنی مثالیں اب تک تاریخ میں پیش آئی ہیں، وہ عموماً وہ تھیں جن میں دین کے اندر کمی بیشی کی گئی تھی۔ ہمارے ان علما نے غیر شعوری طور پر سمجھا کہ زیرِبحث فکر جس کو قبول کرنے سے ان کا دینی ذوق ابا کر رہا ہے، وہ بھی اسی قسم کی ایک غلطی ہوگی۔ حالانکہ یہ بگاڑ پچھلے تمام بگاڑوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس فکر کی غلطی دراصل یہ نہیں ہے کہ اس نے دین میں کوئی کمی یا زیادتی کی ہے۔ اس کی ساری غلطی یہ ہے کہ وہ مجموعہ دین کے مختلف اجزاء کو ان کے صحیح مقام پر رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ مثلاً دین کے کچھ ایسے تقاضے جو خارجی حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں، ان کو اس نے حقیقت دین کی نسبت سے مطلوب قرار دے دیا (ملاحظہ ہو زیر نظر کتاب کا عنوان ’’تصور دین‘‘)۔ یہ ایک نہایت لطیف اور خفی انحراف ہے، نہ کہ جلی انحراف۔ مگر ہمارے علما نے اس فرق کو نہیں سمجھا، اور زیرِ بحث فکر میں اسی قسم کی غلطیاں ڈھونڈنی شروع کر دیں جیسی غلطیاں اس سے پہلے گمراہ فرقوں میں پائی جاتی رہی ہیں۔ اب چونکہ واقعہ میں ایسا نہیں تھا، اس لیے ان کی طرف سے ایسے اعتراضات کیے گئے جو نہایت کمزور اور بے بنیاد تھے۔ انہوں نے ایسی ایسی باتیں کہیں جو زیرِ بحث فکر پر چسپاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس طرح ان کی حالت ایسے وکیل کی سی ہو گئی ہے جس کا مقدمہ تو بہت مضبوط ہو، مگر واقعہ اچھی طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ اس کی مضبوط وکالت نہ کر سکے۔

چنانچہ ان مخالفین کی طرف سے جو تحریریں شائع ہوئی ہیں، اس نے دوطرفہ نقصان پہنچایا ہے۔ ایک طرف تو ان کی وجہ سے جماعت کے افراد میں ایک قسم کا نظریاتی کبر پیدا ہو گیا ہے۔ کمزور تنقیدوں نے ان کے اندر یہ غلط یقین پیدا کر دیا ہے کہ ہم لازماً حق پر ہیں اور مخالفین لازماً غلطی پر۔ اور دوسری طرف اس کا نقصان یہ ہے کہ ایک صحیح محاذ کمزور وکالت کی وجہ سے بے اثر ہو کر رہ گیا ہے۔ میرا احساس ہے کہ، ان شاء اللہ ،میری یہ کتاب دونوں فریقوں کے لیے اس حیثیت سے سوچنے کا نیا مواد فراہم کرے گی۔

5۔ آخری بات یہ کہ یہ مصالح اگر بالفرض موجود نہ ہوں، جب بھی میرا یہ احساس کہ ’’دین مجروح ہوا ہے‘‘،میرے لیے اس بات کی کافی وجہ ہے کہ میں اس کو واضح کرنے کی کوشش کروں۔ کیوں کہ دین کی وضاحت بذات خود مطلوب ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion