نصرت دین
عبدا ور معبود کے تعلق کا آخری تقاضا وہ ہے، جس کو ’’ نصرت دین ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ نصرت دین دراصل اللہ تعالیٰ کی کسی دبتی ہوئی بات کو دوبارہ ابھار نے اور زندہ کرنے کی کوشش کا نام ہے ۔ اسی لیے اس کو شریعت میں ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ ایک مختلف الجہات عمل ہے جس کی کوئی ایک صورت نہیں ہے۔ہر بار جب خدا کے دین پر کوئی آنچ آئے ۔ جب اس کے بقا و تحفظ اور تجدید و احیا کے لیے کسی پہلو سے انسانی مدد کی ضرورت ہو، اس وقت اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو خدا کے دین کے لیے صرف کرنے کا نام نصرت دین ہے۔ انسانی جذبات میں سے ایک اعلیٰ ترین جذبہ یہ ہے کہ آدمی کو جس سے تعلق خاطر ہوتاہے اس کے نفع و نقصان کا اس کو بہت خیال ہوجاتاہے۔ کوئی شریف آدمی کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ جس سے اسے تعلق ہے، اس کے کسی نقصان کو جانتے بوجھتے برداشت کر لے، یہی جذبہ جب بندے کی طرف سے اپنے معبود کے لیے ظاہر ہوتو اسی کو نصرتِ دین کہتے ہیں۔
عرب میں جب آخری رسول کے مخالفین نے آپ کو اور آپ کی دعوت کو ختم کر دینے کی سازش کی اور اس کے مقابلے میں صحابہ کرام نبی کے ساتھ اپنی جان و مال کو لے کر جہاد پر اٹھ کھڑے ہوئے تو یہ نصرت دین کی پہلی اور اعلیٰ ترین مثال تھی ۔ خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب اپنی زندگی کو قربان کر کے اسلامی حکومت کے بگاڑ کو درست کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ان کوششوں کے صلہ میں انھیں شاہی خاندان کی طرف سے زہر دے دیا گیا۔ تو یہ بھی نصرت دین کی ایک شکل تھی۔
دوسری صدی ہجری میں جب دولت و سلطنت نے اسلامی معاشرہ میں عیش پسندی پیدا کر دی اور اس کے نتیجے میں ایمانی کمزوری اور تعلق باللہ میں اضمحلال کی وبا پھیل گئی ۔ اس وقت حسن بصری نے ہمہ تن فقر اور سوز کی تصویر بن کر امت کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی کوششیں کیں تو یہ بھی نصرتِ دین تھی۔ پھر مسلم سوسائٹی میں یونانی فلسفہ کی درآمد سے جب عقائد میں رخنہ پیدا ہونے لگا اور اس نے خلق قرآن کے فتنہ کی صورت اختیار کی، اس وقت امام احمد بن حنبل نے سینہ سپر ہو کر حق کی حفاظت کی تو یہ بھی نصرت دین تھی۔چھٹی صدی ہجری میں جب یورپین قوموں نے اسلامی سلطنت پر حملہ کر دیا اور انگریز مورخ سیٹنلے لین پول کے الفاظ میں اس کے اندر ’’اس طرح گھسے جیسے کوئی پرانی لکڑی میں پَچّر ٹھونکے‘‘ اس وقت صلاح الدین ایوبی نے اپنے زبردست جذبۂ ایمانی اور بے پناہ جرأت سے کام لے کر سفید اقوام کے ظلم اور استیلا سے اسلامی سلطنت کو پاک کیا، تو یہ بھی نصرت دین تھی۔ اسی طرح امام ابولحسن اشعری ، امام غزالی، شیخ عبدالقادر جیلانی، علامہ ابن جوزی ، شیخ الاسلام عزالدین ابن تیمیہ ، شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ ، سید احمد بریلوی اور دوسرے بے شمار علما و صلحا اور اصحابِ عزیمت نے اپنے اپنے وقت میں دین کی ضرورتوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔ اور دین کو جس مدد کی ضرورت تھی اس میں اپنی قوتوں کو آخری حد تک صرف کر دیا۔ یہ سب کے سب دین کے ناصر اور اس کے مدد گار تھے اور ان میں سے ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا درجہ ہے۔
جس طرح وقت کی ضرورت کے لحاظ سے یہ متعین ہوتا ہے کہ آج خدا کے دین کو کس قسم کی نصرت درکار ہے۔ اسی طرح ناصرین کی اپنی قوت و استعداد کے لحاظ سے یہ متعین ہوتا ہے کہ اس موقع پر خدا کا دین ان سے کس چیز کاتقاضا کر رہا ہے۔ہر شخص اس چیز کو دینے کا مکلف ہے جو اس کے پاس ہے۔ جس کے پاس زبان اور علم کی طاقت ہے، وہ اپنے زبان اور علم کے ذریعہ خدا کے دین کی مدد کرے گا۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ نے قوت و طاقت کے خارجی ذرائع بھی دیے ہوں وہ ان خارجی ذرائع کو خدا کے دین کی ضرورت پورا کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہاں میں شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام(578-660ھ)کے الفاظ نقل کروں گا:
قد أَمَرَنا اللهُ بالجِهادِ في نُصرةِ دينِه، إلّا أنّ سِلاحَ العالِمِ عِلمُه ولسانُه، كما أنّ سِلاحَ الملِكِ سيفُه وسِنانُه، فكما لا يجوزُ للمُلوكِ إغمادُ أسلحتِهم عنِ المُلحِدينَ والمُشرِكينَ، لا يجوزُ للعُلَماءِ إغمادُ ألسِنَتِهم عنِ الزائغينَ والمُبتَدِعينَ (طبقات الشافعية الكبرى للسبكي ، جلد8، صفحہ226)۔ یعنی، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہم اس کے دین کی مدد کے لیے جدوجہد کریں۔ عالم کا ہتھیار اس کا علم اور اس کی زبان ہے جس طرح بادشاہ کا ہتھیار اس کے تیر اور تلوار ہوتے ہیں۔پس بادشاہوں کے لیے جس طرح یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ہتھیار کو دشمنانِ دین کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے اسے نیام میں رکھ لیں، اسی طرح علما کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اہل زیغ و ضلال کے مقابلے میں وہ اپنی زبان کو بند کر لیں۔
