معذرت

اس باب کے آخر میں مجھے اپنے ان ساتھیوں سے معذرت کرنی ہے، جن سے پچھلے پندرہ سال سے میں وابستہ رہا ہوں، جو مجھے جانتے ہیں اور جن کو میں جانتا ہوں، ان لوگوں کو یقیناً اس کتاب کی اشاعت سے تکلیف ہو گی، مگر یقین مانیے مجھے اس سے زیادہ تکلیف ہے، یہ کتاب میرے لیے انتہائی ناخوشگوار فریضہ کے سوا اور کچھ نہیں۔

مجھے کسی فرد سے قطعاً کوئی ذاتی شکایت نہیں، اس کتاب کا تعلق کسی فرد یا افراد سے نہیں، بلکہ حقیقتاً صرف مولانا مودودی کے اس مطبوعہ لٹریچر سے ہے جس میں اسلام کی تشریح و تعبیر کی گئی ہے۔ دوسرے افراد اگر زیرِ بحث آئے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ اس لٹریچر کی مدافعت یااس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ اس سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اس لٹریچر کو اپنا لٹریچر نہ قرار دیں تو مجھے ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہو گی، اس کے بعد میں ان کے خلاف اپنا پورا مقدمہ واپس لے لوں گا۔

مولانا مودودی کے لٹریچر میں دین کی جو تشریح کی گئی ہے، اس کے متعلق میرا شدید احساس ہے کہ وہ دین کے صحیح تصور سے ہٹی ہوئی ہے۔ اس تشریح کے اجزاء ترکیبی تو وہی ہیں جو اصلاً خدا کے دین کے ہیں، مگر نئی ترکیب میں اس کا حلیہ اس طرح بگڑ گیا ہے کہ وہ بجائے خود ایک نئی چیز نظر آنے لگا ہے اور دین کی اصل حیثیت اس میں بری طرح مجروح ہو گئی ہے۔

ظاہر ہے کہ کسی لٹریچر کے بارے میں اگر ایک شخص کا یہ احساس ہو تو اس کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بس بھر اپنے احساس کا اظہار کرے۔ کیوں کہ دین کو مجروح دیکھنا اور پھر بھی خاموش رہنا اہل ایمان کے لیے جائز نہیں، اب چونکہ بہت سے لوگ ایسے زندہ موجود ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اس لٹریچر سے وابستہ کر رکھا ہے، جنہوں نے اسی کے مطابق اپنا ذہن بنایا ہے اور جو اس کی توسیع و اشاعت کے لیے اپنی بہترین کوشش صرف کر رہے ہیں، اس لیے قدرتی طور پر وہ بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں، مگر میرا ذہن اس معاملہ میں بالکل صاف ہے کہ میرا اصل نشانہ جماعت اسلامی کے افراد یا جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک مخصوص لٹریچر ہے۔

اس سلسلے میں خط و کتابت کا جو حصہ میں شائع کر رہا ہوں، ممکن ہے اس سے بھی کسی کو شکایت ہو مگر ایسا کرنا میرے لیے ضروری تھا، تاکہ ناظرین پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے کہ میں نے الگ تھلگ بیٹھ کر کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں کر لیا ہے، بلکہ اصل بحث کے انتہائی متعلق افراد سے طویل مراجعت کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے لیے اس کتاب کو شائع کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اگر میں اس روداد کو شائع نہ کروں تو کوئی بھی شخص یہ سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں ہو سکتا کہ اس معاملے میں حجت میری طرف ہے یا میرے مخاطبین کی طرف۔ یہ خط و کتابت میرے لیے یہ معنی رکھتی ہے کہ میں اپنے اس احساس میں حق بجانب ہوں کہ ’’دین مجروح ہوا ہے‘‘ اور میرا یہ فیصلہ درست ہے کہ مجھے ان مضامین کو شائع کر دینا چاہیے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion