جواب
اعظم گڑھ، 27 دسمبر 1962ء
محترمی مولاناابواللیث صاحب سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 19 دسمبر ملا۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ اصل مسئلہ سے گریز کر کے ہر بار کچھ ایسی باتیں لکھ دیتے ہیں جس کے بعد آپ کی طرف سے میری تحریر کا ایک قانونی جواب تو ہو جاتا ہے مگر اصل مسئلہ پھر بھی باقی رہتا ہے۔
مولانا صدر الدین صاحب کی شرط کو انکار میں نے اس لیے کہا تھا کہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ میرے انداز تبصرہ میں وہ کون سی خرابی ہے جس کی بنا پر وہ میرے تبصرہ کا جواب نہیں دے سکتے۔ میں نے خط لکھ کر ان سے پوچھا تھا۔ مگر اس کے جواب میں انہوں نے دوسری بات لکھ دی۔ اور میرے انداز کی خرابی کی وضاحت نہیں فرمائی۔ میں نے اپنے طور پر قیاس کیا تو مجھے یہی نظر آیا کہ میں نے دلیل کی بنیاد پر ان کی باتوں کو رد کیا ہے۔ اگر اس کا نام انداز کی خرابی ہے تو ظاہر ہے کہ میں کس طرح اسے چھوڑ سکتا ہوں۔ اور اگر دوسری کوئی چیز ہے تو ان کو اسے بتاناچاہیے۔
مولانا جلیل احسن صاحب کے سوال و جواب کے بارے میں آپ نے اپنے خط مورخہ 20 اکتوبر میں لکھا تھا:
’’مولانا جلیل احسن صاحب نے لکھا ہے کہ انہوں نے جو سوالات آپ کے پاس بھیجے ہیں، وہ قطعاً غیر متعلق نہیں ہیں۔ تاہم ان کا متعلق ہونا واضح نہ ہو تو اس بارے میں آپ ان سے دریافت کر سکتے ہیں‘‘ ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک ان سوالات کا صرف مولانا جلیل احسن صاحب کے ذہن میں اصل مسئلہ سے متعلق ہونا کافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ مجھے معلوم ہو کہ وہ کس طرح میرے مسئلہ سے متعلق ہیں۔ مگر میرے اصرار کے باوجود مولانا موصوف نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ اس کے باوجود اب خط میں آپ اس طرح لکھ رہے ہیں گویا مولانا جلیل احسن صاحب کے ذہن میں ان سوالات کا زیرِ بحث مسئلہ سے متعلق ہونا کافی ہے۔ میرے علم میں ان کی اس حیثیت کا آنا ضروری نہیں۔
ایسی حالت میں عرض ہے کہ اگر آپ میری باتوں کا واقعی جواب دیں تو یقیناً میں ان پر غور کروں گا۔ مگر اب تک آپ جس طرح جواب دیتے رہے ہیں اگر ویسا ہی جواب پھر دینا ہو تو میں آپ کے الفاظ دہراؤں گا کہ ’’ایسی صورت میں واقعی اب اس بات چیت کو طویل دینے سے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے اب اس سلسلے کو ختم کر دینا ہی مناسب ہو گا‘‘ ۔
اس لیے ایسے جواب کے مقابلے میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ میرا استعفیٰ منظور فرمائیں۔ اور اس جھنجھٹ سے مجھے نجات دے دیں۔
خادم۔ وحید الدین
