اس کتاب کی اشاعت میرے اوپر کتنی سخت ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ میرا جی چاہتاہےکہ اس کے شائع ہونے کے بعد میں کسی ایسی جگہ جا کر چھپ جاؤں جہاں کوئی شخص مجھے نہ دیکھے، اور پھر اسی حال میں مر جاؤں۔
وحید الدین
اگست 1963ء
دیباچہ طبع ثانی
زیرِ نظر کتاب، ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا پہلا ایڈیشن 1963 ء میں چھپا تھا۔ کتاب بہت جلد ختم ہو گئی۔ اور اس کے بعد مسلسل اس کی مانگ جاری رہی۔ مگر مختلف اسباب کے تحت دوسری بار اس کی طباعت ملتوی ہوتی رہی۔ اب بیس سال سے زیادہ عرصہ کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے۔ زیرِ ِ نظر ایڈیشن میں بعض لفظی ترمیم کے سوا اور کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ وہ تقریباً اسی صورت میں چھاپی جا رہی ہے جس صورت میں وہ 1963ء میں چھپی تھی۔ قدیم ترتیب میں’’ضمیمہ‘‘کتاب کے آخر میں تھا۔ اب جدید ترتیب میں وہ درمیان میں شامل کر دیا گیا ہے۔
زیرِ بحث فکر کے جن اکابر سے میری گفتگو اور خط و کتابت ہوئی تھی۔ اس کی پوری روداد حسب سابق کتاب میں شامل ہے۔ تاہم ان حضرات نے کتاب کی اشاعت کے بعد تحریری طور پر دوبارہ کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سب کے سب اس معاملےمیں خاموش رہے۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ( 1903-1979)کی تفہیم القرآن جلد چہارم میری اس کتاب کے بعد شائع ہوئی۔ اس میں سورۃ الشوریٰ کی آیت اَقِيْمُوا الدِّيْنَ (42:13)کے تحت بڑے سائز کے تقریباً سات صفحات کی تشریح درج ہے۔ اس تشریح میں متعدد ایسے داخلی قرائن موجود تھے جن سے یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ مولانا مودودی نے اس میں’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا جواب دیا ہے۔ ان کا یہ طویل حاشیہ نہ صرف یہ کہ پورا کا پورا جوابی انداز میں ہے بلکہ اس میں اسی طرح کے اشاراتی الفاظ بھی موجود ہیں:
’’کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے‘‘۔
’’سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے‘‘۔
چنانچہ تفہیم القرآن حصہ چہارم کی اشاعت کے بعد میں نے صاحب تفہیم کو خط لکھا کہ سورۃ الشوریٰ کی مذکورہ آیت کی تشریح میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اگر میرا جواب ہو تو میں اس کی تردید شائع کروں۔ کیوں کہ میرے نزدیک یہ ساری بحث بالکل غیر متعلق ہے۔ اس کے جواب میں موصوف کا خط آیا جس میں انہوں نے اس سے انکار کیا کہ انہوں نے تفہیم القرآن کے مذکورہ حواشی میں میری کتاب کا جواب دیا ہے۔ میرے نزدیک یہ صرف علمی کم ہمتی تھی کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ انہوں نے اَقِيْمُوا الدِّيْنَ(42:13) کی تشریح میں میرے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ تاہم ایک دستی ذریعہ سے میں نے اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ بھیج دی تھی جو مولانا مودودی کے خط مورخہ 5 فروری 1979ء کے مطابق ان کی زندگی میں انھیں مل گئی۔
البتہ زیرِِ بحث فکر کے اصاغر میں سے بعض لوگوں نے اس کے جوابات شائع کیے۔ ان میں سے ایک جناب عامر عثمانی صاحب (وفات 1975ء) تھے۔ انہوں نے تعبیر کی غلطی کے اصل علمی اعتراضات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ اپنے مخصوص مذاق کے مطابق تعبیر کی غلطی کے مصنف کا استہزاء کر کے یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ اس قابل ہی نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔ جناب عامر عثمانی صاحب کا یہ طویل مضمون ان کے ماہنامہ تجلی میں 1965ء کے آغاز میں چھپا تھا۔ اس کے جواب میں میں نے ایک مضمون بعنوان ’’تنقید یا مسخرہ پن‘‘ لکھا۔ یہ مضمون اولاً ماہنامہ نظام (کانپور) میں دسمبر 1965ء میں چھپا اور اس کے بعد بعض دوسرے جرائد میں نقل کیا گیا۔ اس مضمون میں خالص علمی انداز میں جناب عامر عثمانی صاحب کی باتوں کا بے بنیاد ہونا واضح کیا گیا تھا۔ ’’تنقید یا مسخرہ پن‘‘ ایک کتابی مجموعہ میں الگ سے شائع کیا جا رہا ہے جس کا نام ہے— جائزے۔
میرے اس مضمون کی اشاعت کے بعد جناب عامر عثمانی صاحب اس موضوع پر بالکل خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد بھی اگرچہ وہ دس سال تک زندہ رہے ، مگر پھر کبھی انہوں نے تعبیر کی غلطی کے مباحث پر براہ راست اظہار خیال نہیں کیا۔ غالباً ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے تجلی کے حاصل مطالعہ نمبر (اگست 1966ء) میں اس کی تلافی فرمائی۔ اس نمبر میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سمیت بہت سے بڑے بڑے مصنفین کا تذکرہ تھا۔ مگر اس نمبر کا سب سے پہلا اور سب سے نمایاں مضمون وہ تھا جو راقم الحروف کے بارے میں تھا۔ جناب عامر عثمانی صاحب نے میری کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے میرے بارے میں نہایت شاندار الفاظ لکھے تھے۔
حتیٰ کہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ انہوں نے اس کتاب (مذہب اور جدید چیلنج) کے اعتراف میں اپنے آخری الفاظ تک صرف کر دیے۔
میرا گمان ہے کہ مولانا جلیل احسن ندوی (وفات 1981ء) کا معاملہ بھی غالباً ایسا ہی ہوا۔ تعبیر کی غلطی کے سلسلے میں انہوں نے بھی ابتداء ً استہزا کا انداز اختیار کیا تھا۔ مگر اس کے بعد جب 1976ء میں ماہنامہ الرسالہ جاری ہوا تو انہوں نے اس کی بڑی قدردانی فرمائی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ الرسالہ اسی دینی تصور کے تحت نکالا گیا ہے، جو تعبیر کی غلطی میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مولانا جلیل احسن صاحب نہ صرف الرسالہ کے مستقل قاری تھے، بلکہ وہ اس کے خریدار بھی تھے۔ الرسالہ کے سلسلے میں انہوں نے کئی بار ہمت افزائی کے خطوط لکھے۔ میرا احساس ہے کہ وہ بلا اعلان میرے ہم خیال ہو چکے تھے۔
اس حلقۂ فکر میں کچھ اور افراد ہیں جنہوں نے اپنے خیال کے مطابق ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا رد کیا ہے۔ ان حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری کتاب میں کہیں بھی نہ تعبیر کی غلطی کا نام لیا، اور نہ اس کی اصل عبارت نقل کی۔ انہوں نے خود ساختہ طور پر کچھ مفروضہ اعتراضات قائم کر کے اس کا رد کیا اور سمجھ لیا کہ انہوں نے تعبیر کی غلطی کا رد کیا ہے۔ مگر اس قسم کی تمام تحریریں خود اپنا رد ہیں، نہ کہ تعبیر کی غلطی کا رد۔ یہ حضرات جانتے تھے کہ اگر وہ تعبیر کی غلطی کی اصل عبارت نقل کریں تو وہ علمی طور پر گرفت میں آجائیں۔ اس لیے انہوں نے خود ہی اعتراضات قائم کیے اور خود ہی اپنے قائم کردہ اعتراضات کا جواب تحریر کر دیا، اور پھر سمجھا کہ انہوں نے تعبیر کی غلطی کو رد کر دیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے جس چیز کو رد کیا تھا وہ ان کے اپنے مفروضات تھے، نہ کہ تعبیر کی غلطی کے اعتراضات۔
حقیقت یہ ہے کہ تعبیرکی غلطی میں جس فکر کو زیرِ بحث لایا گیا ہے، وہ علمی میدان میں سراسر شکست کھا چکا ہے۔ مگر اس کے افراد کی عصبیت ان کو اعتراف پر آمادہ نہیں ہونے دیتی۔ اپنی شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ اب وہ اس طرح کر رہے ہیں کہ وہ نہایت منظم طور پر راقم الحروف کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں، ’’تنقید‘‘ کے میدان میں اپنے کو عاجز پا کر وہ ’’تنقیص‘‘ کے میدان میں اتر آئے ہیں۔ کاش انھیں معلوم ہوتا کہ اس طرح وہ اپنے کیس کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ وہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف علمی دیوالیہ پن کا شکار ہیں، بلکہ وہ اخلاقی دیوالیہ پن میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔
قرآن مجید کی ایک آیت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لا تَسْمَعُوا لِهذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (41:26)۔اور کفر کرنے والوں نے کہاکہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں عیب لگاؤ شاید تم غالب ہو جاؤ۔
اس آیت میں وَالْغَوْا فِيهِ کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عَیَّبُوہ سے کی ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد 4، صفحہ98)۔ یعنی قرآن اور صاحب قرآن پر عیب لگاؤ۔
حضرت عبداللہ بن عباس کی اس تشریح کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی کے خلاف اظہار خیال کے دو طریقے ہیں۔ ایک تنقید، اور دوسرا تعییب۔ تنقید کا مطلب ہے بینات (واضح دلائل) کی بنیاد پر اس کو رد کرنا، اور تعییب کا مطلب ہے اس پر عیب لگانا، اس کو الزام تراشی کا نشانہ بنانا۔ تنقید کا طریقہ اسلامی طریقہ ہے۔ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ دلیل و برہان کی روشنی میں کسی شخص کے افکار کاتجزیہ کرے۔ مگر تعییب کا طریقہ سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے۔ یہ قرآن کے نزدیک اہل کفر کی روش ہے۔ جو لوگ کسی شخص کے خلاف تعییب کی مہم چلائیں انھیں سوچنا چاہیے کہ اپنی اس روش کے ذریعےوہ کس کے ساتھ اپنے آپ کو بریکٹ کررہے ہیں۔
وحید الدین
6 اکتوبر 1986ء
