معرفت کے دو درجے

اس دریافت کے دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ ہے کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا، اور دوسرا درجہ ہے سائنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ پچھلے ہزارو ں سال سے انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے کامن سنس کو بے آمیز انداز میں استعمال کرے۔ وہ اپنی فطرت کو پوری طرح بیدار کرے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ وہ کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کی شعوری معرفت حاصل کرلے۔ اس دریافت کی صرف ایک شرط تھی، اور وہ ہے ایمانداری (honesty)۔ اگر آدمی کامل ایمانداری کی سطح پر جینے والا ہو تو یقینی طور پر کامن سنس اس کے لیے اپنے خالق کی دریافت کے لیے کافی ہوجائے گی۔

معرفت کی دوسری سطح ، سائنٹفک معرفت ہے۔ یعنی فطرت (nature) میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو جاننا، اور ان کی مدد سے اپنے خالق کی عقلی معرفت (rational realization) تک پہنچنا۔ سائنٹفک معرفت کے لیے ضروری تھا کہ آدمی کے پاس غور و فکر کے لیے سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ مجرد عقلی غور و فکر کے ذریعے سائنٹفک معرفت کا حصول ممکن نہیں۔ سائنٹفک معرفت تک پہنچناکسی کے لیےصرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ اس سائنٹفک ڈیٹا کے حصول کا واحد ذریعہ قوانینِ فطرت (laws of nature) کا علم ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کو قوانینِ فطرت کا علم حاصل نہ تھا۔ اس لیے خالق کی سائنسی معرفت بھی انسان کے لیے ممکن نہ ہوسکی۔

خالق کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو مینج کرتا ہے، یعنی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق مطلوب حالت تک پہنچاتا ہے۔ خالق اپنا یہ کام انسانی آزادی کو منسوخ کیے بغیر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ کام ہے، اور اس کو خالق کائنات ہی اپنی بر تر طاقت کے ذریعہ انجام دے سکتا ہے۔ ہمارا کام اس منصوبۂ خداوندی کو سمجھنا ہے، نہ کہ اس کے کورس کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ کیوں کہ وہ ممکن ہی نہیں۔

قرآن کے ذریعے اللہ تعالی نے بار بار اہلِ ایمان کو یہ بتایا تھا کہ کائنات انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ تم ان تسخیری قوانین کو دریافت کرو، تاکہ تم معرفت کے اس درجے تک پہنچ سکو، جس کو سائنسی معرفت کہا جاتا ہے۔ مگر اہلِ ایمان اس کام کو کرنےمیں عاجز ثابت ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی سنت کے مطابق اس کام کے لیے ایک اور قوم کو کھڑا کیا (محمد،47:38) ۔ یہ یورپ کی مسیحی قوم تھی۔ایسا اس طرح ہوا کہ صلیبی جنگوں (Crusades) میں یورپ کی مسیحی قوم کو اتنی سخت شکست ہوئی کہ بظاہران کے لیےجنگ کا آپشن(option)باقی نہ رہا۔ اب عملاًان کےلیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کریں ، اوراپنی کوشش کسی دوسرےمیدان میں جاری رکھیں۔ چنانچہ انھوں نے میدانِ جنگ کے بجائے قوانینِ فطرت (laws of nature) کے دریافت کی طرف بتدریج اپنی کوششوں كا رخ موڑ (divert) دیا۔

اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (وفات1642ء) کو فادر آف ماڈرن سائنس (father of modern science) کہاجاتاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہی وہ پہلا سائنس داں تھا، جس سے ماڈرن سائنس کا سفر باقاعدہ صورت میں شروع ہوا۔ یہ عمل تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ بیسویں صدی میں انسان کو وہ تمام سائنٹفک ڈیٹا حاصل ہوگئے، جو خالق کو سائنسی سطح یا ریشنل لیول پر دریافت كرنے کے لیے ضروری تھے۔

اللہ نے جس عالم کو تخلیق کیا، اس کے ہر جزء پر خالق کی شہادت ثبت (stamped) ہے۔ پھر اس نے اس علم سے فرشتوں کو واقف کرایا۔ اس کے بعد اس نے اس حقیقت کو چھپے طور پر (hidden form)اس کائنات میں رکھ دی، جس کو انسان خود سے دریافت کرسکتا تھا۔ یہی وہ چھپی حقیقت ہے جودریافت کے بعد ماڈرن سائنس کےنام سے جانی جاتی ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom