توحيد كا عقيده اور انسان

انسان كائنات كا صرف ايك حقير حصه هے۔ كائنات جس طرح مكمل طورپر اپنے خالق اور مالك كے تابع هے، وهي انسان سے بھي مطلوب هے۔ انسان كے ليے درست طرز ِعمل صرف يه هے كه وه اِس حقيقتِ واقعه كو تسليم كرے، اور خدا كي اطاعت كو قبول كركے بقيه كائنات كا هم سفر بن جائے۔ خدا جس طرح ساري كائنات كو سنبھالے هوئے هے، اسي طرح انسان كے معاملات بھي اسي وقت سدھر سكتےهيں، جب كه وه اپنے آپ كو خدائي كنٹرول ميں دے چكا هو۔ كائنات كي صحت كاركردگي كا سبب يه هے كه اس نے اپنے آپ كو خدائي اخلاقيات كے رنگ ميں رنگ ليا هے۔ انساني زندگي كي درستگي كا راز بھي يهي هے كه وه خدائي اخلاقيات ميں اپنے آپ كو رنگنے كي كوشش كرے۔

توحيد تمام بھلائيوں كا سرچشمه هے، اور هر قسم كي خرابيوں كي جڑ يه هے كه توحيد دنيا ميں قائم نه هو۔ توحيد كيا هے۔ اس حقيقتِ واقعه كا تحقق كه اس كائنات كا پيدا كرنے والا، اس كو سنبھالنے والا اور هر قسم كي قوتوں كاواحد مالك صرف ايك الله هے۔ اس كے سوا كسي كو اس كائنات ميں كسي قسم كا كوئي اختيار حاصل نهيں۔ ذرے (atoms)سے لے كر كهكشاني نظاموں تك سارا عالم اس حقيقتِ توحيد كي براهِ راست گرفت ميں هے۔ وه مكمل طورپر ايك مالك الملك كے زيرِ انتظام هے۔ يهي وجه هے كه پورا عالم اپني تمام وسعتوں كے ساتھ ٹھيك ويسا هي هے، جيسا كه في الواقع اس كو هونا چاهيے۔ اس كي كارگزاري ميں آج تك كسي ادني نقص كا مشاهده نه كياجاسكا۔ وه اتني كامل صحت كے ساتھ چل رها هے كه كھرب ها كھرب سال كے اندر بھي اس كي رفتار ميں ايك سكنڈ كا فرق نهيں پڑتا۔

موجوده زمانے ميں خدا كے وجود كے خلاف جو دليليںپيش كي گئي هيں، ان ميں سب سے اهم وه هے جس كو نقص كا مسئله (problem of evil)كها جاتا هے۔ يه کہا جاتا هے كه كائنات ميں نقائص هيں۔ ان نقائص كي موجودگي ميں يقين نهيں كيا جاسكتا كه اس كوكسي حكمت والے خدا نے بنايا هے۔ اس سلسلے ميں ايك شخص نے يه مثال دي هے كه زمين كي قوتِ كشش (force of Gravity) اس سے بهت زياده هے جتنا كه اس كو هونا چاهيے۔ چنانچه چند ميٹر كي بلندي سے گرنے ميں آدمي كا پاؤں ٹوٹ جاتا هے۔ اگر قوتِ كشش كم هوتي تو ايسا نه هوتا۔

 مگر اس قسم كي بات صرف كمتر غور وفكر كا نتيجه هے۔ كهنے والا يه بھول گيا كه گرنا تو ايك حادثه هے، جو معمول كے خلاف كبھي پيش آتا هے۔ ليكن اگر زمين كي قوتِ كشش كم هوتي تو اس پر معمول كي زندگي هي درهم برهم هوجاتي — انسان مضبوطي كے ساتھ زمين پر قائم نه ره سكتا، هماري ريليں پٹريوں پر نه دوڑ سكتيں، همارے مكانات اور كارخانے اكھڑ جاتے، پاني زمين پر نه ٹھير سكتا، وغيره۔ حقيقت يه هے كه وه چيز جس كو بعض لوگوں نے نظام فطرت كا نقص سمجھاهے، وه نظامِ فطرت ميں اعتدال وتوازن كا ثبوت هے۔ قرآن كے يه الفاظ نا قابلِ چيلنج حد تك صحيح هيں:(ترجمہ)الله نے بنائے سات آسمان اوپر تلے۔ تم الله كے اس بنانے ميں كوئي فر ق نه ديكھو۔ تم پھر نگاه ڈال كر ديكھ لو۔ كيا تم كو كوئي خلل دكھائي ديتاهے۔ بار بار نگاه ڈال كر ديكھو۔ تمھاري نگاه عاجز هو كر اور تھكي هوئي تمھاري طرف لوٹ آئے گي (67:3-4) ۔

کائنات كا اس طرح بے عيب اور خالي از نقص هونا اس ليے هے كه وه براهِ راست خدا كے كنٹرول ميں هے۔ وه خدا كي صفات كا مادي ظهور هے۔ مگر انساني دنيا كا معامله اس سے مختلف هے۔ اينٹن چيخوف (Anton Pavlovich Chekhov, 1860-1904)نے صحيح كها هے كه ’’يه دنيا بے حد حسين هے۔ اس ميں صرف ايك هي چيز هے جو حسين نهيں، اور وه انسان هے۔‘‘ انسان ساري معلوم كائنات ميں واحد مخلوق هے، جواپنے جیسےانسانوں كے ساتھ عداوت كرتا هے (سوره البقره ، 2:36) ۔وه زمين پر اصلاح كے بجائے فساد برپا كرتا هے (سوره الاعراف، 7:56)۔ وه ايسي كارروائياں كرتا هے، جس كے نتيجے ميں كھيتياں اور نسليں برباد هوں (سوره البقره، 2:205)، وغیرہ۔

 دو دنياؤں ميں يه فرق كيوں هے۔ اس كي وجه يه هے كه بقيه كائنات براهِ راست الله كے حكم كے تحت چل رهي هے۔ وه ويسي هي رهنے كے ليے مجبور هے جيسي كه خدا چاهتاهے كه وه رهے۔ مگر انسان كو الله كي طرف سے آزادي ملي هوئي هے۔ وه اپنے ارادے كے تحت صحيح يا غلط راستے پر چلنے كا اختيار ركھتاهے۔ انساني دنيا ميں بگاڑ كي وجه تمام تر يهي هے۔ بقيه دنيا خدا كي مرضي كي پابند هے، اس ليے وه مكمل طورپر درست هے۔ اس كے برعكس، انسان اپني خواهشوں كي پيروي كرتاهے۔ اس ليے اس كے سارے معاملات ميں فساد اور بگاڑ برپا رهتا هے۔ هر برائي جو زمين پر پائي جاتي هے، وه انساني آزادي كا غلط استعمال هے۔ انسان نے فرشتوں كے اس انديشے كو ساري تاريخ ميں درست ثابت كيا هے، جو انھوں نے اس كي پيدائش كے وقت خدا كے سامنے ظاهر كيا تھا:’’كيا تو ايسے لوگوں كو زمين ميں اختيار دے رها هے جو وهاں فساد كرے اور خون بهائے (سوره البقره، 2:30)۔

يه آزادي جو انسان كو حاصل هے، يه مطلق آزادي نهيں۔ يه صرف وقتي آزادي هے، اور خاص منصوبے كے تحت دي گئي هے۔يه دراصل امتحان كي آزادي هے (سوره الملك، 67:2)۔ كائنات كا مالك يه ديكھنا چاهتاهے كه ان ميں سے كون هے، جو آزادي پاكر بھي آزادي كا غلط استعمال نهيں كرتا۔ تاكه وه ايسے لوگوں كو اپنے انعامات سے نوازے(سوره الرعد،13:22)۔ دنيا كا موجوده نظام صرف اس وقت تك هے ،جب تك جانچ كا يه عمل پورا نهيں هوجاتا۔ اس مدت كے پورا هونے كے بعد زمين كا مالك زمين كا انتظام بھي براهِ راست اپنے هاتھ ميں لے لے گا، جس طرح وه بقيه كائنات كا انتظام اپنےهاتھ ميں ليے هوئے هے (سوره مريم، 19:40)۔ اس وقت اچھے اور برے ايك دوسرے سے الگ كردیے جائيں گے (سوره آل عمران، 3:197)۔ اچھے لوگوں كو ابدي طور پر جنتي زندگي حاصل هوگي، اور برے لوگ ابدي طورپر کائناتی کوڑا خانے ميں دھكيل دیے جائيں گے۔

دوسرے لفظوں ميں يه كه موجوده دنياوه مقام هے جهاں آنے والي خدائي دنياكے شهري چنے جارهے هيں۔ جو لوگ آزاد هونے كے بعد بھي اپنے آپ كو الله كا حكم بردار بنائيں گے، جو مجبور نه هوتے هوئے بھي الله كي مرضي كو اپنے اوپر طاري كريں گے، وهي الله كے نزديك اس قابل ٹھيريں گے كه وه الله كي دنيا كے شهري بن سكيں۔ آج امتحان كے وقفے ميں هر طرح كے لوگ زمين پر بسے هوئے هيں۔ مگر امتحان كي مدت ختم هونے كے بعد صرف صالح لوگ خدا كي اس ابدي دنيا كے وارث قرار پائيں گے (سوره الانبياء، 21:105)، اور بقيه لوگوں كو اس سے بے دخل كركے دور پھينك ديا جائے گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom