بگ بینگ، لٹل بینگ
انسان ہمیشہ یہ سوچتا رہا ہے کہ موجودہ کائنات کیسے بنی۔ وہ عقلی سطح پر اِس کا جواب پانا چاہتا تھا۔ بیسویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں پہلی بار انسان کواِس کا عقلی جواب ملا۔ فلکیاتی سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ تقریباً 13.8 بلین سال پہلے، خلا میں ایک انفجار(explosion)ہوا۔ اِس انفجار کو عام طورپر بگ بینگ (Big Bang)کہا جاتا ہے۔ فلکیاتی سائنس کے اعتبار سے، اِسی بگ بینگ کے بعد بتدریج موجودہ کائنات وجود میں آئی۔
تاہم ایک سوال کا عقلی جواب ابھی باقی تھا، وہ یہ کہ ہمارا شمسی نظام (solar system) کیسے بنا۔ شمسی نظام، ساری کائنات میںایک استثنائی نظام ہے۔ اِس نظام کے اندر سیارۂ زمین ایک انتہائی استثنائی قسم کا سیارہ ہے۔ علمائےفلکیات اِس بات کی عقلی توجیہہ نہیں کرسکے تھے کہ کائنات میں استثنائی قسم کا موجودہ شمسی نظام کیسے بن گیا۔
بگ بینگ کی دریافت کے تقریباً سو سال بعد، اکیسویں صدی کے رُبعِ اول میں، سائنس دانوں نے سوئزر لینڈ میں کچھ خصوصی تجربات کیے۔ اِن تجربات کے دوران یہ معلوم ہوا کہ بگ بینگ کے واقعے کے بہت بعد خلا میں ایک چھوٹا انفجار ہوا۔ اِس کو سائنس دانوں نے لٹل بینگ (Little Bang) کا نام دیا ہے۔ اِس لٹل بینگ کے بعد شمسی نظام وجود میں آیا اور بتدریج وہ استثنائی سیارہ بنا جس کو زمین (planet earth)کہا جاتا ہے۔
بگ بینگ اور لٹل بینگ کی یہ دونوں سائنسی دریافتیں بتاتی ہیں کہ کائنات کی تخلیق ایک اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کے ذریعے ہوئی۔ یہ کائنات کسی اتفاق (accident) کے ذریعے وجود میں نہیں آئی، بلکہ وہ ایک بالقصد منصوبے کے ذریعے وجود میں آئی۔ یہ واقعہ اپنے آپ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کائنات کی ایک منزل ہے۔ یہ کائنات پورے معنوں میں ایک با معنیٰ کائنات ہے، اور ایک بامعنیٰ کائنات کسی بے معنی انجام پر ختم نہیں ہوسکتی۔