خدا کا فلسفیانہ تصور
آرین مذاہب میں وحدتِ وجود (monism) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کے مطابق، خدا کا اپنا کوئی فارم نہیں ہے۔ وہ ایک نراکار خدا (formless God) ہے۔ اِس تصور کے مطابق، خدا کی اپنی کوئی الگ ہستی نہیں ہے۔ دنیا میں جو چیزیں دکھائی دیتی ہیں، وہ سب کی سب اِسی بے وجود خدا کا وجودی اظہار ہیں۔ یہ تصور دراصل ایک فلسفیانہ تصور ہے۔ فلاسفہ عام طورپر اِسی معنیٰ میں خدا کو مانتے رہے ہیں۔ وہ خدا کو اسپرٹ (spirit) یا آئیڈیا (idea)جیسے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ یہی فلسفیانہ تصور آرین مذاہب میںایک عقیدے کے طورپر شامل ہوگیا۔
خدا کا یہ غیر وجودی تصور محض ایک بے بنیاد قیاس (speculation) ہے۔ حقیقی معنوںمیں اس کی کوئی استدلالی بنیاد موجود نہیں۔ پہلی بات یہ کہ تخلیق کی صورت میں ہم جس کائنات کا تجربہ کرتے ہیں، وہ پورے معنوں میںایک فارم (form) ہے۔
یہ کہنا ایک غیر منطقی بات ہے کہ ایک خدا جو محض ایک اسپرٹ یا آئڈیا تھا، جس کی اپنی کوئی ہستی نہ تھی، اس نے اتنے بے شمار قسم کے فارم پیدا کردیے۔ خدا وہی ہے جس کے اندر تخلیق کی صفت پائی جاتی ہو، اور اسپرٹ یا آئڈیامیں تخلیق کی صفت سرے سے موجود نہیں۔ اِس لیے یہ نظریہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے:
Prima facie it stands rejected.
سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، اس کی تمام چیزیں ایٹم سے مرکب ہیں۔ اس کو لے کر کہا جاتا ہے کہ سائنس کے مطالعے سے کائنات میںوحدت (oneness) کا ثبوت ملتا ہے، یعنی تمام مادی چیزوں میں استثنا کے باوجود یکسانیت (uniformity amids exception)ہے۔مگر یہ استدلال درست نہیں۔ کائنات میں مادّی اجزا کے اعتبار سے ضرور وحدت ہے، لیکن اِن مادی اجزا کی ترکیب سے جو چیز بنی، اس کے اندر غیر معمولی ڈزائن (design) موجود ہے، اور ڈزائن صرف ایک ذہن کی تخلیق ہوتی ہے، نہ کہ کسی بے فارم اسپرٹ کی تخلیق۔