ذره بھي غائب نهيں
هوابازي كے قانون كے مطابق باره هزار پاؤنڈ سے زياده وزني هوائي جهازوں كے ليے ضروري هے كه وه اپنے ساتھ بليك باكس ركھيں۔ بليك باكس دو چھوٹے چھوٹے خاص قسم كے ٹيپ ريكارڈ هيں۔ جس ميں سے ايك كو فلائٹ ريكارڈر اور دوسرے كو وائس ريكارڈر كها جاتا هے۔ ان ميں سے هر ايك اوسطاً 20 انچ لمبا اور 6انچ چوڑا هوتاهے۔ اس كا وزن كم وبيش 25پاؤنڈ هوتا هے۔ يه دونوں ريكارڈ هوائي جهاز كي دم ميں ركھ ديئے جاتےهيں تاكه حادثے كے وقت محفوظ ره سكيں۔ وه مخصوص نظام كے تحت پائلٹ كي آواز، جهاز كي رفتار اور دوسري ضروري معلومات ريكارڈ كرتے رهتے هيں۔ ان كا ٹيپ آٹوميٹك طور پر هر آدھ گھنٹے ميں مٹ جاتا هے تاكه جهاز كے آخري لمحات كا حال ان سے معلوم هوسكے۔
23 جون 1985 كو ايك سخت هوائي حادثه هوا۔ اير انڈيا كا ايك بڑا جهاز (بوئنگ 747) كناڈا سے لندن هوتاهوا هندستان آرها تھا۔ زميني كنٹرول جهاز كي لمحه لمحه رپورٹ لے رها تھا۔ اچانك اس كي كمپيوٹر اسكرين پر جهاز كي تصوير غائب هوگئي۔ جهاز سے پيغامات آنا بالكل بند هوگئے۔ جهاز ايك حادثے كا شكار هو كر اچانك اٹلانٹك سمندر ميں گر پڑا تھا۔ جهاز پر 329 مسافر تھے جو سب كے سب هلاك هوگئے۔ ان ميں سے كوئي بھي زنده نه بچا، جو حادثے كي تفصيلات دنيا والوں كو بتا سكے۔
اب حادثے كي بابت معلوم كرنے كا ذريعه صرف وه بليك باكس تھا، جو اٹلانٹك سمندر ميں ته نشیں هو كر ره گيا تھا۔ اٹلانٹك سمندر دنيا كا دوسرا سب سے بڑا سمندر هے۔ اس كا رقبه چھوٹے چھوٹے ذيلي سمندروں كو ملا كر چار كرور گياره لاكھ مربع ميل هے۔ اس ناپيدا كنار سمندر ميں بليك باكس كي حيثيت صرف ايك چھوٹے سے ذره كي تھي، جو سمندر كے نيچے دو ميل كي گهرائي ميں پڑا هوا تھا۔ بہ ظاهر اس ذرے كو سمندر سے نكالنا ناممكن تھا۔ مگر يه ناممكن ممكن هوگيا، اور 10 جولائي 1985 كو وائس ريكارڈر اور 11 جولائي 1985 كو فلائٹ ريكارڈ ر گهرے سمندر كي ته سے نكال ليا گيا۔
يه غیر معمولی کرشمہ كيسے پيش آيا۔ وه ریموٹ سے كنٹرول كيے جانے والے مشيني انسان (remote-controlled robot) كے ذريعے پيش آيا۔ بليك باكس ميں ايسي مشينيں هوتي هيں، جن كے ذريعه وه ريڈيائي سگنل بھيجتا رهتا هے۔ يه سگنل اس سے هر سكنڈ ميں نكلتے هيں، اور تيس دن تك جاري رهتے هيں۔ فرانس اور امريكا اور برطانيه كي جديد سامان سے مسلح كشتيوں نے سگنل كے ذريعے ان كے جائے وقوع كا ٹھيك ٹھيك پته لگا ليا۔ اس كے بعد مخصوص كيمره كے ذريعے اس كي تصويريں لي گئيں۔ پھر مشيني انسان (robot) سمندر كي تهه ميں بھيجے گئے۔ جو انسان كي مانند بازو اور هاتھ اور انگلياں ركھتے هيں۔ يه روبوٹ ريڈيائي لهروں سے كنٹرول هوتےهيں۔ انسان سمندر كے اوپر مشيني اسكرين پر سارا منظر ديكھتا هے، اور ريڈيائي لهروں كے ذريعے روبوٹ كي رهنمائي كرتاهے، تاكه وه متعين مقام پر پهنچ كر بليك باكس كو اپنے هاتھوں سے پكڑ لے، اور پھر اوپر لاكر انسان كے حوالے كردے۔
يه طريقه تھا جس كو استعمال كركے سمندر کی گہرائی سے ايك چھوٹے سے ذرے كو نكال ليا گيا، اور اس نے جهاز كے حادثے كي ساري كهاني انسان كو بتادي۔جب ميں نے اخبارات ميں ان تفصيلات كو پڑھا تو مجھے ايسا محسوس هوا، جيسے اِس واقعے كي صورت ميں اُس عظيم تر واقعه كا اظهار (demonstration) دياجارها هے، جو قرآن ميں ان لفظوں ميں بيان هوا هے:وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (10:61)۔ يعني تیرے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز غائب نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔