تین علمی اصول
جیسا کہ معلوم ہے ، اس طرح کے معاملے میں تین علمی اصول سائنٹفک متھڈ کے تین اجزا ہیں۔ وہ اجزا یہ ہیں— مفروضہ، مشاہدہ، اور تصدیق:
Hypothesis, Observation, Verification
اس تین نکاتی فارمولے کو عالم آخرت کے وجود کے معاملے میں استعمال کیا جائے تو ہم یقینی طورپر ایک موافق قرینہ یا ایک تائیدی امکان تک پہنچ جاتے ہیں، اور جیسا کہ عرض کیا گیا، قرینہ یا امکان تک پہنچنے ہی کا دوسرا نام تیقن (certainty) ہے۔
اس موضوع کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلا قرینہ یہ سامنے آتا ہے کہ انسان دوسری تمام مخلوقات سے مختلف ہے۔ یہ انسان کی ایک استثنائی صفت ہے کہ وہ کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ انسان کے سوا جمادات اور نباتات اور حیوانات میں سے کوئی بھی نہیں جو اپنے اندر کَل کا تصور رکھتا ہو۔ اس مشاہدہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے سوا دوسری تمام مخلوقات کی منزل صرف آج ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان کی منزل آئندہ آنے والے کَل (tomorrow) سے تعلق رکھتی ہے۔
انسانی جسم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کا جسم ان گنت خلیوں (living cells) سے بنا ہے۔یہ خلیے ہر لمحہ ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اس طرح انسان کا جسم بار بار پرانے کے بعد نیا ہوتا رہتا ہے، جیسا کہ بہتے ہوئے دریا کاپانی ہر وقت پرانا اور نیا ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی شخصیت اس کے جسم سے الگ ایک مستقل وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔ جسم پر موت واقع ہوتی ہے، مگر اس کی روحانی شخصیت بدستور باقی رہتی ہے۔
اسی طرح ہر انسان کے اندر نہایت گہری خواہشیں موجود ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان خواہشات کو طلب کرنے والا ایک حیوان ہے:
Man is a desire-seeking animal.
مگر اسی کے ساتھ تجربہ بتاتا ہے کہ کسی بھی انسان کی یہ خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ ہر انسان اپنی خواہشات کے مطابق اپنے لیے ایک معیاری دنیا بنانا چاہتا ہے مگر ہر انسان جلد ہی مرجاتا ہے، اس سے پہلے کہ اس نے اپنی خواہشوں کے مطابق اپنا مطلوب کل بنایا ہو۔