خلّاق علیم
اللہ رب العالمین کی ایک صفت خلَّاق علیم ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (36:81)۔ یعنی کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کردے۔ ہاں وہ قادر ہے۔ اور وہی ہے بڑاپیدا کرنے والا، جاننے والا۔
اس آیت میں جس طرح خلّاق (the Great Creator) آیا ہے، اسی طرح اس میں علیم سے مراد علّام (the Great Knower) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین خلّاق اور علّام ہے۔ اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات اپنے آپ میں ا س کا ثبوت ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی ایک آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوںرَتق کی حالت میں تھے، پھر ہم نے ان کو فتق کیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔
رَتْق کا مطلب ہے منضم الاجزاء (joined together)، اور فَتْق کا مطلب ہےپھاڑنا (to tear apart)۔ اس آیت کی ابتدا میں أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا (کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ رتق اور فتق کا یہ واقعہ انسان کے لیے مشاہدہ کے درجے میں ایک معلوم واقعہ ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں علمی طور پر ایک معلوم واقعہ بن چکا ہے۔ جس کو عام زبان میں بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق، بگ بینگ کا واقعہ تقریباً 13.8 بلین سال پہلے خلا (space) میں پیش آیا۔ اس واقعہ کی جو تفصیلات سائنس نے دریافت کی ہے، وہ قرآن کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔
اس دریافت کے مطابق، بگ بینگ کا فلکیاتی واقعہ حیرت انگیز طور پر اس بات کا سائنسی ثبوت ہے کہ کائنات کا پیدا کرنے والا خلّاق بھی ہے اور علّام بھی۔ یعنی وہ عظیم خالق بھی ہے، اور عظیم جاننے والا بھی۔ کائنات کا پیدا کرنے والا اگرخلَّاق (بڑا پیدا کرنے والا) اور علّام (بڑا علم والا) نہ ہو تو کائنات کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہوجاتا۔ خلّاق اور علّام کے الفاظ صرف پیدائش کی خبر نہیں ہے، بلکہ وہ پیدائش کے واقعہ کی دلیل بھی ہے۔
سائنس نے جس کائناتی واقعہ کو دریافت کیا ہے، وہ یہ ہے کہ تقریباً 13.8 بلین سال پہلے اچانک خلا میں ایک بہت بڑا ایٹم ظاہر ہوا اس سوپر ایٹم (super atom)کے اندر وہ تمام پارٹکل موجود تھے، جن کے مجموعے سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ پھر اچانک اس سوپر ایٹم میں بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ اس عظیم دھماکے کے بعد سوپر ایٹم کے تمام پارٹکل غیر معمولی تیزی کے ساتھ خلا میں دوڑنے لگے۔ان کی رفتار (speed)بے حد تیز تھی۔ اگر پارٹکل کا یہ انتشار اسی تیزی کے ساتھ جاری رہتا تو موجودہ کائنات کا بننا ناممکن تھا۔ کیوں کہ اس کے تمام پارٹکل بے حد تیزی کے ساتھ خلا میں منتشر ہوجاتے۔ ان کا اجتماع ناممکن ہوجاتا۔ اس لیے کائنات کا بننا بھی ناممکن ہوجاتا۔
سائنسی دریافت بتاتی ہے کہ سوپر ایٹم کے پھٹنے کے بعد کچھ سیکنڈوں کے اندر پارٹکل کے انتشار کی رفتار اچانک کم ہوگئی۔ رفتار کا یہ کم ہوجانا بے حد اہم تھا۔ کیوں کہ اسی کی وجہ سے منتشر پارٹکل دوبارہ مجتمع ہونے لگے، اور ان کے اجتماع سے تمام ستارے اور کہکشائیں، اور شمسی نظام، وغیرہ، وجود میں آئے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جس ہستی نے سوپر ایٹم میں یہ انفجار برپا کیا، وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کے ساتھ سب سے بڑا جاننے والا بھی تھا۔ اس واقعے کا اس کےخالق کو پیشگی علم تھا۔ اس علم کے مطابق اس نے اس معاملے کی پلاننگ کی۔ سیکنڈ کے فریکشن میں ہونے والے اس واقعے کا اس کو پیشگی علم نہ ہوتا تو ساری پلاننگ عبث ہوجاتی، اور کائنات کاوجود میں آنا ناممکن ہوجاتا۔ یہ سائنسی دریافت رب العالمین کے خلّاق وعلّام ہونے کا ایک یقینی ثبوت ہے۔