حادثہ، توجیہہ کے لیے کافی نہیں
Predictable Universe
اپنی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ (God Arises) مَیں نے 1964میں لکھی تھی۔ اس کتاب میں دکھایا گیا تھا کہ یہ کائنات بے حد بامعنٰی کائنات ہے۔ ایسی بامعنٰی کائنات کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی۔ اس میں جو باتیں درج تھیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی :
’’11اگست 1999ء میں ایک سورج گرہن واقع ہوگا جو کارنوال (Cornwall) میں مکمل طور پر دیکھا جاسکے گا :
On August 11, 1999, there will be a Solar eclipse that will be completely visible at Cornwall". (p. 99)
میں نے یہ بات 11اگست 1999 سے 35 سال پہلے لکھی تھی۔ اس تحریر کے 35 سال بعد جب 11اگست 1999 کی تاریخ آئی تو اس پیشگی بیان کے عَین مطابق ٹھیک مقرّرہ وقت پر سورج گرہن ہوا۔ اِس کے واقع ہونے میں ایک منٹ کا بھی فرق نہیں ہُوا۔
میں نے یہ بات بطور خود نہیں لکھی تھی، بلکہ وہ علمائے فلکیات کے حسابات (calculations) کی بنیاد پر لکھی تھی۔ علمائے فلکیات پیشگی طورپَر اتنا صحیح اندازہ کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ کائنات انتہائی محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ کروروں سال گزرنے پر بھی اس میں کوئی تغیرو تبدل نہیں ہوتا۔ اِسی دریافت کی بنا پر ایک سائنس داں (سر جیمس جینز) نے اپنی کتاب ’’ مسٹیریس یُونیوَرس‘‘ میں لکھا ہے :کائنات کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بنانے والا ایک ریاضیاتی دماغ (Mathematical Mind) ہے۔
کسی چیز کے بامعنٰی ہونے کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ قابِل پیشین گوئی (predictable) ہو۔ یہ صفت موجودہ کائنات میں مکمل طورپَر موجود ہے۔ جس کا ایک ثبوت اوپر کی مثال میں نظر آتا ہے۔
جو لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ موجودہ کائنات ایک اتفاقی حادثہ (accident) کے طورپر وجود میں آئی ہے، نہ کہ کسی خالق کے ارادے کے تحت۔ یہ جملہ گریمر کے اعتبار سے درست ہے۔ مگر حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے وہ درست نہیں۔ اگر یہ مانا جائے کہ موجودہ بامعنٰی کائنات ایک حادثے کے طورپر ظہور میں آئی ہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بے شعور حادثہ بھی ایک ایسا عامل ہے، جو بامعنٰی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے۔ ایسی حالت میں حادثے کو لازمی طَور پَر قابلِ تکرار (repeatable) ہونا چاہیے۔ اُس کو بار بار وقوع میں آنا چاہیے۔ جس طرح بے شعور حادثے نے ایک بار ایک بامعنٰی کائنات بنائی، اسی طرح دوبارہ ایسا ہونا چاہیے کہ حادثات کے ذریعے کوئی بامعنی چیز وجود میں آجائے۔
مگر جیسا کہ معلوم ہے، دوبارہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سائنسی اندازے کے مطابق، موجودہ کائنات کی عمر تقریباً 13.8 بلین سال ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس لمبے عرصے میں کوئی بامعنٰی کائنات استثنائی طور پر صرف ایک بار وجود میں آئی، اس کے بعد کبھی نہیں، حتیٰ کہ جُزئی طورپر بھی نہیں۔ مثلاً ایسا نہیں ہُوا کہ دوبارہ کوئی نیا شمسی نظام بن جائے، دوبارہ کسی سیّارے پَر پانی اور ہَوا اَور سبزہ جیسی چیزیں وجود میں آجائیں، دوبارہ کوئی ایسی زمین بن جائے جہاں انسان اور حیوان پیدا ہو کر چلنے پھرنے لگیں۔یہ استثناواضح طورپر ارادی تخلیق کا ثبوت ہے۔
تمام انسانی عُلوم کے مطابق، موجودہ دنیا کامل طور پر ایک استثنائی واقعہ ہے۔ وہ تاریخِ موجودات میں ایک نادر استثنا ہے۔ کائنات کا استثنا ہونا منکرینِ خدا کے مذکورہ نظریے کی یقینی تردید ہے۔ کائنات اگر صرف ایک حادثے کا ظہور ہوتی تو یقینی طورپر وہ قابلِ تکرار ہوتی، اور جب وہ قابلِ تکرار نہیں تو حادثے کی اصطلاح میں اس کی توجیہہ کرنا بھی سراسر بے بنیاد ہے۔ ایسی توجیہہ علمی طورپر قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کا وجود اتنا ہی یقینی ہے، جتنا کہ کسی انسان کے لیے خود اُس کا اپنا وجود۔ کوئی شخص اگر اپنے وجود کو مانتا ہے تو ٹھیک اسی دلیل سے اُس کو خدا کے وجود کو بھی ماننا پڑے گا۔ اپنے وجود کو ماننا اور خدا کے وجود کو نہ ماننا ایک فکری تضاد ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ آدمی اس فکری تضاد کا تحمل نہیں کرسکتا۔
سترہویں صدی کے مشہور فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (René Descartes, 1596-1650) نے کہاتھا:’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
“I think, therefore I exist.”
یہ اصول بلا شبہ ایک محکم اصول ہے۔ اس اصول کے مطابق، خود شناسی(self realization) آدمی کو خدا شناسی (God realization) تک پہنچاتی ہے۔ اس اصول کے مطابق، یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا وجود بھی ہے‘‘:
I exist, therefore God exists.
کائنات کا قابلِ تکرار نہ ہونا واضح طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کو ایک باشعور وجودنے اپنے ارادے کے تحت بنایا ہے۔ اس طرح پوری کائنات میں زمین ایک نادر استثنا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم جو زمین پَر موجودہے وہ وسیع کائنات میں کہیں بھی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلا انسان چاند پر گیا، اور وہاں یہ دیکھا کہ چاند ایک خشک چٹان کے سوا اور کچھ نہیں تو اس کا یہ حال ہُوا کہ جب وہ دوبارہ زمین پر اُترا تو وہ جذباتی ہیجان کے تحت زمین کے اوپر سجدے میں گر پڑا۔ کیوں کہ اُس نے زمین جیسی کوئی موافقِ حیات (pro-life) چیز خَلا(space) میں کہیں اور نہیں دیکھی— خدا ایک ثابت شدہ وجود ہے، خدا کو ماننا ایک ثابت شدہ چیز کو ماننا ہے، اور خدا کا انکار کرنا ایک ثابت شدہ چیز کا انکار کرنا۔