7۔ نظامِ عصبي كس طرح بنتا هے
فرانسس كريك(1916-2004) ، سالك انسٹي ٹيوٹ(Salk Institute for Biological Studies)، كيلي فورنيا: حياتياتي ترقيات ميں شايد سب سے بڑا علمي چيلنج يه سوال هے كه ايك جاندار ميں عصبي نظام كي تشكيل كس طرح هوتي هے۔ بهت سال پهلےامریکن نوبل انعام یافتہ سائنٹسٹ راجر اسپري (Roger Wolcott Sperry, 1913-1994)نے تجربه كركے دكھايا تھا كه اگر ايك دريائي چھپكلي كي آنكھ اس طرح نكالي جائے كه اس كي نظر كي نس آنكھ سے دماغ تك ٹوٹ جائے۔ اس كے بعد اگر اس كي آنكھ كو دوباره الٹ كر بھي لگا ديا جائے تو نظر كي نس آنكھ كے پردے سے دوباره شروع هوكر دماغ كي طرف بڑھے گي، اور دوباره اس سے جڑ جائےگي۔ كچھ عرصے كے بعد جانور اِس آنكھ سے دوباره ديكھ سكتا تھا، مگر هميشه الٹي شكل ميں (كيونكه آنكھ الٹي لگي هوئي تھي)۔ دوسرے لفظوں ميں يه كه نيا تعلق بالكل درست تھا۔ سوائے اس کے كه آنكھ كو يه پته نه تھا كه وه الٹي لگي هوئي هے۔ يه نتائج بتارهے هيں كه اعصاب كے ايك نظام كو اعصاب كے دوسرے نظام سے ٹھيك ٹھيك مربوط كرنے كے ليے بهت هي درست اور پيچيده طريقے كار فرما هوتے هيں۔ مگر يه طريقِ عمل كيا هے، اس كو هم متعين طورپر نهيں جانتے۔ (دوسرے لفظوں ميں خود يه واقعہ كه آنكھ الٹي لگي هوئي تھي، اس بات كو ظاهر كرتا هےكه رابطے كس قدر متعين هوتے هيں)۔