سائنس سے معرفت تک
انسان کی تخلیق کا مقصد قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (51:56)۔ یعنی میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ لیعبدون کی تفسیر صحابیٔ رسول عبد اللہ بن عباس (المجالسة وجواهر العلم للدینوری، اثر نمبر 225)،اور ان کے شاگرد مجاہد تابعی (وفات104ھ)نے لیعرفون سے کی ہے (وقال مجاہد:إلا لیعبدون:لیعرفون)البحر المحیط، لأبی حیان الأندلسی، 9/562۔ یعنی اللہ کی عبادت کرنے کا مطلب ہے اللہ کی معرفت حاصل کریں۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ابن جریج (وفات150 ھ) کے حوالے سے یہی بات نقل کی ہے۔قال ابن جریج:إلا لیعرفون (تفسیر ابن کثیر، 7/425)۔ ابن جريج نے کہا: تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔
اس معرفت کا تعلق انسان کی ذات سے ہے۔ انسان ایک صاحبِ ارادہ مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ انسان کے اندر تصوراتی سوچ (conceptual thinking) کی صلاحیت ہے۔ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے، جو انسان کے علاوہ کسی دوسری معلوم مخلوق کو حاصل نہیں۔انسان کے لیے معرفت کا تعین اسی خصوصی صلاحیت بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے انسان کے لیے معرفت کا معیار خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) ہے۔ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے سوچنے کی طاقت (thinking power) کو ڈیولپ کرے۔ یہاں تک کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ وہ سیلف ڈسکوری کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرلے۔