گلیلیو گلیلی

 راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس بالواسطہ طریقِ کار کا آغاز گلیلیو کے زمانے میں ہوا، جب کہ گلیلیو نے دوربین کا استعمال کیا۔ یعنی دور بین کے ذریعے پہلی بار وہ سائنسی طریقِ کارشروع ہوا، جو حقیقت اعلیٰ کی معرفت کے لیے ضروری ہے۔

چنانچہ کوانٹم فزکس (quantum physics)کے زمانے میں یہ ثابت ہوا کہ مادہ (matter) کا آخری جزء سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) ہے، اور سب ایٹمک پارٹکل براہِ راست طور پر قابلِ مشاہدہ نہیں۔ یہ سب ایٹمک پارٹکل مسلسل طور پر حرکت کی حالت میں رہتا ہے۔ اس حرکت کے دوران اس سے ہیٹ جنريٹ (heat generate) ہوتا ہے۔ یہ ہیٹ (heat)بالواسطہ طور پر قابلِ دریافت ہے۔ اس طرح مادہ کا آخری جزء قابلِ دریافت بن جاتا ہے۔یہی معاملہ خالق کائنات کا ہے۔ خالق کائنات بلاشبہ اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے۔ لیکن انسان کی نسبت سے وہ صرف بالواسطہ طور پر قابلِ دریافت ہے۔

اصل یہ ہے کہ فلاسفہ خدا کی تلاش میں تو سرگرداں رہے، لیکن وہ کبھی یقین کے درجے میں خدا کی دریافت تک نہ پہنچ سکے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کا طریقہ غیر عملی تھا۔ فلسفیانہ طریقے پر خدا تک پہنچنے والے تمام اہلِ علم خدا کی تلاش کے لیے صحیح میتھڈ (right method) دریافت نہ کرسکے۔ یہ تمام لوگ خدا کو براہِ راست دیکھنا چاہتے تھے، حالاں کہ خدا کی معرفت صرف بالواسطہ انداز میں ممکن تھی۔

ہر ایک نے یہ چاہا کہ وہ خدا کو براہ راست طور پر دریافت کریں، جیسے وہ عالم خلق کی دوسری چیزوں کو دریافت کرتے ہیں ۔ لیکن یہ طریقہ خالق (خدا) کے معاملے میں قابلِ عمل نہ تھا۔ اس لیے وہ کامیاب بھی نہیں ہوا۔ سیکولر فلاسفہ اور مذہبی متکلمین دونوں کا کیس اس معاملے میں ایک ہی ہے۔

اس معاملے کا صحیح طریقِ کار کیا ہے۔ اس کی رہنمائی تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی پیغمبر حضرت موسی کے قصے میں ملتی ہے۔ پیغمبر موسی ساڑھے تین ہزار سال پہلے قدیم مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کا قصہ تفصیل کے ساتھ قرآن میں آٰیا ہے۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ کوہِ طور پر پیش آیا، جو صحرائے سینا میں 2285 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس واقعے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کو براہ راست نہیں دیکھ سکتا۔ خدا کے وجود کا علم انسان کو صرف بالواسطہ طور پر حاصل ہوتا ہے، یعنی تخلیق (creation)پر غور کرکے خالق (Creator)کے علم تک پہنچنا۔ پیغمبر موسی کے تجربے کی صورت میں یہ رہنمائی تاریخ میں ساڑھے تین ہزار سال سے موجود تھی، لیکن اہلِ علم کبھی اس طریقِ کار (methodology) کو اختیار نہ کرسکے۔ وہ بدستور اس کوشش میں لگے رہے کہ وہ خالق کو براہ راست دریافت کرسکیں۔

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:إِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔یعنی بےشک اللہ ضرور ہی اس دین کی تائید فاجر آدمی کے ذریعے کرے گا۔ اس حدیث میں الرجل الفاجر سے مراد سیکولر انسان ہے۔ اس طرح حدیث میں مستند طور پر یہ سراغ (clue) موجود تھا کہ اس معاملے میں ایک سیکولر انسان ہوگا جو ابتدائی رہنمائی فراہم کرے گا۔ لیکن فلاسفہ اور مسلم متکلمین دونوں اس معاملے میں صحیح رہنمائی تک نہ پہنچ سکے۔

راقم الحروف لمبی مدت تک اس موضوع پر غور کرتا رہا ہے،اور آخر کار اس دریافت تک پہنچا کہ صحیح البخاری میں جس الرجل الفاجر (سیکولر انسان) کا ذکر ہے، غالباًان میں ایک اٹلی کا سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) ہے، جو چار سو سال پہلے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں گلیلیو کا رول چونکہ براہ راست نہیں تھا، بلکہ بالواسطہ تھا۔ یعنی اس کی دریافت سے بالواسطہ طور پر اس سوال کا جواب مل رہا تھا کہ خدا کی معرفت تک پہنچنے کا طریقِ کا ر (method) کیا ہے۔

گلیلیو گلیلی کے زمانے میں ایک واقعہ ہوا، جس کو نیوٹن کے ایپل شاک (apple shock) کی طرح ٹیلی شاک (tele-shock) کہا جاسکتا ہے، یعنی دوربین کی دریافت۔آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ گلیلیو جدید سائنس کا بانی تھا:

Galileo was the “father of modern science.”

یہ ایک حقیقت ہے کہ گلیلیو سے سائنس میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن اس دور کے آغاز کا اصل سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں دور بین (telescope) کو 1608 میں ابتدائی طور پر ہالینڈ میں ایجاد کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1609 میں گلیلیو نے اس دوربین کا ترقي يافته ورژن (developed version)خود سے تیار کیا،اورپہلی بار دور بين كو استعمال کرکے شمسی نظام (solar system)کا جزئی مشاہدہ کیا ۔ اس مطالعے کے ذریعے گلیلیو نے پہلی بار یہ دریافت کیا کہ ارسطو کا قدیم نظریہ غلط تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

اس نظریے کو علم کی زبان میں ہیلیو سینٹرک تھیَری (heliocentric theory) کہاجاتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے دنیا میں جیو سینٹرک تھیَری (geocentric theory) کا رواج تھا۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جس طرح نیوٹن کی کشش ثقل کا نظریہ ایپل شاک کے واقعے کے بعد دریافت ہوا ، اسی طرح گلیلیو کی دریافت کا آغاز’’ٹیلی شاک‘‘ کے بعد پیش آیا۔ یہی واقعہ جدید سائنس (modern science)کے آغاز کا سبب بنا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دور بین کی ایجاد سے نئے سائنسی دور کا آغاز ہوا، اور اس امکان کو پہلی بار جس نے استعمال کیا، وہ اٹلی کا سائنس داں گلیلیو گلیلی تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom