توحيد كا تصور اسلام ميں

كائنات كا ايك خالق هے۔ اس نے اپنے منصوبے كے مطابق اس كو بنايا هے، اور وهي اس كو چلا رها هے۔ جس طرح ساري كائنات خدا كي اطاعت كررهي هے، اسي طرح انسان كے ليے بھي صحيح رويه صرف يه هے كه وه اپنے خالق كا فرماں بردار بن كر زندگي گزارے۔تمام انبيا يهي بتانے كے ليے آئے اور كائنات اپنے پورے وجود كے ساتھ هر لمحہ آدمي كو يهي سبق دے رهي هے— يهی اسلامي توحيد ہے۔

قرآن میں ہے: أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ( 14:10)۔یعنی کيا تمھيں شك هے الله كے بارے ميں جس نے زمين وآسمان كو پھاڑا ۔ قرآن كا يه بیان بہ ظاهر ايك سوال هے مگر حقيقةً وه سوال كا جواب هے۔ اس آيت ميں فاطر (پھاڑنے والا) كا لفظ وجودِ خداوندي كے حق ميں ايك قطعي دليل هے، جس كو قرآن میں دوسرے مقام پراس طرح بيان كيا گياهے:(ترجمہ)كياانكار كرنے والوں نے نهيں ديكھا كه زمين وآسمان باهم ملےهوئے تھے۔ پھر هم نے ان كو جدا كرديا ۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے (21:30)۔

اندازہ كياگياهے كه كائنات كا موجوده دائره (Radius) 2019 کی تحقیق کے مطابق 46.5 بلین نوری سال (46.5 billion light years) هے، اور یہ کہ كائنات ايك حالت پر ٹھهري هوئي نهيں هے۔ بلكه يكساں رفتار سے اپنے چاروں طرف مسلسل پھيل رهي هے۔اس كا مطلب يه هے كه ماضي ميں كسي وقت كائنات سمٹي هوئي حالت ميں تھي۔ فلكيات دانوں كے خيال كے مطابق،ابتدا میں پوري كائنات ايك بڑے ايٹم (super atom) كي صورت ميں تھي۔ اس كے تمام اجزا بے حد قوت كے ساتھ اندر كي طرف كھنچے هوئے تھے۔ تقريباً 13.8 بلین سال پهلے اس ابتدائي ماده ميں ايك دھماكه يا اخراجِ طاقت (energy release) كا واقعه هوا ،جس كے نتيجے ميں سپر ايٹم كے اجزا اپنے مركز سے ٹوٹ كر اپنے چاروں طرف پھيلنے لگے تاكه موجوده كائنات كو وجود دے سكيں۔ سپرايٹم كے اندر اس وقت جو اسباب كام كررهے تھے ،وه تمام تر صرف اندر كي طرف كھنچنے اور سمٹنے كے تھے۔ اپنے ذاتي قانون كے برخلاف اس كے اجزا كا باهر كي طرف سفر شروع كرنا لازماً كسي خارجي طاقت كي مداخلت هي سے هوسكتا تھا۔ يه واقعه هم كو مجبور كرتاهے كه هم كائنات كے ماسوا ايك آزاد طاقت ور ترین هستي كا وجود تسليم كريں،اور یہ کہ اس نے اپنے شعوري عمل سے ابتدائي ماده كے اندر يه غير معمولي حركت پيدا كي۔

قرآن میں ایک مقام پر کائنا ت کے نظم کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: زمين وآسمان ميں اگر ايك خدا كے سوا كوئي اور خدا هوتا تو ضرور ان ميں بگاڑ پيداهوجاتا (21:22) ۔قرآن كے يه الفاظ اُس كائناتي واقعے كي طرف اشاره كررهے هيں، جو اِس بات كا ثبوت فراهم كرتاهے كه يه مافوق طاقت صرف ايك هے، كئي نهيں۔ تمام طبيعي علوم حيرت انگيز طور پر اس كي تصديق كرتے هيں كه پوري كائنات ايك هي قانون كے تحت چل رهي هے۔ جو قوانين زمين پر كام كررهے هيں، وهي نهايت صحت كے ساتھ اجرامِ سماوي ميں بھي كارفرما هيں۔ يهي يقين تھا جس نے انسان كو آماده كيا كه وه كھربوں ڈالر خرچ كركے خلائي مشينيں بنائے، اور ان كو چاند اور مريخ پر عين اپنے اندازے كے مطابق اتار سكے۔

اگر ساري كائنات ايك قانون كے تحت مكمل صحت كے ساتھ عمل نه كررهي هو تو زمين پر لگي هوئي هماري دور بينيں وسيع كائنات ميں آٹھ هزار ملين سالِ نور تك نه ’’ديكھ‘‘ سكيں۔ همارے طبيعي علوم اچانك اپني تمام اهميت كھوديں۔ كائنات كا اس قدر درست طورپر وحداني حالت ميں هونا بتاتا هے كه وه صرف ايك خدا كے كنٹرول ميں هے۔ اگر وه كئي خداؤں كے كنٹرول ميں هوتي تو يقيناً اس ميں انتشار برپا هوجاتا۔ مختلف خداؤں كي كش مكش ميں وه درهم برهم هو كر ره جاتي۔ زمين پر ايك قانون كي حكمراني هوتي اور سياروں پر دوسرے قانون كي۔قرآن میں ایک مقام پر کائنات کے مینجمنٹ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:(ترجمہ)الله نے پيدا كي هر چيز اور پھر هر ايك كا ايك اندازه مقرر كرديا (25:2)۔ طبيعياتي مشاهده بتاتا هے كه كائنات كي هرچيز كا ايك قانون هے، اور وه انتهائي لزوم كے ساتھ اس پر قائم هے۔

 انسائیکلوپیڈیا آف اگنورنس میں ڈاکٹر آئن رکسبرگ (پروفيسر تطبيقي رياضيات، كوئن ميري كالج لندن) لکھتے ہیں:’’كائنات تعجب خيز حد تك يكساں (uniform) هے۔ هم خواه كسي طورپر بھي اس كو ديكھيں، كائنات كے اجزا ميں وهي تركيب اسي تناسب سے پائي جاتي هے۔ زمين پر جو طبيعياتي قوانين دريافت كيے گئے هيں، وه تحكمي اعداد (arbitrary numbers) پر مشتمل هيں۔ جيسے الكٹران كي مقدارِ ماده كا تناسب ايك پروٹان كے مقدارِ ماده (mass) سے، جو كه تقريباً 1840 كے مقابلے ميں ايك هوتاهے۔ يهي تناسب هر جگه اور هر وقت پايا جاتاهے۔ ايسا كيوں هے۔ كيا ايك خالق نے تحكمي طورپر(arbitrarily) انھيں اعداد كا انتخاب كرركھاهے۔ کیا کائنات کے وجود کے لیے ان اعداد میں وہی تناسب ضروری ہے جو ہم دیکھتے ہیں ؟‘‘ (سنڈے ٹائمس لندن 4 دسمبر 1977)

يه واقعه صاف طورپر بتاتاهے كه كائنات هر آن ايك زبردست هستي كے كنٹرول ميں هے۔ جو خدا كائنات كا خالق هے، وهي اس كا حكمراں بھي هے۔اس سلسلے ميں يه بات كوئي اهميت نهيں ركھتي — ’’خدا اگر هے تو هم كو نظر كيوں نهيں آتا۔‘‘ هم ايك ايسي دنيا ميں هيں جهاں همارے ليے اس كے سوا چاره نهيں كه چيزوں كو ديكھے بغير مانيں۔ يه صرف خدا كے عقيدے كا سوال نهيں هے۔ هم جس كائنات ميں هيں اور جس كو هم بهر حال مانتے هيں، اس ميں بے شمار چيزيں هيں، جن كو هم نهيں ديكھتے، اور نهيں ديكھ سكتے۔ مگر اس كے باوجود هم ان كو ماننے پر مجبور هيں۔ خدا كے سوا موجوده كائنات كو بھي هم ايمان بالغيب كا طريقه اختيار كيے بغير نهيں سمجھ سكتے۔ مثال كے طورپر ايٹم ميں كئي قسم كے ذرات (particles) تسليم كيے گئے هيں۔ ان ميں سے ايك نيوٹرينو (neutrino) هے۔ كهاجاتا هے كه اس ذرے ميں كوئي برقي چارج نهيں هوتا۔ حتي كه اس ميں كوئي ماده (mass) بھي نهيں هوتا۔ گويا وه ايك لا شئے وجود هے۔ ايك سائنس داں كے الفاظ ميں— نيوٹرينو لاشئے كا ايك چھوٹا سا پلندہ هے:

Neutrino is a tiny bundle of nothing.

 اس لا شئے كا وجود كيوں تسليم كيا جاتا هے۔ اس كي وجه يه هے كه ايٹم(atom) ميں بعض ايسے خواص ظاهر هوتےهيں، جن كي توجيهه اس كے بغير نهيں بنتي كه ايٹم كے ڈھانچے ميں ايك غير ذره (non-particle) كا وجود تسليم كيا جائے۔ اس مفروضه نيوٹرينو كے عجيب وغريب اوصاف ميں سے ايك يه بھي هے كه وه كسی بھي مادي جسم سے بغير روك ٹوك گزر سكتا هے۔ حتي كه وه اپنے سفر ميں پورے كرهٔ ارض كو اس كے اندر سے پار كرسكتا هے۔ نيوٹرينو كي اس خصوصيت كو انساني استعمال ميں لانے كے ليے امريكا ميں تجربات هو رهے هيں۔ سائنس دانوں كا خيال هے كه اگر نيوٹرينوكي اس خصوصيت كو قابل استعمال بنايا جاسكا تو پيغام رساني كي دنيا ميں انقلاب آجائے گا— كائنات ميں كسي چيز كو ’’ديكھنا‘‘ خالص علمي طورپر اس قدر ناممكن هے كه سائنسي فلاسفي كے درميان خود اس امر ميں اختلاف پيدا هوگيا هے كه وه كائنات كو ايك خارجي (objective) واقعه قرار ديں يا محض ايك ذهني يا داخلي(subjective) طورپر محسوس كي جانے والي چيز۔

خدا كو مانناكبھي انسان كے ليے اتنا مشكل نهيں رها هے، جتنا خدا كا صحيح تصور قائم كرنا۔ تمام معلوم زمانوں سے انسان خدا كو مانتا رها هے، اور آج بھي كرهٔ ارض كي آبادي كي بهت بڑي اكثريت خدا كے وجود كا اقرار كرتي هے۔ مگر اصل كمي هميشه يه رهي هے كه خدا كو ماننے كے باوجود لوگ اس كے ساتھ ايسے عقيدے جمع كرليتے هيں، جس سے ماننا اور نه ماننا دونوں يكساں هوجاتاهے۔ كسي نے خدا كو مانتے هوئے اس كي ايسي تعبير كي كه خدا كا كوئي عليحده اور مستقل وجود هي مشتبه هوگيا۔ كسي نے خدا كو مانا مگر اسي كے ساتھ اس كے ايسے شركا يا مقربينِ بارگاه فرض كرليے جس كے بعد خدا كي خدائي بے معني هو كر ره گئي۔

خدا كے معاملے ميں انسان كے بے راه هونے كي وجه هميشه صرف ايك رهي هے۔ كائنات كے معلوم واقعات پر خدا كو قياس كرنا — انسان كے يهاں بيٹے بيٹياں هوتي هيں، اس ليے فرض كرلياگيا كه خدا كے لیے بھي بيٹے بيٹياں هوںگي۔ اور اس طرح ايك مقدس خدائي خاندان تيار هوگيا۔ دنيا كے بادشاهوں كے يهاں كچھ مصاحبین اور درباری لوگ هوتے هيں۔ اس ليے فرض كرليا گيا كه خدا كے يهاں بھي كچھ مقرب هيں، جن كو اس نے اختيار دے ركھا هے، اور جن كي باتوں كو وه سنتا هے۔ دنيا ميں بهت سي طاقتيں كام كرتي هوئي نظر آئيں۔ مثلاً سورج، ستارے، دريا وغيره۔ فرض كرليا گيا كه يه سب خدائي ميں شريك هستياں هيں، اور بڑے خدا كے ساتھ مل كر خدائي كو چلا رهي هيں۔ اس طرح خدا كا معامله ايك قسم كا ’’مشترك كاروبار‘‘ كا معامله بن گيا، وغيره۔

مظاهر پرستي كي يهي قسم تھي، جس نے فلسفيانه ذهنوں ميں پهنچ كر وحدتِ وجود كي صورت اختيار كي۔ لوگوں نے ديكھا كه ايك كائنات هے ،جو انسان سے لے كر ستاروں تك بے شمار چيزوں سے بھري هوئي هے۔ وه اس تنوع ميں وحدت تلاش كرنا چاهتے تھے۔ انھوں نے كها كه ايك مطلق خدا هے، جو اپنے آپ كو مختلف شكلوں ميں ظاهر كررها هے۔ اس طرح خدا كا تصور ايك ايسے مجرد خيال كي صورت ميں ڈھل گيا، جس كي اپني عليحده كوئي هستي نه هو۔ هر چيز اسي سے نكلتي هو، اور ختم هو كر دوباره اسي ميں مل جاتي هو۔ اسي تصور نے ’’انساني خداؤں‘‘ كا عقيده پيدا كيا۔ يه فرض كرليا گيا كه كچھ لوگ اپني رياضتوں سے اپني دنيوي حيثيت كي اس طرح نفي كرليتے هيں كه وه جيتے جي خدا سے مل جاتےهيں، اور اس طرح اپني زندگي هي ميں اس خدا كا جزء بن جاتے هيں جس كا جزء دوسرے لوگ مرنےكے بعد، ان كے عقيدے كے مطابق، بننے والے هيں۔

اسلام نے خدا كے تصور سے اِن تمام مفروضہ قیاس آرائیوں كو جدا كيا۔ اس نے بتايا كه اس طرح كا هر اضافه دراصل خدا كے عقيدے كي نفي هے۔ خدا وهي خدا هے جو هر لحاظ سے يكتائي كي صفت ركھتاهے۔ جو اپني ذات وصفات ميں اشتراك كي تمام قسموں سے پوري طرح پاك هو۔ قرآن میں اس حقیقت کواس طرح بیان کیا گیا ہے:(ترجمہ) كهه دو كه الله ايك هے۔ الله بے احتياج هے۔ اس كی اولاد نهيں۔ نه وه كسي كي اولاد هے۔ اور نهيں هے اس كے برابر كوئي (112:1-4) ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom