درست فریم ورک
یہ تصور ہم کو وہ فریم ورک دے دیتا ہے، جس میں زندگی اور کائنات کی ہر چیزاپنی اطمینان بخش توجیہہ پاسکے۔ اس تصور سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جنت اور جہنم کیا ہے۔ جنت گویا سنجیدہ اور حق پرست لوگوں کی آرام گاہ ہے اور جہنم گویا سرکش اور باطل پرستوں کا عذاب خانہ۔
اس کے مطابق جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو عالم امتحان(testing ground) کے طورپر بنایا گیا ہے، اور اگلی دنیا کو اپنا انجام پانےکے لیے۔ انسان کو پیدائشی طورپر ابدی مخلوق کی حیثیت سے بنایا گیا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت عطا ہوئی ہے۔ تاہم انسان کی زندگی گویا آئس برگ کی مانند ہے، جس کا بہت چھوٹا حصہ اوپر دکھائی دیتا ہے، اور اس کا پورا بقیہ وجود سمندر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کی مدتِ عمر (life span) دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس کا بہت چھوٹا حصہ موجودہ دنیا میں رکھا گیا ہے، اور اس کی مدتِ حیات کا زیادہ بڑا حصہ عالم آخرت میں رکھ دیا گیا ہے۔
موجودہ دنیا کی ہر چیز انسان کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز اس لیے ہے تاکہ انسان اپنی شخصیت کو مکمل کرے۔ مثال کے طورپر موجودہ دنیا طرح طرح کی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ انسان ان تجربات سے گزرتے ہوئے یہ ثبوت دے کہ وہ منفی حالات میں بھی مثبت احساسات کے ساتھ جی سکتا ہے۔ ایسے ہی مثبت شخصیات کے لوگ جنت کی معیاری دنیا میں داخل کیے جائیں گے۔ اس کے برعکس، جو لوگ ردّ ِعمل کا شکار ہوگئے، اور منفی تجربات کے درمیان خود بھی منفی بن گئے، ایسی منفی شخصیت رکھنے والے لوگوں کوجنت کے لیے نا اہل قرار دیا جائے گا۔ وہ کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیے جائیں گے، جہاں سے وہ کبھی نکل نہ سکیں گے۔
عضویاتی ارتقا کے نظریے کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک فیکٹ سمجھا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ عضویاتی ارتقا کے نظریے کے حق میں مشاہداتی دلائل حاصل ہوگئے ہیں۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کو ماننے کی صورت میں حیاتیاتی شواہد کی ایک قابلِ فہم توجیہہ حاصل ہوجاتی ہے۔ جب کہ علما ئےسائنس کے نزدیک، دوسرا کوئی ایسا نظریہ موجود نہیں جو معلوم حیاتیاتی شواہد کی توجیہہ کرتاہو۔ گویا نظریۂ ارتقا ایک قابلِ عمل نظریہ (workable theory) ہے، نہ کہ معروف معنوں میں کوئی ثابت شدہ نظریہ(proved theory)۔