سائنس اور الہٰیات
پروفیسر پال ڈیویز(Paul Davies, b. 1946) مشہور امریکی رائٹر ہیں۔ وہ ایری زونا اسٹیٹ (Arizona State) یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر بیانڈ(Beyond) کے ڈائریکٹر ہیں، اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام گولڈی لاکس انِگما(Goldilocks Enigma) ہے۔ حال میں ان کا ایک مقالہ گارجین (Guardian Newspapers Limited 2007) میں چھپا ہے۔ اِس مقالے کو انگریزی اخبار ہندو(The Hindu)نے اپنے شمارہ 27 جون 2007 میں اِس عنوان کے تحت شائع کیا ہے— تخلیق پسندوں کے استدلال میں دراڑ:
Flaw in creationists' argument
مضمون نگارلکھتے ہیں کہ ’’سائنس داں دھیرے دھیرے ایک ناگوار سچائی (inconvenient truth) تک پہنچ رہے ہیں، وہ یہ کہ کائنات ایک نہایت محکم کائنات ہے۔ سائنس داں چالیس سال سے کائنات میں کام کرنے والے قوانینِ طبیعی کی تحقیق کررہے ہیں۔ یہ تحقیق، کائنات کے پیچھے ایک شعوری وجود (conscious being) کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کائنات کے قوانین میں سے کسی ایک کو بھی اگر بدلا جائے تواس کا نتیجہ نہایت مہلک ہوگا۔ کائنات اتنی زیادہ منظم ہے کہ اس کے موجودہ ڈھانچے میں معمولی تبدیلی بھی اس کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ساری کائنات ایٹم سے بنی ہے۔ اور ہر ایٹم نیوٹران اور پروٹان کامجموعہ ہے۔ نیوٹران کسی قدر وزنی ہوتا ہے، اور پروٹان کسی قدر ہلکا۔ یہ تناسب بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا الٹا ہو، یعنی پروٹان بھاری ہو اور نیوٹران ہلکا، تو معلوم قوانین کے مطابق، ایٹم کا وجود ہی نہ رہے گا۔ جب نیوکلیس نہ ہوگا تو ایٹم بھی نہ ہوگا، اور جب ایٹم نہ ہوگا تو کیمسٹری بھی نہیں ہوگی، اور جب کیمسٹری نہیں ہوگی تو زندگی بھی نہیں ہوگی۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ سائنس ناقابلِ حل سوالات سے دوچار ہے۔ مثلاً طبیعیات کے موجودہ قوانین کہاں سے آئے، وہ اپنی موجودہ محکم حالت میں کیوں قائم ہیں، وغیرہ۔ روایتی طور پر سائنس داں یہ فرض کررہے تھے کہ یہ قوانین، کائنات کا لازمی حصہ ہیں۔ قوانینِ طبیعی کی حقیقت کی کھوج کرنا، سائنس کا موضوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سوالات سائنس دانوں کو پریشان کررہے ہیں۔
کیمبرج کے سائنس داں مارٹن ریس(Martin John Rees, b. 1942) جو کہ ’رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی‘ کے صدر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین، مطلق اور آفاقی نہیں ہیں، وہ ایک بڑے کائناتی نظام کے متفرق حصے ہیں۔ ہر حصے کے اپنے ضوابط ہیں۔ وہ اِس نظام کو متعدّد کائناتی نظام (the multiverse system) کہتے ہیں۔ اِن تحقیقات کے مطابق، ہماری کائنات ایک ایسی کائنات ہے ،جو موافقِ حیات قوانین (bio-friendly laws) کی حامل ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات کو ہم اِس طرح پاتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاںانسان کا قیام ناممکن ہوجاتا۔ یہ محکم قوانین جو کائنات کو نہایت منظم طورپر کنٹرول کررہے ہیں، وہ کہاں سے آئے۔
تمام مشکلات کا سبب، جدید مفکرین کے نزدیک، یہ ہے کہ مذہب اور جدیدسائنس، دونوں کائنات کا جو تصور دے رہے ہیں، وہ کائنات کے علاوہ ایک ایسی ایجنسی کا تقاضا کرتے ہیں، جو کائنات کے باہر سے کائنات کا نظم کررہی ہو۔ تاہم کائنات کی توجیہہ کے لیے ایک ایسے ڈزائنر کو ماننا جو کائنات سے پہلے موجود ہو، وہ اِس مسئلے کی کوئی توجیہہ نہیں۔ کیوںکہ یہ توجیہہ فوراً یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ڈزائنر نے اگر کائنات کو بنایا تو خود ڈزائنر کو کس نے بنایا:
Who designed the designer
اگر زندگی کی کوئی آخری معنویت(ultimate meaning)ہے، جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں، تو یہ جواب خود نیچر کے اندر ملنا چاہیے، نہ کہ اُس سے باہر۔ کائنات ایک محکم کائنات ہوسکتی ہے، لیکن اگر ایسا ہے تو کائنات نے خود ہی اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے‘‘۔