خدا كي موجودگي كا تجربه
اپالو 15 ميں امريكا كے جو تين خلا باز چاند پر گئے تھے، ان ميں سے ايك كرنل جيمز اِروِن (James Irwin, 1930-1991) تھے۔ انھوں نے ايك انٹرويو ميں كها كه اگست 1972 كا وه لمحه ميرے ليے بڑا عجيب تھا، جب ميں نے چاند كي سطح پر قدم ركھا۔ ميں نے وهاں خدا كي موجودگي (God’s presence) كو محسوس كيا۔ انھوں نے كها كه ميري روح پر اس وقت وجداني كيفيت طاري تھي، اور مجھے ايسا محسوس هوا جيسے خدا بهت قريب هو۔ خدا كي عظمت مجھے اپني آنكھوں سے نظر آرهي تھي۔ چاند كا سفر ميرے ليے صرف ايك سائنسي سفر نهيں تھا، بلكه اس سے مجھے روحاني زندگي نصيب هوئي (ٹريبون 27 اكتوبر 1972)۔
كرنل جيمز ارون كا يه تجربه كوئي انوكھا تجربه نهيں۔ حقيقت يه هے كه خدا نے جو كچھ پيدا كيا هے،وه اتنا حيرتناك هے كه اس كو ديكھ كر آدمي خالق كي صناعيوں (wonders)ميں ڈوب جائے۔ تخليق كے كمال ميں هر آن خالق كا چهره جھلك رها هے۔ مگر همارے گردوپيش جو دنيا هے، اس كو هم بچپن سے ديكھتے ديكھتے عادي هوجاتے هيں۔ اس سے هم اتنا مانوس هوجاتے هيں كه اس كے انوكھے پن كا هم كواحساس نهيں هوتا۔ هوا اور پاني اور درخت اور چڑيا غرض جو كچھ بھي هماري دنيا ميں هے، سب كا سب حد درجه عجيب هے، هر چيز اپنے خالق كا آئينه هے۔ مگر عادي هونے كي وجه سے هم اس كے عجوبه پن كو محسوس نهيں كر پاتے۔ مگر ايك شخص جب اچانك چاند كے اوپر اترا، اور پهلي بار وهاں كے تخليقي منظر كو ديكھا تو وه اس كے خالق كو محسوس كيے بغير نه ره سكا۔ اس نے تخليق كے كارنامے ميں اس كے خالق كو موجود پايا۔
هماري موجوده دنيا جس ميں هم رهتے هيں، يهاں بھي ’’خدا كي موجودگي‘‘ كا تجربه اسي طرح هوسكتا هے، جس طرح چاند پر پهنچ كر كرنل اِروِن كو هوا۔ مگر لوگ موجوده دنيا كو اس استعجابي نگاه سے نهيں ديكھ پاتے، جس طرح چاند كا ايك نيامسافر چاند كو ديكھتا هے۔اگر هم اپني دنيا كو اس نظر سے ديكھنے لگيں تو هر وقت هم كو اپنے پاس ’’خدا كي موجودگي‘‘ كا تجربه هو۔ هم اس طرح رهنے لگيں جيسے كه هم خدا كے پڑوس ميں ره رهے هيں، اور هر وقت وه هماري نظروں كے سامنے هے۔
اگر هم ايك اعلي درجے كي مشين كو پهلي بار ديكھيں تو في الفور هم اس كے ماهر انجينئر كي موجودگي كو وهاں محسوس كرنے لگتے هيں۔ اسي طرح اگر هم دنيا كو اور اس كي چيزوں كو گهرائي كے ساتھ ديكھ سكيں تو اسي وقت هم وهاں خدا كي موجودگي كو پاليں گے۔ کائنات کی ہر تخلیق خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
موجوده دنياميں انسان كي سب سے بڑي يافت يه هے كه وه خدا كو ديكھنے لگے، وه اپنے پاس خدا كي موجودگي كو محسوس كرلے۔ اگر آدمي كا احساس زنده هو تو سورج كي سنهري كرنوں ميں اس كو خدا كا نور جگمگاتاهوا دكھائي دے گا، هرے بھرے درختوں كے حسين منظر ميں وه خدا كا روپ جھلكتا هوا پائے گا۔ هواؤں كے لطيف جھونكے ميں اس كو لَمسِ رباني(divine touch) كا تجربه هوگا۔ اپني هتھيلي اور اپني پيشاني كو زمين پرركھتے هوئے اس كو ايسا محسوس هوگا گويا اس نے اپنا وجود اپنے رب كے قدموں ميں ڈال ديا هے۔ خدا اپني قدرت اور رحمت كے ساتھ هر جگه موجود هے، بشرطيكه ديكھنے والي نگاه آدمي كو حاصل هوجائے۔