حکمت ِ تخلیق
12 جون 2009 کو میںنے ایک خوا ب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے انگریزی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ دورانِ گفتگو اُس نے کہا کہ اگر خدا ہے، اور خدا نے موجودہ دنیا کو پیدا کیا ہے تو ہماری زندگی میں اتنی زیادہ سفرنگ (suffering) کیوں:
If there is a God, and God has created the world, then why there is so much suffering in our lives?
اِس خواب کا سوال مجھے یاد ہے، لیکن اس کا جواب مجھے یاد نہیں۔ تاہم میں کہوں گا کہ دنیا کی زندگی میں ہم کو جو مصیبتیں پیش آتی ہیں، وہ مصیبتیں نہیں ہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ چیلنج ہیں۔ وہ انسانی ذہن کو جگاتی ہیں۔ وہ انسان کی عملی قوتوں کو متحرک کرتی ہیں۔ یہ مصیبتیں ہمارے لیے ایک مثبت تجربہ ہیں، وہ کوئی منفی تجربہ نہیں۔
خدا کی تخلیق کے مطابق، اِس دنیا میں ہر چیز کو پوٹنشیل (potential) کے روپ میں پیدا کیاگیا ہے۔ اِس کے ساتھ انسان کو غیر معمولی دماغ دیاگیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرے، اور پوٹینشیل کو ایکچول (actual) میں تبدیل کرے۔
زندگی کانظام اگر اِس طرح ہو کہ یہاں آدمی کو کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو اس کی زندگی میں کوئی ہلچل پیدانہیں ہوگی، اس کی زندگی میںکوئی طوفان نہیں آئے گا۔ ایسا انسان ایک جامد انسان ہوگا۔ وہ حیوان کی مانند جیے گا، اور حیوان کی مانند زندگی گزار کر مرجائے گا۔ لیکن فطرت کا یہ نقشہ نہیں۔ فطرت کا مطلوب انسان وہ ہے، جو حقیقتوں کا سامنا کرے، جو ہلچل کے واقعات کو اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر میں استعمال کرے، جو اپنی ذات میں چھپے ہوئے امکانات کو اپنی جدوجہد سے واقعہ (actual) بنائے۔ جو ناموافق حادثات کو اپنے موافق بنانے کا کارنامہ انجام دے، جو معمولی انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، اور جب وہ مرے تو وہ ایک غیر معمولی انسان بن چکا ہو۔