خدا کے بغیر کائنات بے تعبیر
البرٹ آئن سٹائن(Albert Einstein) بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس داں مانا جاتا ہے۔ وہ 1879 میں جرمنی میںپیدا ہوا، اور 1955 میں امریکا میںاس کی وفات ہوئی۔ 1921 میں اس کو فزکس کا نوبل پرائز دیاگیا۔
البرٹ آئن سٹائن نے عالم مادّی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اُس نے اپنے مطالعے میں پایا کہ کائنات ایک بے حد بامعنیٰ وجود ہے۔ اُس کے ہر پہلو میں اتھاہ حکمتیں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ حکمت ومعنویت کائنات میں کہاں سے آئی۔ آئن سٹائن نے کائنات کی بے پایاں حکمت کو دریافت کیا، لیکن اُس کے حکیم کو وہ دریافت نہ کرسکا۔ اُس نے تعجب کے ساتھ کہا — کائنات کے بارے میں سب سے زیادہ حسین تجربہ جو ہم کو ہوتا ہے، وہ پُراسراریت کا تجربہ ہے:
The most beautiful experience we can have is the mysterious.
البرٹ آئن سٹائن کا ایک دوسرا قول اِس معاملے میں یہ ہے— فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم واقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے قابلِ فہم ہے:
The most incomprehensible thing about the universe is that it is comprehensible.
سائنس داں کو یہ مشکل کیوں پیش آئی۔ اِس لیے کہ کائنات کی معنویت (meaning)کو تو اُس کے دماغ نے دریافت کیا، لیکن اِس معنوی نظام کے خالق کو وہ دریافت نہ کرسکا۔ اس بنا پر وہ تعجب کے ساتھ کہتا ہے کہ جب کائنات کی معنویت انسان کے لیے قابلِ مشاہدہ ہے تو اس کے لیے وہ ہستی کیوں ناقابلِ مشاہدہ ہے، جس نے کائنات میں اِس معنویت کو پیدا کیا ہے، جب حکمت موجود ہے تو آخر اس کا حکیم کہاں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خدا کے عقیدے کے بغیر کائنات بے معنیٰ بن جاتی ہے۔ یہ صرف خدا کا عقیدہ ہے جو کائنات کی معنویت کو انسان کے لیے قابلِ فہم بناتا ہے۔